برطانیہ، فرانس اور کینیڈا نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے غزہ میں فوجی کارروائیوں میں ’سنگین‘ توسیع جاری رکھی تو وہ ’ٹھوس اقدامات‘ لیں گے۔
برطانوی وزیرِ اعظم سر کیئر سٹارمر نے فرانسیسی اور کینیڈین رہنماؤں کے ساتھ مل کر اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ’اپنی فوجی کارروائیاں بند کرے‘ اور ’فوری طور پر انسانی امداد کو غزہ میں داخلے کی اجازت دے۔‘
اقوام متحدہ کے مطابق 2 مارچ کے بعد سے غزہ میں خوراک، ایندھن یا ادویات کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی جس کے فلسطینی آبادی پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
اتوار کے روز وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل 11 ہفتوں کی ناکہ بندی کے بعد غزہ میں ’خوراک کی بنیادی مقدار‘ داخل ہونے کی اجازت دے گا لیکن اس کا منصوبہ پورے غزہ کا ’کنٹرول سنبھالنے‘ کا ہے۔تینوں مغربی رہنماؤں نے اس اقدام کو ’مکمل طور پر ناکافی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’عام شہریوں کو بنیادی انسانی امداد سے محروم رکھنا ناقابلِ قبول ہے اور یہ بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آ سکتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’غزہ میں انسانی المیے کی شدت ناقابلِ برداشت ہو چکی ہے۔‘

جیریمی بوؤون کا تجزیہ: کیا اسرائیل کے لیے عالمی حمایت کمزور پڑنے لگی ہے؟
اسرائیل نے 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں کے جواب میں جنگ کا آغاز کیا۔ یہ جنگ اُس بھاری اسلحے کے ذخیرے کے ساتھ شروع ہوئی جو زیادہ تر امریکہ کی جانب سے فراہم کیا گیا، مالی مدد سے خریدا گیا یا بعد میں دوبارہ سپلائی کیا گیا۔
اس کے دیگر مغربی اتحادیوں نے بھی اسرائیل کو ایک اور طاقتور ہتھیار فراہم کیا۔۔۔ یہ ہتھیار تھا مکمل اخلاقی حمایت اور یکجہتی۔ یہ حمایت اُن 1200 ہلاکتوں پر غم و غصے کے اظہار کے طور پر دی گئی جن میں اکثریت اسرائیلی شہریوں کی تھی اور اُن 251 افراد کے اغوا پر جنھیں حماس یرغمال بنا کر غزہ لے گئی۔
مگر اب ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کا یہ اخلاقی سرمایہ ختم ہو چکا ہے۔۔۔ کم از کم فرانس، برطانیہ اور کینیڈا کے نزدیک تو ایسا ہی ہے۔ ان تینوں ممالک نے غزہ میں جاری جنگ کے حوالے سے سرائیل کے طریقۂ کار کی اب تک کی سب سے سخت مذمت کی ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ اسرائیل کو غزہ میں اپنی فوجی کارروائی فوراً روک دینی چاہیے۔۔۔ وہ کارروائی جس کے بارے میں وزیرِاعظم نیتن یاہو کا دعویٰ ہے کہ اس سے حماس کا خاتمہ ہو گا، یرغمالیوں کو رہا کرایا جائے گا اور پورے غزہ کو براہِ راست اسرائیلی فوجی کنٹرول میں لایا جائے گا۔
تاہم برطانیہ، فرانس اور کینیڈا نے نیتن یاہو کی اس حکمتِ عملی کو مسترد کرتے ہوئے جنگ بندی کا واضح مطالبہ کر دیا ہے۔ مشترکہ بیان میں کہا گیا: ’ہم غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائی کے پھیلاؤ کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔ وہاں انسانی المیے کی شدت ناقابلِ برداشت ہو چکی ہے۔‘
انھوں نے باقی یرغمالیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ دہراتے ہوئے یاد دلایا کہ 7 اکتوبر کے ’سفاکانہ حملے‘ کے بعد انھوں نے اسرائیل کے دفاع کے حق کو تسلیم کیا تھا، ’لیکن اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ مکمل طور پر غیر متناسب ہے۔‘

نیتن یاہو کی جانب سے غزہ میں ’انتہائی محدود‘ خوراک کی فراہمی کی اجازت کو بھی ان ممالک نے ناکافی قرار دیا ہے۔
جواباً نیتن یاہو نے سخت ردعمل دیا اور کہا کہ ’لندن، اوٹاوا اور پیرس کے رہنما 7 اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے نسل کش حملے کرنے والوں کو انعام دے رہے ہیں اور مزید ایسے مظالم کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر حماس یرغمالیوں کو واپس کرے، ہتھیار ڈال دے، اس کی قیادت جلاوطنی قبول کرے اور غزہ کو غیر فوجی علاقہ بنایا جائے تو جنگ ختم ہو سکتی ہے۔ نیتن یاہو نے کہا: ’کسی بھی ملک سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس سے کم پر راضی ہو اور اسرائیل تو ہرگز نہیں ہوگا۔‘
خیال رہے نیتن یاہو پر جنگی جرائم کے الزامات ہیں اور ان کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت نے وارنٹ بھی جاری کر رکھا ہے۔ وہ ان الزامات کو یہود دشمنی قرار دیتے ہیں۔
نیتن یاہو عالمی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ غزہ کی ناکہ بندی ختم کریں، خاص طور پر ایک معتبر عالمی ادارے کے اس سروے کے بعد جس میں غزہ میں قحط کے خطرے کی نشاندہی کی گئی ہے۔
لندن میں ہونے والے یورپی یونین اور برطانیہ کے مشترکہ اجلاس میں یورپی کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا نے صورتحال کو ’ایک ایسا سانحہ قرار دیا جہاں بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور پوری آبادی غیر متناسب فوجی طاقت کا نشانہ بن رہی ہے۔‘
انھوں نے زور دیا کہ ’انسانی امداد کی فراہمی کے لیے فوری، محفوظ اور بغیر رکاوٹ رسائی ہر صورت یقینی بنائی جائے۔‘