برطانوی شہر ساؤتھ پورٹ میں تین بچیوں کے قتل کے خلاف ملک کے متعدد شہروں اور قصبوں میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروہوں کے پُرتشدد احتجاجی مظاہروں کے بعد پولیس نے اب تک 147 گرفتاریوں کی تصدیق کی ہے جبکہ مزید گرفتاریوں کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ہل، لیورپول، برسٹل، مانچیسٹر، بلیک پول اور بیلفاسٹ میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران بوتلیں پھینکی گئیں، دُکانوں کو لوٹا گیا اور پولیس پر بھی حملے ہوئے تھے۔ ۔
واضح رہے کہ پیر کے روز ساؤتھ پورٹ کے ایک مقامی ڈانس سکول میں بچوں کی ڈانس پرفارمنس کے دوران چھری سے لیس ایک شخص نے اچانک نمودار ہو کر حملہ کر دیا تھا۔ اس حملے میں تین بچیاں ہلاک ہو گئی تھیں۔
نیشنل پولیس چیفس کونسل کے بی جے ہیرنگٹن نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سنیچر کی رات سے اب تک پولیس نے ملک بھر میں 147 افراد گرفتار کیے ہیں اور اس تعداد میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔انھوں نے ان پرتشدد مظاہروں کا مورد الزام جھوٹی اور غلط معلومات کو ٹھہرایا اور کہا کہ ’ایسی اکثر پوسٹس کو ہائی پروفائل اکاؤنٹس کے ذریعے شیئر کیا جاتا رہا ہے۔‘
برطانوی وزیرِ اعظم نے کہا ہے کہ ان کی حکومت پولیس کو ’نفرت کے بیج بونے‘ کی کوشش کرنے والے ’انتہا پسندوں‘ کے خلاف کارروائی کے لیے ’بھرپور حمایت‘ فراہم کرے گی۔
مساجد کو ہنگامی بنیادوں پر سکیورٹی ملے گی: برطانوی محکمہ داخلہ
برطانیہ کے محکمہ داخلہ نے مساجد کے لیے نئی سیکیورٹی سکیم متعارف کروا دی ہے جس کے تحت پرتشدد ہنگامہ آرائی کے خطرے سے دوچار مساجد اب ترجیحی اور فوری ردعمل کے اہلکاروں سے مدد کی درخواست کر سکیں گی۔
محکمہ داخلہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پولیس، مقامی حکام اور مساجد سیکورٹی کی فوری تعیناتی، کمیونٹیز کی حفاظت اور جلد سے جلد عبادت گاہوں میں واپسی کی اجازت دینے کی درخواست کر سکے ہیں۔
ہوم سکریٹری وویت کوپر نے کہا ’ایک قوم کے طور پر ہم مجرمانہ رویے، انتہا پسندی اور ایسے نسل پرستانہ حملوں کو برداشت نہیں کریں گے جو ہمارے ملک کی ہر چیز کے خلاف ہوں۔‘
آزادی اظہار رائے اور تشدد دو الگ چیزیں ہیں: برطانوی وزیرِ اعظم
نیشنل پولیس چیفس کونسل کے بی جے ہیرنگٹن نے اپنے بیان میں بدامنی میں ملوث افراد کوخبردار کیا ہے اور کہا ہے کہ ذمہ داران قانون کے شکنجے سے بچ نہ پائیں گے۔
’انٹیلیجنس ٹیمیں، جاسوس اور پولیس افسران ہنگاموں میں ملوث افراد کی شناخت اور گرفتاری کے لیے 24 گھنٹے کام کر رہے ہیں اور جو بھی ان پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہے اور ابھی تک وہ پکڑا نہیں جا سکا تو جان لے اس کی باری بھی جلد آ جائے گی۔‘
دوسری جانب برطانوی وزيراعظم سر کیئر سٹارمر نے کہا کہ کسی بھی قسم کے تشدد کے لیے جواز پیش نہیں کیا جاسکتا، آزادی اظہار رائے اور تشدد دو الگ چیزیں ہیں۔ لوگوں کی جان و مال محفوظ رکھنے کے لیے ہر ممکن کارروائی کی جائے گی۔
وزیر اعظم کیر سٹارمر نے برطانیہ کی سڑکوں پر بدامنی کو دائیں بازو کی غنڈہ گردی قرار دیا اور کہا کہ ان حملوں میں مسلم کمیونٹیز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
’ان لوگوں کے لیے جو خود کو نشانے پر محسوس کر رہے ہیں میں سمجھ سکتا ہوں کہ ان کے لیے یہ سب کتنا خوفناک ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پرتشدد ہجوم ہمارے ملک کی نمائندگی نہیں کرتا اوراگر آپ لوگوں کو ان کی رنگت یا عقیدے کی وجہ سے نشانہ بناتے ہیں تو مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ یہ انتہا پسندی کی علامت ہے۔‘
ہارٹ سپیس سینٹر میں تقریب کے دوران ہونے والے حملے میں آٹھ بچوں سمیت 10 دیگر افراد بھی زخمی ہوئے تھے۔
دوسری جانب تین بچیوں کے قتل کے الزام میں گرفتار 17 سالہ ملزم پر قتل کا الزام عائد کر دیا گیا ہے۔ ان پر قتل کی کوشش کے 10 الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ان پر تیز دھار آلہ رکھنے کا بھی الزام ہے۔
ملزم کی کم عمری کے باعث ان کا نام ظاہر نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ملزم کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں اور اس دوران کچھ مظاہرین سکیورٹی اہلکاروں سے لڑتے ہوئے بھی نظر آئے۔
برطانیہ میں مسلمان مخالف واقعات پر نظر رکھنے والے گروپ ’ٹیل ماما‘ کی ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ برطانوی مسلمانوں میں اپنے تحفظ سے متعلق تشویش میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ایمان عطا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’لوگ اپنی مسجدوں میں جانے سے بھی ڈر رہے ہیں۔‘ انھیں ایسی بہت سی اطلاعات موصول ہوئیں کہ اس وقت ملک بھر میں جاری کشیدگی میں مسلمان خواتین کو بھی ہدف بنایا جا رہا ہے۔
ایمان کے مطابق ’جو کچھ ہم اپنی سڑکوں پر ہوتا دیکھ رہے ہیں اس سلسلے کو روکنے کی ضرورت ہے۔ یہ جو ہو رہا ہے ہمیں اس سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔‘
انھوں نے سوشل میڈیا کی کمپنیوں کو اس صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت چند ہی عوامی نمائندے ہیں جنھوں نے اپنے حلقوں میں نسل پرستی کے خلاف آواز بلند کی ہے۔
ایمان کے مطابق سیاسی رہنماؤں کی طرف سے کہی گئی بات اور پیغام بہت اہمیت کا حامل ہے۔
اس سے قبل پولیس کے شعبے کو دیکھنے والے وزیر ڈیم ڈیانا جانسن کا کہنا تھا کہ ’پولیس خاص طور پر اپنی رنگت کی وجہ سے بھی پریشان ہے اور یہ درست بات نہیں ہو سکتی اور یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ حکومت کو ہر قیمت پر اس کے خلاف اقدامات اٹھانے ہوں گے۔‘
ڈیم ڈیانا کا کہنا ہے کہ ملک میں جاری کشیدگی کچھ کمیونیٹیز میں خوف کی وجہ بن رہی ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت اس معاملے پر بہت واضح ہے کہ وہ پولیس کو ایسے مجرمانہ ذہنیت کے حامل عناصر جو بدامنی کا ذریعہ بن رہے اور کمیونیٹیز میں خوف پیدا کر رہے ہیں کے خلاف ضروری کارروائی کرنے کا کہے گی۔
انھوں نے مزید بتایا کہ یہ ملک کے لیے ایک بہت سخت ہفتہ ثابت ہوا ہے اور انھوں نے تشدد کے باوجود اپنا کام اچھے انداز میں کرنے پر پولیس کی تعریف کی ہے۔
لیورپول میں مظاہرین نے پولیس پر بوتلیں اور اینٹیں پھینکیں۔ احتجاج کے دوران ایک پولیس اہلکار کے سر پر کُرسی پھینک کر ماری گئی اور ایک اور اہلکار کو لات مار کر موٹرسائیکل سے گرایا گیا۔
