ایک اور سقوط ڈھاکہ؟؟؟

میرے منہ میں خاک۔ خدا کرے میرا اندازہ، وسوسہ اور تجزیہ سو فیصد غلط ہو، مگر کیا کروں مجھے آج کے تضادستان کے حالات، 1971ء کے واقعات سے ملتے جلتے نظر آتے ہیں۔ تب اداروں کی لڑائی، شخصیات کے ٹکرائو اور ہوش کی بجائے جوش سے کام لیا گیا اور بالآخر سقوط ڈھاکہ ہو گیا۔ آج بھی اسی طرح کا بحران ہے، کردار بھی وہی ہیں، البتہ ان کے نام بدل گئے ہیں، تب بھی سب کی غلطیوں نے المیہ مشرقی پاکستان کو جنم دیا تھا، آج بھی سب کی غلطیاں کہیں ملک کو کسی نئے سانحے کی طرف نہ دھکیل دیں۔ تب کے حالات اور آج کے معاملات کا تقابل بڑا ہوشربا اور سبق آموز ہے۔

1971ء میں بھی سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ شیخ مجیب کو کیسے روکنا ہے؟ اس وقت کی مقتدرہ، مغربی پاکستان کے بیشتر سیاستدانوں اور عوام کا خیال تھا کہ شیخ مجیب آیا تو وہ چھ نکات پر عمل کرتے ہوئے ملک کو کمزور کر دے گا یا توڑ دیگا، آج کا مسئلہ بھی تقریباً وہی ہے مقتدرہ، ملک کی دو سیاسی جماعتوں اور ان کے حامیوں کا خیال ہے کہ اگر عمران خا ن آ گیا تو ملک معاشی طور پر تباہ ہو جائیگا اور گورننس ختم ہو جائے گی۔ اس وقت شیخ مجیب کو الیکشن میں ہروانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ مشرقی پاکستان میں سویپ کر گیا، اس بار پی ٹی آئی کے خیال میں عمران خان کی جماعت سویپ کر چکی حالانکہ اسے ہروانے کی کوشش کی گئی۔

اگر اس وقت شیخ مجیب اور مقتدرہ آمنے سامنے تھے تو آج عمران خان اور مقتدرہ ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں، اس وقت مقتدرہ کا ساتھ دینے والوں میں ذوالفقار علی بھٹو اور جماعت اسلامی تھے، آج کی مقتدرہ کا ساتھ دینے والوں میں آصف علی زرداری اور نواز شریف ہیں۔ پہلے بھی بائیں بازو کی پیپلز پارٹی اور دائیں بازو کی جماعت اسلامی ’’قومی مفاد‘‘ میں مقتدرہ کے ساتھ تھیں آج بھی لبرل پیپلز پارٹی اور دائیں بازو کا پرانا ذہن رکھنے والی ن لیگ مقتدرہ کے ساتھ ہے، کل شیخ مجیب کو مکتی باہنی کی مسلح حمایت حاصل تھی اور وہ پاک فوج پر حملے کر کے اسے نقصان پہنچاتی تھی، آج کی مکتی باہنی سوشل میڈیا ہے جو مقتدرہ پر گولیوں جیسی گالیوں کی بوچھاڑ کرتا ہے، ماضی میں جس طرح بھارت اور دوسرے ممالک نے شیخ مجیب کی اخلاقی اور مالی مدد کی تھی آج عمران کی مدد اوورسیز کی طرف سے آ رہی ہے، مشرقی پاکستان میں تعینات جنرل نیازی اور رائو فرمان ایک دوسرے سے برسر پیکار رہتے تھے، آج کے پاکستان کی سیاست کے فیصلہ ساز بھی انتشار کا شکار ہیں اگرچہ ان کی صلح کروائی گئی ہے مگر ابھی وحدت ِفکر نظر نہیں آ رہی۔ کہا جاتا ہے شیخ مجیب اور عوامی لیگ کی انسپائریشن وہاں کے دانشور تھے، آج عمران خان کے حامیوں کی نئی انسپائریشن عدلیہ کے فیصلے ہیں، جب مشرقی پاکستان میں آپریشن کا فیصلہ ہوا تو سب سے پہلے دانشور چن چن کر مارے گئے، جنرل ٹکا خان نے دو تین روز کے آپریشن میں سب کو فارغ کر دیا، آج بھی جب مقتدرہ اور حکومت مل کر جو حکمت عملی بنائیں گی اس کا پہلا نشانہ عدلیہ کے وہ جج ہوں گے جو مقتدرہ اور حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں۔

؎آگ ہے، اولادِ ابراہیم ہے، نمرود ہے

کیا کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے

مماثلتیں تو اور بھی بہت ہیں مگر کچھ فرق بھی ہیں، مشرقی پاکستان مقتدرہ کی پہنچ سے بہت دور تھا وہاں ٹینک نہیں جا سکتا تھا آج کا تضادستان ان کی پہنچ میں ہے، اس وقت یحییٰ خان مدارالمہام تھا آج اس کی جگہ پر ایک مختلف شخصیت موجود ہے۔ یحییٰ خان مستقل صدر رہنا چاہتا تھا، آج ایسا نظر نہیں آ رہا۔ ان چند مختلف عوامل کے باوجود معاملات بالکل اسی طرح ڈیڈ لاک کا شکار ہیں، کوئی فریق لچک دکھانے کو تیار نہیں۔ مجیب کے مخالفوں کو ڈر تھا کہ اسے اقتدار ملا تو وہ مشرقی پاکستان میں موجود مغربی پاکستان کے سویلین اور فوجی افراد کو پھانسیوں پر لٹکائے گا، آج بھی یہ خدشہ موجود ہے کہ عمران کے حامی اپنے مخالفوں سے خوفناک بدلہ لیں گے۔

