ٹی شرٹ اور ٹراؤزر پہنے ہوئے کویتا پر اعتماد انداز اور مسکراہٹ کے ساتھ کسٹمرز سے مخاطب ہوتی ہیں اور کہتی ہیں ’ہم گجراتی فیملی کے گھر کا ذائقہ کراچی کے شہریوں کو کھلا رہے ہیں۔‘
کویتا سولنکی حالیہ دنوں کے دوران کراچی کے فوڈ بلاگرز میں مقبول ہوئی ہیں جس کے بعد شہریوں کی ایک بڑی تعداد ’کویتا دیدی کے ڈھابے‘ کے نام سے مشہور سٹال پر انڈین پاؤ بھاجی اور وڑا پاؤ کا ذائقہ چکھنے آرہے ہیں۔
کویتا سولنکی کی منفرد بات یہ ہے کہ ان کے ڈھابے نے اس مقام پر دیگر خواتین کو بھی کھانے کا کاروبار کرنے کا راستہ دکھایا اور اب یہ جگہ کراچی میں خواتین کی فوڈ سٹریٹ بنتی جا رہی ہے۔
یہ کراچی کینٹ سٹیشن کے قریب نواب آف جونا گڑھ کے پرانے بنگلے کی دیوار کے ساتھ ہے۔ یہاں آس پاس اونچی عمارتیں واقع ہیں جن میں زیادہ تر ہندو اور مسیحی متوسط گھرانے آباد ہیں۔
پاؤ بھاجی اور وڑا پاؤ کی کامیابی
کویتا سولنکی مارکیٹنگ کے شعبے سے منسلک رہی ہیں۔ وہ بین الاقوامی گھڑیوں کی کمپنی میں ملازم رہیں اور دو سال دبئی میں بھی گزارے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان سے گھر والوں سے دوری برداشت نہ ہوئی اور اسی لیے وہ واپس لوٹ آئیں۔
کویتا خود کو مہم جو اور کھانے کی شوقین قرار دیتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ایک روز وہ اسی گلی سے گزر رہی تھیں تو یہ ریڑھی جو اب ان کے استعمال میں ہے بند پڑی تھی۔
انھوں نے اس ریڑھی کے مالک، جن کو وہ ’ڈیڈا‘ اور عام لوگ ’جودو‘ انکل کے نام سے پکارتے ہیں، سے رابطہ کیا اور کہا کہ ’انکل مجھے یہ دیں کچھ کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ انھوں نے مثبت جواب دیا اور کہا کہ تم بھی میری بیٹی ہو، دیکھو کوشش کرو اگر تم سے چل جائے۔‘
یاد رہے کہ اس سے قبل جودو انکل اس ریڑھی پر آلو کے چپس بنا کر فروحت کرتے تھے۔ کویتا نے بھی کاروبار کی ابتدا آلو کے چپس اور دال کے سموسے سے کی اور بعد میں ماہ رمضان میں پکوڑے بھی شامل کر لیے۔
تاہم ان کی جانب سے جب انڈین وڑا پاؤ اور پاؤ بھاجی کو متعارف کروایا گیا تو ان کے ڈھابے کی مقبولیت بڑھ گئی۔
وڑا پاؤ بنانے کے لیے بنیادی طور پر آلو کا بھرتا بنا کر اس میں مسالہ جات ملائے جاتے ہیں اور پھر بیسن لگا کر پکوڑے کی طرح اس کو فرائی کیا جاتا ہے۔ پاؤ ایک چھوٹی بریڈ ہے جو نرم ہوتی ہے جبکہ پاؤ بھاجی میں بھاجی مکس سبزی ہوتی ہے جس کو توے پر مکھن کے ساتھ فرائی کرکے پیش کیا جاتا ہے۔
ابتدا میں ایک فوڈ بلاگر نے کویتا کے ڈھابے کو دریافت کیا جس کے بعد یہاں وی لاگرز کی قطار لگ گئی۔ جس روز ہم نے ان کے ڈھابے کا دورہ کیا، اس روز بھی وہاں تین وی لاگرز موجود تھے اور کویتا ان کے سوالات کے جوابات بھی دے رہی تھیں اور کام بھی کر رہی تھیں۔ کسی بھی مرحلے پر ان کی مزاج میں تلخی نہیں آئی۔
’اعتماد اور ہمت کی ضرورت ہے‘
کویتا کہتی ہیں کہ اعتماد اور ہمت کی ضرورت ہے کہ ’میں یہ کر سکتی ہوں یا نہیں کرسکتی، انسان کو اس بات کا تعین کرنا ہوتا ہے۔‘ ان کی سوچ یہ تھی کہ اگر اس میں اگر وہ کامیاب نہیں رہیں تو ان کے لیے ایک تجربہ بن جائے گا کہ یہ ان کے مزاج کا کام نہیں تھا۔
کویتا کے والد موہن سولنکی نجی کمپنی میں ڈرائیور تھے۔ موہن سولنکی بھی اپنی بیوی، بڑی بیٹی، داماد اور بہو کے ساتھ ڈھابے پر موجود نظر آئے۔
پورا خاندان ہی کویتا کا ہاتھ بٹا رہا تھا۔ بھابھی پاؤ سیک رہی تھیں تو والدہ چپس بنا رہی تھیں جبکہ والد ساتھ ہی موجود سودا سٹال لیے کھڑے تھے۔ اگر کویتا کو سامان کی کمی کا مسئلہ درپیش ہو تو ان کے والد فوری طور پر انھیں ضرورت کی اشیا لا کر دیتے ہیں۔
موہن سولنکی کے تین بچے ہیں، دو بیٹیاں اور ایک بیٹا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کی چھوٹی بیٹی کویتا کو بزنس کا شوق تھا۔ ’وہ کہتی ہے کہ میں آگے بڑھنا چاہتی ہوں، وہ دبئی سے واپسی پر اپنا بزنس شروع کرنا چاہتی تھی۔‘
’میں نے کہا کہ شروع کرو، اس کے بعد اس نے یہ ڈھابہ کھولا ہے، جہاں پاؤ بھاجی اور وڑا پاؤ لگایا، جسے کھانے کے لیے پہلے انڈیا کا رخ کرنا پڑتا تھا۔‘
کویتا کہتی ہیں کہ انھیں والدین کی مدد ہمیشہ حاصل رہی ہے۔ وہ روز ہی ان کے پاس آتے تھے اور ساتھ بیٹھتے تھے۔ پھر چاہے کسٹمر ہوں نہ ہوں، اب تو پوری فیملی اس میں شامل ہے۔
خواتین کی فوڈ سٹریٹ
کویتا کی ریڑھی کے ساتھ ساتھ ان کی بڑی بہن نومیتا سولنکی کا سٹال ہے جس پر وہ توا کلیجی، جھینگے، بار بی کیو سمیت دیگر ’نان ویج آئٹم‘ لگاتی ہیں۔
نومیتا کہتی ہیں کہ وہ اپنی چھوٹی بہن سے متاثر ہوئیں جنھوں نے مشورہ دیا کہ ’دیدی آپ بھی کچھ شروع کرو کیونکہ آپ بھی اچھی کوکنگ کرتی ہیں، جو آپ اچھا بناتی ہیں وہ ہی لگاؤ۔‘
پیشے کے اعتبار سے نومیتا ریسورس ٹیچر‘ ہیں لیکن اب ان کے شوہر بھی سٹال پر ان کا ساتھ دیتے ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ وہ دونوں ملازمت کرتے ہیں لیکن شام کے وقت پارٹ ٹائم ملازمت کی تلاش تھی، ’پھر سوچا کہ اس سے اچھا ہے کہ ہم خود کا ہی کچھ کھول لیں تو اپنا کچھ بن جائے گا۔‘
اب اس جگہ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ خواتین کی فوڈ سٹریٹ بن چکی ہے کیوں کہ کویتا کے بعد ان کی بہن کا سٹال آیا اور پھر مزید دو خواتین نے سٹال لگا لیے۔
اب یہاں ویج اور نان ویج گھر کے تیار کردہ کھانے، بار بی کیو، چنا چاٹ، دہی بڑے، کھیر، جوس، آلو کے چپس دستیاب ہیں۔ ان خواتین کے پاس کوکنگ کا کوئی بڑا انتظام نہیں اور سرمایہ بھی کم ہے لیکن جذبے کا کوئی فقدان نہیں۔
کویتا اپنی مقبول پاؤ بھاجی ایک درمیانے فرائی پین میں بناتی ہیں جبکہ عام طور پر ایک بڑے توے پر اس کو بنایا جاتا ہے اور وہ وڑا پاؤ کو ’سینڈوچ میکر‘ کی مدد سے بناتی ہیں۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں سڑکوں پر فوڈ سٹال کوئی نئی بات نہیں چاہے بہادرآباد کی فوڈ سٹریٹ ہو، برنس روڈ ہو یا پھر حسین آباد اور بوٹ بیسن کی فوڈ سٹریٹ ہو۔
ایسے میں کویتا کے لیے یہ کام ابتدا میں بہت مشکل تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ابتدائی تین چار مہینے تو اکیلے ہی بیھٹے رہتے تھے اب مزید فیملیز آگئیں، رونق لگ گئی ہے اور بوریت بھی نہیں ہوتی۔‘
کرسٹینا سہیل بھی یہاں پر اپنی بہن کے ساتھ سٹال چلاتی ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے نرس ہیں اور بتاتی ہیں کہ انھوں نے ڈیڑھ ماہ قبل ایک ٹیبل سے کام شروع کیا۔ اب ان کا ایک سٹال ہے، جس میں وہ چاٹ، دہی بڑے، کھیر اور جوس رکھتی ہیں۔
’میں 15 سال سے نجی ہسپتالوں میں کام کر رہی ہوں۔ شوہر کی ایک ٹانگ سڑک حادثے میں کٹ گئی، بچے سکول میں پڑھتے ہیں، مہنگائی بھی بڑھ گئی ہے، اس صورتحال میں کسی ایک فرد کی آمدن سے گھر چلانا دشوار ہوگیا۔‘
ایسی صورت حال میں انھوں نے کوئی کام شروع کرنے کا سوچا۔ ان کی چھوٹی بہن ٹیچر ہیں اور ٹیوشن بھی پڑھاتی ہیں جنھوں نے مشورہ دیا کہ یہاں آ کر کام شروع کرو۔
کسٹمرز سے فیس ٹو فیس بات
کویتا کا کہنا ہے کہ ابتدائی چند ماہ میں ریڑھی پر کھڑا ہونا انھیں عجیب سا لگتا تھا کیونکہ ان کا پس منظر مارکیٹنگ سے تھا اور آن لائن کسٹمز سے بات کرتی تھیں تو یہاں ’فیس ٹو فیس‘ بات ہونے لگی۔ انھوں نے اس کو بھی مارکیٹنگ کا ہی ایک پہلو سمجھ لیا، جس کے بعد یہ مشکل نہیں محسوس ہوتی کہ سڑک پر ہوں۔
کراچی میں گجراتی، تمل، ملباری، بہاری، بنگالی، افغانی، ایرانی، چینی سمیت جنوبی ایشیا اور ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والی کئی کمیونٹیز آباد ہیں جن کے کھانے کے چھوٹے بڑے ہوٹلز اور ڈھابے موجود ہیں۔
کویتا سولنکی کے سٹال پر ہماری ملاقات شہباز بنگش سے ہوئی جو آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں رہتے ہیں اور ایک وی لاگر کی ویڈیو دیکھ کر یہاں آئے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ میلبورن میں انڈین آبادی کافی ہے اور انھوں نے پاؤ بھاجی اور وڑا پاؤ وہاں ٹرائی کیا لیکن ان کا خیال ہے کہ ’یہاں جو ذائقہ ملا وہ منفرد تھا۔‘
شیوان اپنی والدہ کے ساتھ آئی تھیں اور ان کو بھی فیس بک پر موجود ایک پیج نے کویتا کے ڈھابے کا راستہ دکھایا۔ انھوں نے پہلی بار پاؤ بھاجی اور وڑا پاؤ کھایا تھا۔ ان کے مطابق ’یہ تھوڑا سپائسی ہے لیکن چھوٹے سے لے کر بڑے تک سب کھا سکتے ہیں۔‘
شیوان کی والدہ ریٹا کا کہنا تھا کہ ’ایک تو صاف ستھرا کھانا ہے، دوسرا گھر کے مسالوں سے بنا ہوا ہے تو یہ دونوں چیزیں اس کی خصوصیت اور اہمیت بڑھا دیتی ہیں۔‘
دائل مغل اپنے دوست کے ساتھ بار بی کیو اور جھینگے کھاتے ہوئے نظر آئے، جو انھوں نے کویتا کی بہن نومیتا کے سٹال سے لیے تھے۔ ان کے مطابق اس سے پہلے وہ کویتا کے سٹال سے پاؤ بھاجی اور وڑا پاؤ کھا چکے ہیں۔ ان کے مطابق پہلی مرتبہ انھوں نے یہ سب کھایا لیکن بڑا مزا آیا۔
ان سٹالز پر آنے والے یا تو نوجوان طالب علم تھے یا پھر فیملیز جو گلشن اقبال، صدر اور دیگر علاقوں سے یہاں آرہے تھے۔
لکھن راٹھی کہتے ہیں وہ گلشن سے وڑا پاؤ کھانے یہاں آئے ہیں۔ ان کے مطابق ’یہ تو سچ میں بہت لذیذ کھانا ہے۔‘