لیورپول کے ہی لائم سٹریٹ سٹیشن پر سینکڑوں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور انھوں نے لوگوں سے اتحاد بنائے رکھنے اور برداشت کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔
ان کی جانب سے ’ہم پناہ گزینوں کو یہاں خوش آمدید کہیں گے‘ جیسے نعرے بھی لگائے گئے۔
ان تمام افراد نے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے تقریباً ایک ہزار مظاہرین کی طرف مارچ کیا تھا۔
یہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مظاہرین اسلام مخالف اور پناہ گزینوں کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔
اس موقع پر پولیس اہلکاروں کو دونوں گروہوں کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کے لیے کافی محنت کرنا پڑی اور پولیس کی اضافی نفری بھی منگوائی گئی۔
علاقے میں یہ ہنگامہ آرائی اتوار کی صبح تک جاری رہی اور اس دوران پولیس پر آتشی مادہ بھی پھینکا گیا۔
میریسائیڈ پولیس نے تصدیق کی ہے کہ پُرتشدد احتجاجی مظاہروں کے دوران متعدد پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے ایک کی ناک کی ہڈی اور دوسرے کا جبڑا ٹوٹ گیا ہے۔
پولیس اہلکاروں نے اس دوران 23 افراد کو حراست میں بھی لیا ہے۔
اسسٹنٹ چیف کانسٹیبل کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ: ’میریسائیڈ کے علاقے میں تشدد، افراتفری اور تباہی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔‘
’جو لوگ اس طرح کا برتاؤ کر رہے ہیں وہ خود کو اور اس شہر کو شرمسار کر رہے ہیں۔‘
سنیچر کو برطانوی حکومت کے وزیروں کا ایک اجلاس بھی منعقد ہوا، جس میں برطانوی وزیراعظم کے ترجمان کے مطابق سر کیئر سٹامر کا کہنا تھا کہ ’اظہار رائے کی آزادی اور جو انتشار ہم دیکھ چکے ہیں دو مختلف چیزیں ہیں‘ اور ’یہاں کسی بھی قسم کے تشدد کا کوئی جواز نہیں بنتا اور حکومت سڑکوں کو محفوظ رکھنے کے لیے پولیس کے تمام ضروری اقدامات کی حمایت کرے گی۔‘
دوسری جانب سیکریٹری داخلہ کا کہنا ہے کہ جو بھی اس ’ناقابلِ قبول انتشار‘ میں ملوث ہے اسے نہ صرف قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ ان پر سفری پابندیاں بھی عائد کی جاسکتی ہیں۔
’مجرمانہ تشدد اور انتشار کی برطانیہ کی سڑکوں پر کوئی جگہ نہیں ہے۔‘
برسٹل میں بھی مظاہرین کے دو گروہ آمنے سامنے کھڑے نظر آئے۔ ایک گروہ کی جانب سے ’جب تک زندہ ہیں، تب تک انگلینڈ‘ اور ’ہمارا ملک ہمیں واپس کرو‘ جیسے نعرے لگائے گئے۔
جبکہ دوسرا گروہ ’ہم یہاں پناگزینوں کو خوش آمدید کہیں گے‘ جیسے نعرے لگاتا رہا۔
اس موقع پر نسلی تعصب مخالف گروہ کے اوپر شراب کے کین بھی پھینکے گئے اور مظاہرین کے دوسرے گروہ پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔
ایوون اور سمرسیٹ پولیس نے تصدیق کی ہے کہ انھوں نے ان مظاہروں کے دوران 14 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ چیف انسپکٹر وکس ہیورڈ میلن کا کہنا ہے کہ ’آنے والے دنوں میں مزید گرفتاریاں ہوں گی۔‘
مانچیسٹر میں بھی احتجاجی مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں اور اس موقع پر دو افراد کو گرفتار کیا گیا۔
بیلفاسٹ میں مظاہرین نے نہ صرف ایک مسجد پر پتھراؤ کیا بلکہ میڈیا کے نمائندوں پر بھی چیزیں پھینکیں۔ پولیس نے پُرتشدد مظاہرے میں ملوث دو افراد کو گرفتار کیا ہے۔
دوسری جانب ہل میں مظاہرین نے پناہ گزینوں کی رہائش کے لیے استعمال ہونے والے ایک ہوٹل کی کھڑکیاں توڑ دیں اور وہاں موجود پولیس اہلکاروں کو بوتلیں اور انڈے مارے۔
ہمبرسائیڈ پولیس کا کہنا ہے کہ ان مظاہروں کے دوران تین پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ 20 افراد کو انتشار پھیلانے، دُکانیں لوٹنے اور چیزوں کو آگ لگانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
واضح رہے برطانیہ میں ہونے تمام مظاہرے پُرتشدد نہیں تھے بلکہ کچھ مقامات پر سنیچر کو لوگ پُرامن احتجاج کے بعد منتشر ہوگئے تھے۔
بی بی سی نے تقریباً ایسے 30 مزید مظاہروں کی نشاندہی کی ہے جو کہ انتہائی دائیں بازو کے مظاہرین کی جانب سے برطانیہ بھر میں منعقد کیے جا رہے ہیں۔
اتوار کو حکام نے تقریباً 70 پروسیکیوٹرز کو لوگوں پر باقاعدہ مقدمات درج کرنے کے لیے تیار رہنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
شیڈو سیکریٹری داخلہ جیمز کلیورلی نے برطانوی وزیراعظم اور سیکریٹری داخلہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امن برقرار رکھنے کے لیے مزید کوششیں کریں۔
ساؤتھ پورٹ کی سینٹ لوکس روڈ میدان جنگ کیسے بنی؟
برطانیہ کے شہر ساؤتھ پورٹ میں تین بچیوں کے قتل کے بعد رواں ہفتے کے دوران ایک مسجد کے باہر ہونے والی ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں کم از کم 50 سے زیادہ پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
مقامی پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا تھا لیکن اس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی تھی تاہم سوشل میڈیا پر افواہوں میں اس واردات کو مذہبی رنگ دیا گیا۔
پولیس نے واضح کیا کہ حملے سے متعلق غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہیں تاہم یہ دہشت گردی کا واقعہ نہیں اور ملزم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
اس وضاحت کے باوجود منگل کے دن ساؤتھ پورٹ میں بڑی تعداد میں مظاہرین ایک مقامی مسجد کے قریب جمع ہوئے جہاں ہنگامہ آرائی کا آغاز مسجد پر اینٹیں، بوتلیں اور پتھر برسانے سے شروع ہوا۔
موقع پر موجود پولیس، جو ایک پرامن احتجاج کی اطلاع کی وجہ سے پہلے سے تعینات تھی، پر بھی مظاہرین نے مختلف اشیا پھینکیں اور پولیس کی ایک گاڑی کو نذرآتش کر دیا گیا۔
پولیس کے مطابق کم از کم آٹھ اہلکاروں کو شدید چوٹیں آئی ہیں جن میں سے چند کی ہڈیاں تک ٹوٹ گئیں۔ پولیس کے مطابق بد امنی پھیلانے والے مظاہرین کا تعلق انگلش ڈیفنس لیگ (ای ڈی ایل) سے ہے جو خود کو اسلام مخالف تنظیم کہتی ہے۔
مقامی میئر پیٹرک ہرلے نے اس واقعے کے بعد بی بی سی ریڈیو فور سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہنگامہ آرائی کے ذمہ دار افراد باہر سے آئے تھے جنھوں نے تین بچوں کی موت کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔‘
واضح رہے کہ ڈانس کلب پر حملے کے الزام میں ایک 17سالہ لڑکے کو گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد پولیس کے اسسٹنٹ چیف کانسٹیبل ایلکس گوس نے کہا تھا کہ ’پولیس کی زیرحراست نوجوان کے بارے میں بہت زیادہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں اور کچھ لوگ اس واقعے کو غلط رنگ دے کر سڑکوں اور گلیوں میں تشدد اور انتشار پھیلا رہے ہیں۔‘
’ہم نے پہلے ہی بتا دیا ہے کہ یہ شخص برطانیہ میں پیدا ہوا تھا۔ ملزم کے بارے میں قیاس آرائیاں کرنے سے کسی کی مدد نہیں ہوگی۔‘
ساؤتھ پورٹ حملے کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
ساؤتھ پورٹ میں ہونے والے حملے میں چھ سالہ بیبی کنگ، سات سالہ ایلسی ڈوٹ اور نو سالہ ایلس ڈاسلوا ہلاک ہو گئی تھیں۔
اس واقعے میں آٹھ بچے زخمی بھی ہوئے تھے جن میں سے پانچ کی حالت نازک بتائی گئی جبکہ پولیس کے مطابق حملے میں دو بالغ افراد کو بھی شدید زخم آئے تھے۔
پولیس نے اس واقعے کی تفصیلات کے بارے میں بتایا ہے کہ ڈانس سکول میں بچوں کی تقریب جاری تھی جس کے دوران ایک شخص چھری کے ساتھ عمارت میں گھسا اور اندر موجود لوگوں پر حملہ کر دیا۔
ان کے مطابق بچوں کو بچانے کے لیے دو بالغ افراد نے ’بہادری‘ کا مظاہرہ کیا جنھیں شدید چوٹیں آئی ہیں۔
چھ سالہ بیبی کنگ اور سات سالہ ایلسی ڈوٹ سوموار کے دن ہی ہلاک ہو گئی تھیں جبکہ نو سالہ ایلس ڈاسلوا کی موت اگلے دن ہسپتال میں واقع ہوئی۔’وہ بچوں کو مار رہا ہے‘
سکائی نیوز سے بات کرتے ہوئے اس واقعے کے عینی شاہد جویل وریٹ نے بتایا کہ وہ ڈانس سٹوڈیو کے قریب سے گزر رہے تھے جب انھوں نے ایک خاتون کو یہ چلاتے ہوئے سنا کہ وہ بچوں کو مار رہا ہے۔
ان کے مطابق انھوں نے ایک گاڑی میں ایک خاتون کو بھی دیکھا جن کے ساتھ خون میں لت پت چار سے پانچ بچے موجود تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کسی فلم جیسا منظر تھا۔ میں بتا نہیں سکتا کہ یہ کتنا ہولناک تھا۔‘
انھوں نے زخمیوں کی مدد کے لیے گاڑی روکی اور نیچے اتر کر عمارت کی جانب رخ کیا تو اسی وقت انھوں نے مبینہ حملہ آور کو بھی دیکھا جو عمارت کے اندر ہاتھ میں چھری لیے کھڑا ہوا تھا تاہم مبینہ حملہ آور دیکھتے ہی دیکھتے فرار ہو گیا۔
انھوں نے بتایا کہ حملہ آور کو بعد میں پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔
بچوں کو قتل کرنے والا مبینہ حملہ آور کون ہے؟
پولیس نے واقعہ کے بعد اس بات کی تصدیق کی کہ انھوں نے ایک شخص کو حراست میں لیا اور ایک چھری بھی قبضے میں لی۔
پولیس نے بعد میں ایک بیان جاری کیا اور بتایا کہ ملزم ایک 17 سالہ نوجوان ہے جس کو ساؤتھ پورٹ کے شمال میں لنکاشائر کے ایک گاوں بینکس سے گرفتار کیا گیا۔
پولیس ملزم سے اس حملے کے بارے میں تفتیش کر رہی ہے۔ ایک عینی شاید نے بتایا ہے کہ اس نے ملزم کو ایک ٹیکسی سے اترتے ہوئے دیکھا تھا اور اس نے اپنے چہرے پر ماسک پہن رکھا تھا اور ٹیکسی کو پیسے دینے سے انکار کر دیا تھا۔
بی بی سی کی معلومات کے مطابق یہ نوجوان 2013 میں ساؤتھ پورٹ منتقل ہوا تھا اور اس کے والدین کا تعلق روانڈا سے ہے جو پہلے کارڈف میں رہتے تھے۔
ملزم کے اہلخانہ کی ایک سابقہ پڑوسی نے بی بی سی سے بات کی اور بتایا کہ ’وہ جوڑا کافی اچھا تھا، ماں گھر پر ہی رہتی تھی اور باپ بھی اچھا انسان تھا جو ہر روز کام پر جاتا تھا۔ ان کے پاس ایک چھوٹی سی گاڑی تھی۔‘
دوسری جانب کاوئنٹر ٹیررازم پولیس نارتھ ویسٹ نے ایک بیان میں کہا کہ ’سوشل میڈیا پر اس واقعے کے بعد ملزم کا جو نام بتایا جا رہا ہے وہ غلط ہے اور تفتیش کے دوران بہتر ہو گا کہ لوگ قیاس آرائیاں نہ کریں۔