سیاست کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے میں گزشتہ ڈیڑھ سال سے مفاہمت اور مصالحت کیلئے قلم گھسیٹتا رہا ہوں، لندن میں نواز شریف صاحب سے درخواست کی کہ آپ اقتدار میں آنے والے ہیں آپ آ کر انتقام کا سلسلہ بند کر دیجئے گا بدلہ نہ لیجئے گا، انہوں نے اسے درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔ بار بار اپنے سینئر ساتھیوں کے ہمراہ زمان پارک جا کر عمران خان صاحب سے درخواست کی کہ سیاسی مفاہمت اور مصالحت نہ ہوئی تو حالات خراب ہوں گے، یہ کوشش بھی کامیاب نہ ہو سکی۔ مقتدرہ تک براہ راست کوئی رسائی نہیں لیکن تحریروں اور گفتگوئوں سے انہیں بھی بار بار درخواست کی کہ لڑائی جاری رہی تو بحران بڑھتے جائیں گے، وہاں بھی کوئی شنوائی نہ ہوئی اور اب یہ صورتحال ہے کہ خوف آنے لگا ہے کہ کوئی نہ کوئی سانحہ ہو جائے گا اور ملک پاکستان پھر سے کئی دہائیاں پیچھے چلا جائے گا۔

مجھے یہ ڈر نہیں کہ پاکستان ٹوٹ جائے گا یا نیا بنگلہ دیش بن جائے گا مجھے ڈر ہے کہ پاکستان کی واحد متفقہ دستاویز ’’آئین‘‘ سبوتاژ ہو جائے گا۔ میری ناقص رائے میں لڑائی کا ہر ایک کو نقصان اور مفاہمت کا ہر فریق کو فائدہ ہے لیکن واحد شرط لچک ہے، انا اور ضد کو چھوڑ کر ایک ایک قدم پیچھے ہٹنا ہو گا۔ قائد اعظم کی مثال لے لیں وہ پورا بنگال، پورا پنجاب، حیدر آباد دکن، کشمیر اور منادر پاکستان میں شامل کرنا چاہتے تھے لیکن بقول انکے انہیں ’’کٹا پھٹا پاکستان‘‘ قبول کرنا پڑا تاہم اس کمپرومائز کے باوجود وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔ فرض کریں اگر مفاہمت اور مصالحت ہوتی ہے تو عمران کیلئے آج نہیں تو کل ضرور اقتدار کے دروازے کھل جائیں گے۔ نون لیگ کو فائدہ یہ ہو گا کہ وہ حکومت میں بیٹھ کر مذاکرات کرے گی تو اس کو بہتر ڈیل مل جائے گی، مقتدرہ کو فائدہ یہ ہوگا کہ اس کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کا فوری طور پر ازالہ ہو جائے گا۔ مفاہمت کا نقصان صرف جمہوریت کے دشمنوں کو ہو گا جو تضادستان میں جمہوریت کو لپیٹ کر کسی ٹیکنو کریٹ حکومت کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔

وقت کی ضرورت یہ ہے کہ اتحادی حکومت میں شامل جمہوری لوگ اپنی جماعتوں کو مجبور کریں کہ وہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے فیصلے کو واپس لیں، پی ٹی آئی کے اندر بیٹھے اعتدال پسند رہنمائوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے لیڈر اور پارٹی دونوں کو جارحانہ موقف لینے سے روکیں، عمران خان کو چاہئے کہ وہ سوشل میڈیا کی ہر چیز OWN کرنے کی پالیسی کو بند کریں، سوشل میڈیا کے دبائو سے نکلیں اور ٹھنڈے دل سے فیصلہ کریں کہ کیا مقتدرہ سے محاذ آرائی ملک کے مفاد میں ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھرآپ اسے روکتے کیوں نہیں؟ مقتدرہ سے بھی دست بستہ عرض ہے کہ دنیا بدل چکی آپ بھی بدلیں، زور زبردستی کا دور ختم ہو چکا، پی ٹی آئی کو بھی پارلیمان میں جگہ دیں۔ تحریک انصاف کو چاہئے کہ اپنے گالیاں دینے والے لیڈروں کو لگام ڈالے۔ انتقام لینے کے راستے پر چلے تو سارا پاکستان خون سے سرخ ہو جائے گا مگر ان سے اختلاف کرنے والے ختم نہیں ہوں گے۔ فوج بھی تاریخ سے سبق سیکھے، نہ جنرل ٹکا مشرقی پاکستان کی آواز کو کچل سکے اور نہ جنرل نیازی سقوط ڈھاکہ کی ذلت سے بچ سکا۔ تجربوں اور تاریخ سے سیکھ کر جینا ہی بہترین راستہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں