پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان دنوں بازار میں شوگر مانیٹر ڈیوائس کے اشتہارات بھی بکثرت نظر آتے ہیں۔ وہ اکثر ان لوگوں کے لیے بھی تجویز کیے جاتے ہیں جن کو ذیابیطس نہیں ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شوگر مانیٹر ان لوگوں کے لیے ضروری نہیں ہے جو ذیابیطس کا شکار نہیں ہیں۔ ایسا کرنے سے ان میں غذائیت کی کمی باعث بھی بن سکتا ہے۔
ذیابیطس کی نگرانی کرنے والے آلات کو اکثر لوگوں کی کھانے پینے اور غذائیت کے ایک اہم جزو کے طور پر فروغ دیا جاتا ہے اور اس عمل کو بلڈ شوگر ڈائٹ کا نام دیا جا رہا ہے۔
یہ اکثر سوشل میڈیا پر فروغ پاتے ہیں۔ برطانیہ میں زیڈ او ای جیسی کمپنیاں ایسے مانیٹر کے نظام کو فروغ دیتی ہیں۔
برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروسز کے ذیابیطس کنسلٹنٹ پروفیسر پارتھاکر کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی حتمی ثبوت نہیں ہے کہ جن لوگوں کو ذیابیطس نہیں ہے ان میں ذیابیطس کو کنٹرول کرنے میں اس کا کوئی کردار ہے۔
زیڈ او ای کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے تحقیق ابتدائی مراحل میں ہے لیکن یہ جدید ترین ٹیکنالوجی ہے۔
ذیابیطس والے لوگوں میں خون میں شوگر کی سطح کھانے کے بعد کئی گھنٹوں تک بلند رہتی ہے۔ اگر ہائی بلڈ شوگر کو کنٹرول نہ کیا جائے تو یہ آپ کے اعضا کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
یہی کمپنی کورونا کی تشخیص کرنے والی ایپ کی مارکیٹنگ بھی کرتی رہی ہے۔
زیڈ او ای ان کمپنیوں میں سے ایک ہے جو شوگر مانیٹر ایسے لوگوں کو فروخت کرتی ہے جنھیں ذیابیطس نہیں ہے۔
زیڈ او ای کے اب ایک ایسے پروگرام کی بڑے پیمانے پر تشہیر کر رہی ہے، جس کا آغاز 300 پاؤنڈ سے ہوتا ہے۔ اس کے اشتہارات کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر آ رہے ہیں۔
شوگر مانیٹر کیسے کام کرتا ہے؟
جو لوگ ان آلات کو جسم میں شوگر کی نگرانی کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ اسے دو ہفتے تک پہنتے ہیں۔ اس سے کھانے کے بعد جسم میں شوگر لیول کو مانیٹر کیا جاتا ہے۔
کچھ مختلف ٹیسٹ یہ دیکھتے ہیں کہ کسی کا جسم چربی پر کیسے رد عمل ظاہر کرتا ہے۔ پیٹ میں پیدا ہونے والے بیکٹیریا کا بھی ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔
صحت پر کیا اثرات ہیں؟
زیڈ او ای کمپنی سائنسدان ڈاکٹر سارہ بیری نے بی بی سی کو بتایا کہ کمپنی نے کئی دہائیوں کے غذائیت سے متعلق تحقیقی ڈیٹا استعمال کیا۔
اس کے علاوہ انھوں نے بلڈ شوگر اور صحت کے درمیان تعلق سے متعلق اپنے تحقیقی ڈیٹا کا بھی استعمال کیا ہے۔
لیکن وہ تسلیم کرتی ہیں کہ ان کے پاس کوئی حتمی نتیجہ اخذ کرنے کے لیے تمام ثبوت نہیں ہیں۔
لیکن ناقص غذا کے خطرات کو دیکھتے ہوئے (جن کے اثرات ہم پہلے ہی جانتے ہیں)، خون میں شکر کے طویل مدتی اثرات کو سمجھنے کے لیے دہائیوں تک انتظار کرنا بہت کم معنی رکھتا ہے۔
ڈاکٹر ریان کروک، ایک جنرل پریکٹیشنر اور صحت کی دیکھ بھال کی خدمات فراہم کرنے والے ایک سٹارٹ اپ کے مالک ہیں اور وہ کہتے ہیں بلڈ شوگر سے متعلق تمام شواہد حاصل کرنے کے ہدف کے بجائے اس سمت میں جاری تجربات کی حمایت کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ بلڈ شوگر سے متعلق شواہد حاصل کرنے کا انتظار کرنا اس شعبے میں جدت کو ختم کر دے گا۔
کروک اور زیڈ او ای کے ناقدین کا یہ بھی ماننا ہے کہ مسلسل گلوکوز مانیٹر (CGMs) لوگوں کو بلڈ شوگر کے انتظام اور خوراک میں تبدیلیاں کرنے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔
تاہم، لوگ کئی دہائیوں سے خوراک سے متعلق بیماریوں کے بارے میں خبردار کر رہے ہیں۔ لیکن سینکڑوں ڈائیٹ پروگرام لوگوں کو ان کی غذائی تبدیلیوں پر قائم رہنے میں ناکام رہے ہیں۔
تاہم، زیڈ او ای کمپنی کا کہنا ہے کہ کمپنی سخت سائنسی جانچ پر اصرار کرتی ہے۔ انڈسٹری میں کوئی بھی کمپنی اس طرح کے کلینیکل ٹرائلز نہیں کرتی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی تحقیق کافی ٹھوس ہے۔
کمپنی سائنسدانوں اور غذائیت کے ماہرین کی ایک ٹیم کے ذریعے لوگوں کو ثبوت پر مبنی صحت کے مشورے فراہم کر رہی ہے۔
اس پروگرام کے شرکا اپنے کھانے کی مقدار کو ریکارڈ کرتے ہیں اور کھانے کے بعد خون میں شوگر کی سطح کی پیمائش کرنے کے لیے دو ہفتوں تک مسلسل گلوکوز مانیٹر (سی جی ایم) پہنے رکھتے ہیں۔
مختلف طرح کے ٹیسٹ کے علاوہ ان کے آنتوں کے بیکٹیریا پر کی بھی تحقیق کی جاتی ہے۔
ایس کمپنی کا کہنا ہے کہ ان تمام ٹیسٹوں نے اسے یہ شناخت کرنے میں مدد کی ہے کہ یہاں تک کہ دو صحت مند افراد بھی ایک ہی کھانے کے لیے مختلف ردعمل ظاہر کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص کے خون میں شوگر بڑھ سکتی ہے اور دوسرے شخص کے مقابلے میں کاربوہائیڈریٹ کھانے کے بعد زیادہ کم ہو سکتی ہے۔
اس سے ہر فرد کے لیے خوراک کا نظام وضع کیا جاتا ہے۔
تاہم کچھ دوسرے محققین اس طریقہ کار اور شوگر کی سطح کی پیمائش کے اس نظام پر سوالات اٹھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے شوگر کا صحیح ادراک یا تعین نہیں کیا جا سکتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں ماہر غذائیت اور ذیابیطس کے محقق ڈاکٹر نیکولا گیس کا کہنا ہے کہ بلڈ شوگر کو صحت کے مسائل سے جوڑنے والے زیادہ تر شوگر گلوکوز کی سطح پر مبنی ہیں، جو صرف ذیابیطس یا ذیابیطس کے خطرے والے لوگوں میں دیکھے جاتے ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ہائی بلڈ شوگر ذیابیطس کی ایک علامت ہے مگر اس کی براہ راست وجہ نہیں ہے۔
واضح رہے کہ ٹائپ 1 ذیابیطس اس وقت ہوتی ہے جب کسی فرد کا لبلبہ انسولین بنانا بند کر دیتا ہے، اس لیے باقاعدہ انجیکشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹائپ 2 ذیابیطس زیادہ عام ہے اور اس وقت ہوتی ہے جب جسم کے خلیے انسولین کے خلاف مزاحم ہو جاتے ہیں اور خون میں گلوکوز کی سطح کو معمول کی حد میں رکھنے کے لیے مزید انسولین کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے عام طور پر خوراک، ورزش اور قریبی نگرانی کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
پروفیسر پارتھا کر کا کہنا ہے کہ شوگر میں تبدیلی کے رجحان کو اس طریقے سے نہیں سمجھا جا سکتا۔
کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں؟
ڈاکٹر نیکولا گیس کو تشویش ہے کہ جو لوگ زیڈ او ای کی مصنوعات استعمال کرتے ہیں وہ کھانے کی اشیا کو کم کر رہے ہیں جو ان کی صحت کے لیے فائدہ مند ہیں۔ لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کے بلڈ شوگر کو بڑھا سکتا ہے۔
یہ صحت کے دیگر مسائل کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ کاربوہائیڈریٹس سے پرہیز کرتے ہیں وہ اگلی بار جب اسے کھاتے ہیں تو انھیں ’ہائی گلوکوز رسپانس‘ مل سکتا ہے۔
یہ عام بات ہے۔ جبکہ جو لوگ ایسا کرتے ہیں، وہ یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ ان میں کاربوہائیڈریٹس کو ہضم کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
پروفیسر پارتھا کر کا کہنا ہے کہ جب ذیابیطس کے شکار افراد اسے غیر ضروری طور پر استعمال کرتے ہیں تو ایک مختلف مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ بلڈ شوگر لیول کے اعدادوشمار کے بارے میں بہت ضدی ہو جاتے ہیں۔ یہ حالات کھانے کی خرابی میں بدل سکتے ہیں۔
’ایٹنگ ڈس آرڈر‘ چیریٹی بیٹ کا کہنا ہے کہ کھانے کی خرابی کے شکار افراد اکثر اعدادوشمار پر توجہ دیتے ہیں۔ لہٰذا وہ اس بیماری میں مبتلا لوگوں کو گلوکوز میٹر کے استعمال کی سفارش نہیں کرے گا۔
زیڈ او ای کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح اس بیماری میں مبتلا لوگوں کا ٹیسٹ کرتی ہے۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اراکین کی صحت کا مکمل خیال رکھتی ہے۔ اس کے ’نیوٹریشن کوچز‘ کو ’کلائنٹس‘ تک رسائی حاصل ہے اور وہ کھانے کی پریشانی پر قابو پانے میں ان کی مدد کر سکتے ہیں۔
کمپنی نے لوگوں کی خوراک کی ترجیحات، بھوک اور خون کے ٹیسٹ کے نتائج سے متعلق ڈیٹا پر مبنی تحقیق شائع کی اور اس میں نمونہ تلاش کرنے کی کوشش کی۔
لیکن تحقیق سے واضح نتائج کا علم نہیں ہوتا۔
زیڈ او ای نے اپنے پروگرام کے نتیجے میں ہونے والی تبدیلیوں پر ایک مطالعہ کیا ہے لیکن اسے ابھی تک شائع نہیں کیا ہے۔
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق ان تمام پہلوؤں کو سامنے لانے میں ناکام رہی ہے۔
ڈاکٹر نیکولا گیس کا کہنا ہے کہ چونکہ اس مطالعے کے مختلف پہلو ثابت نہیں ہوئے ہیں، اس لیے لوگوں کو زیادہ پھل اور سبزیاں کھانے کی ضرورت ہے۔
زیڈ او ای لوگوں کو زیادہ اناج اور کم ’پروسس‘ شدہ خوراک کھانے کا مشورہ بھی دیتی ہے۔