لالہ رعونت اور انکسار بھائی

یہ کہانی محلہ ہند سندھ کے دو پڑوسیوں کی ہے دونوں صدیوں سے ایک ہی محلے کے باسی ہیں دونوں ایک دوسرے کی اونچ نیچ اور خوبیوں غلطیوں سے اچھی طرح واقف ہیں دونوں کے مسائل ایک جیسے ہیں غربت، وسائل کی کمی اور پسماندگی سارے محلے کے مشترکہ مسائل ہیں لیکن انکی ذاتی لڑائیاں ایک دوسرے کی ترقی کے راستے میں حائل ہیں۔ دونوں اکٹھے ہی محلے میں آباد ہوئے بھائی انکسار کو شروع میں ہی تنگ کیا گیا ۔1947ء میں ہمارے بھائی انکسار محلے میں آباد ہوناہی شروع ہوئے تھے کہ ان کو عدم تحفظ کا شکار کر دیا گیا ،محلے دار لالہ رعونت شروع ہی سے سارے محلے کی ملکیت کے دعویدار تھے لالہ رعونت غریب محلے داروں کے ساتھ محبت اور سرپرستی کے سلوک کی بجائے سب کو دبا کر رکھنا چاہتا تھا۔ بھائی انکسار نے شروع ہی سے یہ موقف اختیار کیا کہ ہمیں امریکہ اور کینیڈا کی طرح کے پڑوسی ہونا چاہئے۔ مگر انکسار بھائی کی خواہش کے برعکس لالہ رعونت کو اپنی بڑا ئی پر بڑا ناز تھا لالہ رعونت کے گھر میں للکارا مارنے والے بہت تھے اور اب بھی ہیں وہ لالہ رعونت کے غبارے میں مسلسل ہوا بھرتے رہتے ہیں لالہ رعونت بے شک عمر اور طاقت میں بڑا ہے مگر جھوٹی ہوا بھرنے سے اس میں غرور اور تکبر آ گیا ہے اسے اردگرد کے پڑوسی بونے لگتے ہیں اور وہ خود کو دیو سمجھنے لگا ہے انکسار بھائی سے بھی غلطیاں ہوئیں لیکن وہ بھی اپنے گھر اور حقوق کے دفاع کے لئے بہادری سے ہر وقت لڑنے کے لئے تیار رہا ۔

محلے کی ابتدا ہی سے انکسار بھائی کی خارجہ امور پر گرفت تھی سر ظفر اللہ خان، پطرس بخاری، ایم ایچ اصفہانی، میر لائق علی اور بعدازاں ایس شاہنواز، آغا شاہی، عزیز احمد اور صاحبزادہ یعقوب علی خان نے دنیا بھر کے ایوانوں میں رعونت بھائی کے کشمیر اور افغانستان پر موقف کو تاریخی شکست دی۔ رعونت بھائی نے سرخ محلے کے روسی ریچھ سے دوستی لگالی مگر بھائی رخسار نے مستقبل کی دنیا کو پڑھ کر امریکی عقاب کا ہمراہی بننا قبول کیا سفارتی سطح پر ہم پہلے دو رائونڈ جیت گئے۔ کشمیر اور افغانستان پر دنیا نے ہمارا ساتھ دیا رعونت کونے میں پڑا رہا مگر انکسار بھائی سے افغان جہاد میں غلطی ہو گئی امریکی عقاب کے دل میں گرہ پڑ گئی کہ انکسار ڈبل گیم کھیلتا ہے۔ دنیا کو یہ لگا کہ اسامہ بن لادن اور طالبان کی بھی انکسار بھائی درپردہ اور کھلے عام مدد کرتے ہیں۔ لالہ رعونت نے عالمی محلے میں ڈھول بجا بجا کر ہمارے خلاف پروپیگنڈا کیا، دنیا کو انکسار بھائی کا چہرہ بھیانک کرکے دکھایا اور اپنے عیار چہرے پر نقاب ڈال دیا ۔

ان دونوں پڑوسیوں کی کہانی تو بہت طولانی ہے مگر پھر قدرت کا کرنا کیا ہوا کہ لالہ رعونت نے بھائی انکسار کی خراب عالمی پوزیشن دیکھی تو اس میں تکبر غرور اور بڑھ گیا گزشتہ گیارہ سال میں لالہ رعونت کا رویہ ہر محلے دار سے اپنے حجم سے بڑھ کر تھا ۔حالیہ جنگ سے پہلے خارجی دنیا لالہ رعونت کے رویے سے شاکی تھی مگر اس کی جھوٹی پھوں پھاں ، عظمت کے دعوئوں اور معاشی مجبوریوں کی وجہ سے بہت سے عالمی ممالک مہر بہ لب تھے ۔اب انکسار بھائی نےحالیہ جنگ میں لالہ رعونت کی عظمت کو تار تار کر دکھایا تو اب عالمی محلے کے کئی لوگ لالہ رعونت کی زیادتیوں کے بارے میں انکشاف کر رہے ہیں۔ لالہ رعونت انا کی پہاڑی پر چڑھا ہوا تھا اور محلہ داری کے اصولوں کو پامال کرتا تھا۔ انکسار بھائی امریکی سفارتکار، برطانوی ڈپلومیٹس اور حتی کہ ہرغیر ملکی مہمان کے سامنے جھکے جاتے ہیں امریکی سفارتکار تو انکسار بھائی کی آنکھوں کا تارا ہوتا ہے جبکہ لالہ رعونت ان سفارت کاروںکو سرے سے اہمیت ہی نہیں دیتا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ انکسار بھائی کا امریکی سفارتخانے اور سفارتکاروں سے جنگ کے درمیان لمحہ بہ لمحہ رابطہ تھا اور ان سفارتکاروں نے انکسار بھائی کا مقدمہ واشنگٹن کے سفارتی محلے میں اس موثر طریقے سے پہنچایا کہ ٹرمپ اور انکی خارجہ ٹیم کا جنوب ایشیائی خطے کا اسٹرٹیجک منصوبہ ہی بدل دیا۔ دوسری طرف لالہ رعونت کے ہاں امریکی سفارتخانہ کا کردار سرے سے ہی نہیں تھا کیونکہ لالہ رعونت انہیں لفٹ ہی نہیں کرواتے۔لالہ رعونت کو خبط عظمت اتنا ہے کہ وہ اپنی بڑائی کو اکڑ سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

لالہ رعونت نے انکسار بھائی کے خلیجی عزیزوں کو بھی چکنی چپڑی باتوں میں لگا لیا تھا یہ ممالک کلمہ تو انکسار بھائی والا پڑھتے ہیں مگر وہ لالہ رعونت سے مرعوب ہو کر اس سے کاروباری پینگیں بڑھا رہے تھے ۔ان خلیجی دوستوں نےانکسار بھائی سے مالی امداد اور معاہدے کے زبانی وعدے تو بہت کئے لیکن عملی طور پر کچھ بھی نہ کیا۔دوسری طرف لالہ رعونت کو انہوں نے سر چڑھایا ہواتھا اور اس سے دھڑا دھڑ معاہدے کر رہے تھے جنگ کے بعد ان عزیزوں میں سے کچھ کی آنکھیں کھل گئی ہیں اور انہیں انکسار بھائی کی انکساری کے اندر چھپی طاقت کا احساس ہو گیا ہے یورپ کے کئی سفراء نے سرکاری اور کئی ایک نے غیر سرکاری طور پر انکسار بھائی کو لالہ رعونت کا غرور اور جھوٹا تکبر توڑنے پر مبارکباد بھی دی ہے ۔

غرور کا سر وقتی طور پر تو نیچا ہو چکا اب انکسار بھائی کو اپنے تاثر کو دیرپااور دوررس بنانے کےلئے فوراً اقدامات کرنا ہونگے انکسار بھائی کی انکساری تو ہر ایک کو پسند ہے مگر غیروں کے وہ اعتراضات ہمیں دور ہونے چاہئیں ایک انکسار بھائی پر دہشت گردی کی سرپرستی کا مبینہ الزام اور دوسرا انکسار بھائی کے اندرون خانہ سیاسی عدم استحکام۔پاکستانی افواج، اہل سیاست اور عوام نے آئینی بندوبست کے اندر رہ کر جس طرح خوبصورتی سے اپنے رول نبھائے ہیں ان کو مضبوط اور شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔ طالبان کی بے جا حمایت اور کشمیر کے اندر اپنے جہادی بھیجنے پر سفارتی دنیا کو جھوٹے یا سچے تحفظات ہیں ۔لگتا ہے انکسار بھائی اپنی ماضی کی دانستہ یا نادانستہ لغزشوںکی تصحیح کرنے پر آمادہ ہیں۔ کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی مدد سے ایک نہ ایک دن یہ مقدمہ جیتا جانا پتھر پر لکیر ہے لیکن نائن الیون کے بعد کی دنیا میں دہشت گردی ایک بہت بڑا جرم بن چکی ہے انکسار بھائی کو اس الزام سے جان چھڑانی چاہئے پاکستان کےسیاسی عدم استحکام میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ کپتان خان اور مقتدرہ کے متضاد بیانیے اور رویئے ہیں اس میں انائیں زیادہ اور اصول کم ہیں دونوں طرف کی لچک ہی دیرپا سیاسی استحکام کی بنیاد بن سکتی ہے ۔

جنگ تباہی لاتی ہے تو نئے مواقع بھی پیدا کرتی ہے انکسار بھائی کے گھر پھیلی مایوسی ختم ہوچکی اب فتح کے ترانوں کےساتھ ساتھ معیشت کی بہتری پر مکمل توجہ کی ضرورت ہے گو موجودہ حکومت معیشت کو پہلے سے بہت بہتر چلا رہی ہے مگر ابھی تک واجب الادا بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی ۔خلیجی ممالک سے متوقع سرمایہ کاری ابھی تک نہیں آئی برآمدات میں متاثر کن بڑھاوا نہیں ہوا آبادی کو کنٹرول کرنے پر بات تک نہیں ہو رہی ۔ہم نے خوشحالی کے خواب دیکھنے تو شروع کر دیئے ہیں لیکن فی الحال انکی تعبیر نظر نہیں آرہی ادھر سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں