بنگلہ دیش میں اتوار کے روز پرتشدد ہنگاموں میں متعدد پولیس اہلکاروں سمیت 80 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
ملک کی وزیر اعظم حسینہ واجد کے مستعفی ہونے سمیت تمام مطالبات کی منظوری کے لیے مظاہرین نے سوموار کے روز ’لانگ مارچ ٹو ڈھاکہ‘ کے نام سے ایک احتجاجی مارچ کا اعلان کیا ہے۔
دوسری جانب وزیر اعظم شیخ حسینہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جو لوگ اب تخریب کاری کررہے ہیں، وہ طالب علم نہیں، دہشت گرد ہیں۔
مظاہرین کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک کے اعلان کے بعد طلبہ تحریک کی رہنما ناہید اسلام نے پیر کے روز لانگ مارچ ٹو ڈھاکہ کے نام سے احتجاج کو مزید آگے بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے اس پروگرام کے انعقاد کے لیے چھ اگست کی تاریخ کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اتوار کے روز اسے ایک دن پیچھے کرنے کا اعلان کیا گیا۔
اسی دن ڈھاکہ کے شاہ باغ میں صبح 11 بجے کارکنوں کا جلسہ اور شام پانچ بجے مرکزی شہید مینار پر خواتین کا جلسہ بلایا گیا ہے۔ مظاہرین نے تمام مکتبہ فکر کے لوگوں سے اس میں شرکت کے لیے ڈھاکہ آنے کی اپیل کی ہے۔
انتشار پسندوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم
امتیازی سلوک کے خلاف طلبا کی تحریک کے پر تشدد مظاہروں میں اتوار کی شام تک مختلف مقامات پر حکومت کے حامی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان جھڑپوں میں ہلاک ہوئے۔
کئی مقامات پر گھروں اور گاڑیوں میں توڑ پھوڑ اور آگ لگا دی گئی۔ متاثرین میں سے کئی افراد گولیاں لگنے کے باعث زخمی ہوئے۔ جبکہ بعض افراد کو تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کیا گیا۔ بی بی سی بنگلہ کے مطابق مشتعل مظاہرین نے ملک بھر میں احتجاجی تحریک اور عوامی دھرنا پروگرام جاری رکھنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر اگر کوئی رابطہ کار گرفتاری یا کسی اور وجہ سے اگلے پروگرام کا اعلان نہیں کر سکتا تو موجودہ حکومت کے خاتمے کے مطالبات پورے ہونے تک سڑکوں پر قبضہ جما کر پرامن عدم تعاون کی تحریک حلائئ جائے۔
دوسری جانب بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے کہا کہ جو لوگ اب تخریب کاری کر رہے ہیں، وہ طالب علم نہیں بلکہ دہشت گرد ہیں۔ انھوں نے عوام سے اس سازش کو دبانے کی پرزور اپیل کی۔
وزیراعظم شیخ حسینہ نے یہ بات اتوار کو قومی سلامتی امور کی کمیٹی کے اجلاس میں کہی۔
بنگلہ دیش کی سرکاری خبر رساں ایجنسی باس (BASS) کے مطابق وزیر اعظم شیخ حسینہ نے انتشار پسندوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا۔
وزیر اعظم شیخ حسینہ کے پریس ونگ کے مطابق اجلاس میں وزیراعظم کے سیکیورٹی ایڈوائزر، آرمی چیف، فضائیہ اور بحریہ کے سربراہ، مختلف وزارتوں پر مشتمل کمیٹی کے تمام ارکان، کابینہ سیکریٹری، وزیراعظم آفس کے چیف سیکریٹری نے شرکت کی۔
یاد رہے کہ 2023 کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کا یہ پہلا اجلاس ہے۔