شمالی وزیرستان میں مبینہ ڈرون حملے میں چار بچوں کی ہلاکت کے خلاف احتجاج جاری

پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی کے گاؤں ہرمز میں مبینہ ڈرون حملے میں ہونے والی ہلاکتوں کے خلاف مقامی شہری آج احتجاج کر رہے ہیں۔

میر علی میں اتمانزئی قبیلے کے ترجمان مولانا بیت اللہ نے بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس مبینہ حملے میں ہلاک ہونے والے چار افراد کی میتیں میر علی میں انتظامیہ کے دفاتر کے سامنے رکھ کر احتجاج کیا جا رہا ہے۔

پولیس حکام نے بی بی سی کو اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب تک انھیں مقامی افراد کی جانب سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق یہ ایک مبینہ ڈرون حملہ تھا تاہم اس معاملے پر تحقیقات کی جا رہی ہیں اور یہ معلوم کیا جا رہا ہے کہ مبینہ ڈرون کہاں سے آیا۔

شمالی وزیرستان کے ضلعی پولیس افسر وقار احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں میں تین بہن بھائی اور ایک ان کا معذور کزن شامل ہے۔

مولانا بیت اللہ نے بتایا کہ یہ مبینہ حملہ پیر کے روز صبح کے وقت ہوا تھا جس کے بعد زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کو بنوں ہسپتال منتقل کیا گیا۔

مولانا بیت اللہ کے مطابق اس واقعے کے خلاف مقامی افراد میں اشتعال پایا جاتا ہے۔

مولانا بیت اللہ کے مطابق مقامی افراد دعویٰ کر رہے ہیں کہ انھوں نے اس حملے سے قبل مبینہ ڈرون جیسی شے کو فضا میں اُڑتے دیکھا تھا۔

ضلعی پولیس افسر وقار احمد کے مطابق پولیس اور دیگر ادارے اس بارے میں تحقیقات کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ مسلح شدت پسندوں کواڈ کاپٹرز کا استعمال کر رہے ہیں تاہم فی الحال اس کی تصدیق ممکن نہیں ہے۔واضح رہے کہ میر علی میں 12 مئی کو بھی اسی نوعیت کا ایک دھماکہ ایک مکان کے اندر ہوا تھا جس میں 15 خواتین، بچے اور بچیاں زخمی ہو گئی تھیں۔ مقامی افراد کی جانب سے اس معاملے میں بھی ڈرون حملے کا شبہ ظاہر کیا گیا تھا تاہم اس کی تصدیق نہیں ہو سکی تھی۔

gettyimages
،تصویر کا کیپشنفائل فوٹو

نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ محسن داوڑ نے ایکس پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس واقعے میں چار بچے ہلاک جبکہ ایک خاتون زخمی ہوئی ہیں۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ اب اس علاقے میں اس طرح کے حملے معمول بن چکے ہیں۔

محسن داوڑ نے اپنی جماعت این ڈی ایم سے وابستہ طلبا تنظیم سے کہا ہے کہ وہ آج تمام تعلیمی اداروں میں میر علی واقعے کے خلاف احتجاج کریں۔

مقامی قبائلی رہنما نثار علی نے بتایا کہ علاقے میں سخت کشیدگی ہے اور اس وقت میر علی سے چار علاقوں کی جانب جانے والی سڑکیں بند کر دی گئی ہیں۔ ان میں بنو میرانشاہ روڈ، ہنگو ٹل روڈ، رزمک روڈ اور خیسور کی جانب جانے والی سڑک شامل ہیں۔

انھوں نے کہا کہ انتظامیہ اور سکیورٹی حکام اس بات کی وضاحت کریں گے کہ یہ حملہ کس نے اور کیسے کیا۔

مولانا بیت اللہ کا کہنا تھا کہ اس وقت شمالی وزیرستان اور دیگر علاقوں سے لوگ یہاں پہنچ رہے ہیں اور ان کا احتجاج جاری ہے۔

انھوں نے بتایا کہ گذشتہ روز مقامی قبائل کا جرگہ منعقد ہوا اور اس بارے میں سکیورٹی فورسز کے حکام کے ان کے ساتھ مذاکرات ہونا باقی تھے لیکن اس دوران یہ دھماکہ ہو گیا۔ میر علی میں مقامی انتظامی افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ علاقے میں احتجاج جاری ہے اور انتطامیہ کی جانب سے مظاہرین سے مذاکرات کی کوششیں بھی جاری ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں