’بڑھاپا روکنے والی دوا‘ جو طویل اور صحتمند زندگی ممکن بنا سکتی ہے

طویل العمری، دائمی جوانی، آب حیات ایسے تصورات ہیں جو انسانی تاریخ کی ابتدا سے ہی دلچسپی کے حامل رہے ہیں۔

تاہم ان تصورات پر اب تک کوئی حتمی جواب نہیں مل سکا تھا۔ لیکن اب سائنسدانوں نے ایک ایسی دوا تخلیق کی ہے جس کی مدد سے امید کی جا رہی ہے کہ انسانوں میں عمر ڈھلنے کی رفتار کو کم کیا جا سکے گا۔

اس دوا کا تجربہ حال ہی میں لیبارٹری میں چوہوں پر کیا گیا جس میں یہ معلوم ہوا کہ ان جانوروں کی طبعی عمر میں 25 فیصد تک اضافہ ہوا۔

جن چوہوں پر اس دوا کو آزمایا گیا انھیں ’سپرماڈل گرینیز‘ کا نام دیا گیا کیوں کہ وہ باقی چوہوں، جنھیں دوا نہیں دی گئی تھی، کے مقابلے میں زیادہ صحت مند اور توانا تھے اور ان پر بیماری بھی کم اثرانداز ہو سکی۔اس دوا کا انسانی تجربہ بھی کیا جا رہا ہے تاہم اس وقت یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔

طویل العمری کی تلاش انسانی تاریخ کا حصہ رہی ہے۔ سائنسدان یہ تو بہت پہلے ہی جان گئے تھے کہ عمر ڈھلنے یا بڑھاپے کے قدرتی عمل پر اثرانداز ہوا جا سکتا ہے۔ لیکن اب اس شعبے میں تحقیق تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور سائنسدان عمر سے جڑے مالیکیول کی شناخت اور اس کے اثرات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حالیہ تجربہ امپیریل کالج لندن کی ایم آر سی لیبارٹری آف میڈیسن سائنس اور ڈیوک این یو ایس میڈیکل سکول سنگاپور نے مشترکہ طور پر کیا جس میں انٹرلیوکن 11 نامی پروٹین کو جانچا گیا۔

انسانی جسم میں اس مالیکیول کی مقدار عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے اور یہ جسمانی سوزش کے عمل کو بڑھاتا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ یہ مالیکیول ایسے ’سوئچ آن‘ کر دیتا ہے جو عمر ڈھلنے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

طویل، صحت مند زندگی

محققین نے دو مختلف تجربات کیے ہیں جن میں سے پہلے میں جیناتی تبدیلی کے بعد چوہوں میں انٹرلیوکن 11 کی قدرتی افزائش کو ختم کر دیا گیا۔

دوسرے تجربے میں چوہوں کو 75 ہفتوں کی عمر، جو انسانی عمر کے حساب سے 55 سال بنتے ہیں، تک پہنچنے کے بعد ایک ایسی دوا دی گئی جو انٹرلیوکن 11 کو ان کے جسم سے خارج کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔

جنرل نیچر‘ میں شائع ہونے والے اس تحقیق کے نتائج کے مطابق عمر میں 20 سے 25 فیصد تک کا اضافہ دیکھا گیا جس کا انحصار جنس اور تجربے پر تھا۔

زیادہ عمر کے چوہے سرطان سے مر گئے لیکن جن چوہوں میں انٹرلیوکن 11 نہیں تھا، ان پر بیماری کا زیادہ اثر نہیں ہوا۔ ان جانوروں میں پٹھے بھی بہتر تھے، ان کے جسم توانا اور کھال صحت مند رہی۔

میں نے اس تحقیق میں شامل ایک سائنسدان پروفیسر سٹوارٹ کوک سے سوال کیا کہ کیا یہ واقعی درست اعداد و شمار ہیں۔

انھوں نے جواب دیا کہ ’میں کوشش کر رہا ہوں کہ زیادہ خوش نہ ہوں کیوں کہ جیسے آپ نے کہا یہ کافی ناقابل یقین ہے۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس دوا کا انسانی تجربہ ضروری ہے کیوں کہ ’اگر یہ واقعی کام کرتی ہے تو یہ انقلاب برپا کر سکتی ہے۔‘ وہ یہ دوا خود بھی لینے کو تیار ہیں۔

لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا جو اثرات تجربے میں استعمال ہونے والے چوہوں میں دیکھے گئے، وہی اثرات انسانوں میں بھی ہوں گے اور کیا اس کے کسی قسم کے منفی اثرات تو نہیں۔

سائنس
،سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ بڑھاپے میں انٹرلیوکن 11 ایک ’منفی‘ کردار ادا کرتا ہے اور بڑھاپے کی رفتار تیز کر دیتا ہے

انٹرلیوکن 11 کا انسانی جسم میں ایک واضح کردار ہوتا ہے اور چند نایاب کیسز میں، جن لوگوں میں اس کی افزائش نہیں ہو سکتی، دیکھا گیا ہے کہ جوڑوں، سر کی کھوپڑی میں نقص رہ جاتے ہیں جن کو ٹھیک کرنے کے لیے سرجری کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ انٹرلیوکن 11 کا دانتوں کے نکلنے اور زخم بھرنے سے بھی اہم تعلق ہے۔

سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ بڑھاپے میں انٹرلیوکن 11 ایک ’منفی‘ کردار ادا کرتا ہے اور بڑھاپے کی رفتار تیز کر دیتا ہے۔

یہ دوا ایک ایسی اینٹی باڈی پر مشتمل ہے جو انٹرلیوکن 11 پر حملہ آور ہوتی ہے۔ اس وقت اس دوا کو ایسے مریضوں میں آزمایا جا رہا ہے جن کے پھیپھڑوں میں فائبروسس ہے۔ اس بیماری میں پھیپھڑے زخمی ہو جاتے ہیں اور سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔

پروفیسر کوک کا کہنا ہے کہ یہ تجربہ ابھی مکمل نہیں ہوا تاہم موجودہ اعداد و شمار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ دوا انسانوں کو دینا محفوظ ہے۔

عمر میں دوا سے کمی کی یہ تازہ ترین کوشش ہے۔ اس کے علاوہ ٹائپ ٹو ذیابطیس کے علاج میں استعمال ہونے والی میٹفورمن اور راپامائسن نامی ادویات، جنھیں ٹرانسپلانٹ کے بعد بھی استعمال کیا جاتا ہے، پر بھی تحقیق ہو رہی ہے۔

پروفیسر کوک کا ماننا ہے کہ زندگی گزارنے کے طریقے اور خوراک میں تبدیلیاں کرنے کے مقابلے میں دوا انسانوں کے لیے آسان راستہ ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ ’کیا آپ 40 سال کے بعد بھوکے اور ناخوش رہنا چاہیں گے، وہ بھی عمر میں صرف پانچ سال اضافے کے لیے؟ میں تو ایسا نہیں کر سکتا۔‘

پروفیسر انیسا وڈجاجا بھی اس تحقیق میں شامل تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ ہم نے چوہوں پر تجربہ کیا لیکن ہمیں امید ہے کہ انسانی صحت کے لیے یہ نتائج اہم ہیں کیوں کہ ہم نے ملتے جلتے اثرات انسانی خلیوں میں بھی دیکھے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ تحقیق بڑھاپے کو سمجھنے کی جانب ایک اہم قدم ہے اور جیسا کہ ہم نے ثابت کیا ہے کہ چوہوں میں اس علاج سے صحت مند طریقے سے بڑھاپے کی رفتار کم کی جا سکتی ہے۔‘

شیفیلڈ یونیورسٹی کے پروفیسر الاریا بیلانٹونو کا کہنا ہے کہ ’اس تحقیق کے اعداد و شمار تو ٹھوس ہیں اور یہ ایک ایسا علاج لگتا ہے جو عمر رسیدہ افراد کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔‘

تاہم ان کے مطابق اس وقت انسانی تجربے کے نتائج اور ایسی دوا تیار کرنے کی قیمت سے جڑے سوالات باقی ہیں۔

’ہر 50 سالہ شخص کا زندگی بھر اس دوا سے علاج کرنا ناقابل فہم لگتا ہے۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں