برسوں تک خواتین کا ریپ کرنے والا پادری: وہ بیٹی جسے اپنے باپ کے خلاف کھڑے ہونے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا

بی بی سی نے انکشاف کیا ہے کہ کس طرح میگا چرچ کے مرحوم رہنما ٹی بی جوشوا، جن پر بڑے پیمانے پر جنسی جرائم کا الزام ہے، نے اپنی ہی بیٹی کو کئی برسوں تک قید میں رکھا اور انھیں تشدد کا نشانہ بنایا۔

صرف یہ ہی نہیں بلکہ اپنی سگی بیٹی کو نائیجیریا کے گُنجان آباد شہر لاگوس کی سڑکوں پر بے یار و مدد گار چھوڑ دیا۔

انتباہ: تحریر میں بتائی گئی تفصیلات کچھ قاریئن کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتی ہیں۔

پادری ٹی بی جوشوا کی بیٹی آجوک کہتی ہیں ’میرے والد کے ذہن پر ایک عجیب سا خوف سوار تھا، ایسا خوف جس نے اُنھیں کبھی نہیں چھوڑا۔ انھیں اس بات کا خوف تھا کہ کوئی بات کر دے گا۔‘

آجوک اپنے والد کے گرجا گھر ’دی سیناگوگ چرچ آف آل نیشنز‘ میں ہونے والی بدسلوکی دیکھنے والی وہ واحد اور پہلی فرد ہیں کہ جنھوں نے بی بی سی سے اپنے والد سے متعلق بات کی۔

ٹی بی جوشوا کی موت 2012 میں ہوئی جب وہ 57 سال کے تھے۔ ان پر تقریباً 20 سال پر محیط بدسلوکی اور تشدد کے واقعات میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔

آجوک کی عمر اب 27 سال ہے۔ وہ چھپ کر زندگی گزار رہی ہیں اور انھوں نے اپنے نام سے جوشوا ہٹا دیا ہے۔ بی بی سی ان کا نیا نام شائع نہیں کر رہا۔

آجوک کی والدہ کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں۔ یہ مانا جاتا ہے کہ ان کی والدہ ان کے والد کے پیروکاروں میں سے ایک تھیں۔ آجوک کہتی ہیں کہ ان کی پرورش جوشوا کی بیوہ ایولین نے کی۔

آجوک کہتی ہیں کہ وہ اپنے بچپن میں بہت خوش تھیں اور سات سال کی عمر تک انھیں ایسی کسی بات کا علم نہیں تھا۔ جوشوا خاندان چھٹیوں میں دبئی جیسی جگہوں پر جاتا تھا لیکن ایک دن سب بدل گیا۔

ایک معمولی چھوٹی بدتمیزی پر آجوک کو سکول سے نکال دیا گیا۔ ایسا ہونے کے چند دن بعد ہی ایک مقامی صحافی نے اخبار میں اُن پر ایک کالم لکھ ڈالا، جس میں آجوک کو ٹی بی جوشوا کی ناجائز اولاد قرار دیا گیا۔ سکول جانا تو اس کے بعد مُمکن نہیں رہا تو انھیں نائجیریا کے ایک گُنجان آباد اور بڑے شہر لاگوس میں موجود والد کے گرجا گھر منتقل کر دیا گیا۔

آجوک کہتی ہیں ’مجھے (گرجا گھر کے) شاگردوں کے کمرے میں لے جایا گیا۔ میں نے اس سب میں کسی بھی قسم کی رضا مندی کا اظہار نہیں کیا تھا مگر اس کے باوجود مجھے ایسا کرنے پر مجبر کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ ’مجھے زبردستی شامل کیا گیا۔‘

یہ شاگرد، ٹی بی جاشوا کے اعلیٰ درجے کے پیروکار تھے اور وہ ان کے ساتھ بھول بھُلیاں جیسے گرجا گھر میں رہتے تھے۔ اس گرجا گھر میں موجود جوشوا کے پیروکاروں میں دُنیا بھر سے آنے والے افردا کی بڑی تعداد شامل تھی اور ان میں سے زیادہ تر کئی دہائیوں سے یہاں رہ رہے تھے۔

یہاں رہنے کے لیے انھیں سخت اصول و ضوابط کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ان پر پابندی تھی کہ وہ چند گھنٹوں سے زیادہ سو نہیں سکتے تھے، اپنے موبائل فون استعمال نہیں کر سکتے تھے، ای میل تک رسائی محدود تھی اور ان سے زبردستی ٹی بی جاشوا کو ’ڈیڈی‘ کہلوایا جاتا تھا۔

وہ کہتی ہیں ’شاگردوں کی ذہن سازی بھی کی گئی تھی حتیٰ کہ وہ سہولت کار کا روپ دھار چُکے تھے۔ ہر کوئی اس ماحول کی وجہ سے بے حس ہو چُکا تھا اور بس کُچھ بھی سوچے سمجھے بنا اُن کے حکم پر چل رہا تھا (آجوک نے یہاں جوشوا کے شاگردوں اور پیروکاروں کے لیے لفظ ’زومبی‘ استعمال کیا)۔ کوئی کسی چیز پر سوال نہیں کرتا تھا بس جو کہا جاتا تھا سب اُس پر عمل کرتے تھے۔‘

آجوک ان سب سے مختلف تھیں، وہ باقی شاگردوں کی طرح اصولوں کی پابندی نہیں کرتی تھیں۔ انھوں نے پادری کے کمرے میں آنے پر اپنی جگہ سے اٹھنے سے انکار کر دیا اور سونے کے اوقات کی پابندی سے بھی انکار کر دیا، وہ اب یہاں من مانی کرنے لگیں تھیں۔

اس کے جلد بعد ہی بدسلوکی کے ایک گھناؤنے جُرم کا آغاز ہوتا ہے۔

وہاں پہنچنے کے کچھ ہی عرصے بعد، سات سال کی عمر میں آجوک کو یاد ہے کہ انھیں بستر گیلا کرنے کی وجہ سے پیٹا گیا تھا اور پھر انھیں گیلے کپڑوں میں کمپاؤنڈ میں گھومنے پر مجبور کیا گیا۔ نہ صرف یہ بلکہ اس دوران اُن کے گلے میں ایک کاغذ کا ٹُکڑا لٹک رہا تھا جس پر لکھا تھا کہ ’میں بیڈ ویٹر ہوں (یعنی رات سوتے میں بستر گیلا کر دینے والی)۔‘

ایک سابق خاتون شاگرد کہتی ہیں کہ آجوک کے بارے میں پیغام یہ تھا کہ ان کے اندر خوفناک بری روحیں تھیں جنھیں باہر نکالنے کی ضرورت تھی۔

’شاگردوں کی ملاقاتوں میں ایک وقت تھا کہ جب وہ (جوشوا) اس بات کا برملا اظہار کرتے کہ وہ ان (آجوک) پر تشدد کرسکتے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’خاتون ہاسٹل میں موجود کوئی بھی فرد انھیں مار سکتا تھا اور مجھے یاد ہے کہ لوگوں نے اسے تھپڑ مارتے ہوئے دیکھا تھا۔‘

جس لمحے سے آجوک لاگوس میں واقع اس گرجا گھر میں منتقل ہوئیں، ان کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک روا رکھا گیا۔

برطانیہ سے تعلق رکھنے والے رائے کا کہنا ہے کہ ’ان پر خاندان کی کالی بھیڑ ہونے تک کا لیبل لگا ہوا تھا۔‘ بی بی سی کی جانب سے انٹرویو کیے جانے والے زیادہ تر سابق شاگردوں کی طرح انھوں نے بھی صرف اپنا پہلا نام استعمال کرنے کا انتخاب کیا۔

رائے کو وہ وقت یاد ہے جب آجوک بہت دیر تک سوتی تھیں اور جوشوا انھیں جگانے کے لیے اُن پر بُری طرح چلائے۔

پادری

آجوک بتاتی ہیں کہ ایک اور شاگرد انھیں نہلانے کے لیے لے گیا اور ’انھیں بجلی کی تار سے پیٹا گیا اور پھر اُن پر شدید گرم پانی کھول دیا۔‘

اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ’میں اپنی پوری طاقت سے چیخ رہی تھی اور انھوں نے بہت دیر تک میرے سر پر گرم پانی کھولے رکھا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ وہ بدسلوکی تھی جو کبھی نہ ختم ہونے والی تھی۔‘

آجوک نے مزید کہا کہ ’ہم ایک ایسی بدسلوکی کے بارے میں بات کر رہے ہیں کہ جو کئی سال جاری رہی۔ میرے سوتیلے ہونے اور میرے وجود کے لیے ہر اُس بات سے متعلق وہ (ٹی بی جوشوا) کھڑے نہ ہوئے جس کا اُنھوں نے دعویٰ کیا تھا۔‘

جب وہ 17 سال کی تھیں تو ان کے ساتھ بدسلوکی ایک مختلف پیمانے پر بڑھ گئی اور انھوں نے اپنے والد کو ’جنسی استحصال کا سامنا کرنے والے لوگوں کے بارے‘ میں پوچھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے دیکھا کہ خواتین شاگرد ان کے کمرے میں جا رہی ہیں۔ وہ کئی گھنٹوں کے لیے نظروں سے اوجھل ہو جاتیں تھیں۔ جہاں سے آنے کے بعد اُن کے منہ سے یہ سُننے کو ملتا تھا کہ ’اوہ یہ میرے ساتھ بھی ہوا، اُس نے میرے ساتھ بھی سونے کی کوشش کی۔‘ یہ سب وہ باتیں تھیں کہ جو تقریباً جوشوا کے کمرے سے باہر آنے والی ہر لڑکی کہہ رہی تھی۔‘

بی بی سی نے برطانیہ، نائجیریا، امریکہ، جنوبی افریقہ، گھانا، نمیبیا اور جرمنی سے تعلق رکھنے والے 25 سے زائد سابق شاگردوں سے بات کی جنھوں نے جنسی استحصال کا سامنا کرنے یا ایسا ہوتے دیکھنے کی گواہی دی۔

آجوک کہتی ہیں کہ ’میں اسے مزید برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ میں اسی دن براہ راست ان کے دفتر میں چلی گئی۔ میں نے بلند آواز میں کہا کہ ’آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ آپ ان تمام عورتوں کو تکلیف کیوں دے رہے ہیں؟‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’میرے دل میں اس آدمی کے لیے ذرہ برابر بھی خوف نہیں تھا، میں یہ سب ظلم دیکھنے کے بعد بے خوف ہو چُکی تھی۔ انھوں نے (جوشوا) نے یہ کوشش کی کہ میں اُن کے سامنے نظر جھکا کر بات کروں مگر میں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا، میں نے اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُن سے بات کی اور جو دل میں اُن کے خلاف تھا سب کھُل کر کہہ دیا۔‘

ایمانوئل، جو 21 سال تک چرچ کا حصہ رہے اور ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک ایک شاگرد کے طور پر اُس احاطے میں رہتے رہے، اس دن کو اچھی طرح سے یاد کرتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’وہ (ٹی بی جوشوا) پہلے شخص تھے کہ جنھوں نے آجوک پر ہاتھ اُٹھایا اور اُنھیں مارنا پیٹنا شروع کیا۔ اس کے بعد دوسرے لوگ بھی اس سب میں شامل ہو گئے۔‘

’وہ کہہ رہے تھے کہ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ وہ میرے بارے میں کیا کہہ رہی ہے؟ یہاں تک کہ اُسے جتنا بھی مارا پیٹا جا رہا تھا اس سب کے بیچ بھی وہ بس وہی کہہ رہی تھی کہ جو اُس کے دل و دماغ میں تھا۔‘

چرچ
،تصویر کا کیپشنایمانوئل کہتے ہیں کہ ’انھوں نے ہم سب کو غلامی میں رکھا، مکمل طور پر مکمل غلامی میں‘

آجوک کا کہنا ہے کہ ’انھیں ان کے دفتر سے گھسیٹ کر باہر نکالا گیا اور چرچ کے باقی ارکان سے دور ایک کمرے میں رکھا گیا، جہاں وہ ایک سال سے زیادہ عرصے تک قید میں رہیں۔‘

یہ اُس ادارے کے اندر سزا کی ایک شکل تھی جسے ’ادابا‘ ( ایسی سزا جو بے ادب لوگوں کو آداب سکھانے کے لیے دی جاتی تھی) کے نام سے جانا جاتا، جس کا سامنا اور تجربہ رائے نے بھی دو سال تک کیا۔

آجوک کہتی ہیں کہ ’اس دوران انھیں بار بار بیلٹ اور زنجیروں سے مارا پیٹا جاتا، اکثر روزانہ کی بنیاد پر ایسا ہوتا اور اُنھیں یہ دردناک سزا دی جاتی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں حیران ہوں کہ میں نے وہ وقت کیسے گزارا، میں اُس شدید نوعیت کی مار پیٹ کے بعد کئی دنوں تک اپنے پاؤں پر کھڑی بھی نہیں ہو سکتی تھی۔ میں غسل بھی نہیں کر سکتی تھی۔ وہ لوگوں کو میری بات سننے سے روکنے کی بہت کوشش کر رہے تھے۔‘

آجوک 19 سال کی ہو چُکی تھیں کہ ایک دن کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ انھیں چرچ کے سامنے والے دروازوں پر لے جایا گیا اور انھیں وہاں چھوڑ کر وہ لوگ چلے گئے۔ گرجا گھر کے سکیورٹی اہلکاروں کو، جو مسلح تھے، بتایا گیا کہ انھیں کبھی بھی دوبارہ اندر جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ ان کے والد کی موت سے چھ سال پہلے کی بات ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے خود کو بے یارومددگار پایا۔ میرے پاس کوئی بھی ایسا فرد نہیں تھا کہ جس سے میں اُس وقت میں رابطہ کرتی یا یہ کہہ لیں کے گرجا گھر سے باہر میرا کوئی اپنا نہیں تھا۔ کوئی بھی مجھ پر یقین نہیں کرے گا، میں نے تو اپنے آپ کو اس زندگی کے لیے کبھی تیار ہی نہیں کیا تھا۔‘

ایک نوجوان عورت کے طور پر جس کے پاس پیسے نہیں تھے، آجوک نے زندہ رہنے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتی تھیں اور کئی سال سڑکوں پر بے آسرا گزارے۔

انھوں نے سب سے پہلے سنہ 2019 میں ’بی بی سی افریقہ آئی ایکسپوز‘ دیکھا، جس کے بعد بی بی سی سے رابطہ کیا اور اس طرح اس بدسلوکی کو بے نقاب کرنے کے لیے بی بی سی کی ایک طویل تحقیقات کا آغاز ہوا تھا۔

بی بی سی نے اس تحقیقات میں لگائے گئے الزامات کے حوالے سے چرچ سے رابطہ کیا۔ اس نے ان کا کوئی جواب نہیں دیا لیکن ٹی بی جوشوا کے خلاف پائے جانے والے دعووں کی تردید کی اور انھیں من گھڑت اور بے بُنیاد قرار دیا۔

جواب میں یہ کہا گیا کہ ’ٹی بی جوشوا کے خلاف بے بنیاد الزامات لگانا کوئی نیا واقعہ نہیں۔۔۔ ان میں سے کوئی بھی الزام کبھی ثابت نہیں ہوا۔‘

سابق شاگردوں اور کچھ قریبی دوستوں کی مدد سے، آجوک حال ہی میں سڑکوں پر نکلنے میں کامیاب رہیں لیکن اس کی وجہ سے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جہاں وہ اپنی ذہنی صحت سے متعلق مُشکلات کا سامنا کرتی رہیں۔

اس کے باوجود وہ جو کچھ بھی برداشت کر چکی ہیں، اس کے بعد بھی وہ اپنے والد کے بارے میں سچ بتانے کے لیے پرعزم ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب بھی مجھے پیٹا جاتا تھا، ہر بار جب میری بے عزتی کی جاتی تھی، تو اس نے مجھے یاد دلایا کہ نظام میں کچھ غلط ہے۔‘

سابق شاگردوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’آجوک کو اس شخص کے سامنے کھڑے ہوتے دیکھنا ایک اہم وجہ تھی جس کی وجہ سے انھیں ٹی بی جوشوا پر اپنے ایمان پر شک ہونے لگا۔‘

ایمانوئل کہتے ہیں کہ ’انھوں نے ہم سب کو غلامی میں رکھا، مکمل طور پر مکمل غلامی میں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’آجوک اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی بہادر اور باہمت تھیں۔ میں انھیں ایک ہیرو کے طور پر دیکھتا ہوں۔‘

آجوک کا کہنا ہے کہ ’سچ ان کے لیے سب سے اہم چیز ہے، میں نے اپنا گھر، اپنا خاندان سب کچھ کھو دیا لیکن میرے لیے یہ سچ پر منحصر ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اور جب تک میرے اندر سانس باقی ہے، میں آخری دم تک اپنے ہر کہے لفظ کا دفاع کروں گی۔‘

اُن کا بس ایک خواب ہے کہ وہ ایک دن واپس سکول جائیں اور اپنی تعلیم مکمل کریں جو زندگی کے ان بھول بھلیوں میں ادھوری رہ گئی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں