پریگابالین: اضطراب کا علاج کرنے والی سکون آور دوا کا غلط استعمال کیوں بڑھ رہا ہے اور یہ کیسے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے؟

دنیا بھر میں متعدد اموات کو پریگابالین نامی گولی کے استعمال سے جوڑا جاتا ہے کیوں کہ اس دوا کے بہت سے صارفین اسے بلیک مارکیٹ سے خریدتے ہیں جن میں سے ایک طریقہ غیر قانونی ویب سائٹس بھی ہیں جن کے ذریعے یہ گولی فروخت کی جاتی ہے۔

اس گولی، جو مرگی، نیوروپیتھک درد اور اضطراب کے علاج کے لیے بنی تھی، کا اب غلط طریقے سے یا نشے کے لیے استعمال ہونے کی شکایات میں اضافہ ہو رہا ہے خصوصا نوجوان طبقے میں۔ سرکاری رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اردن میں بھی اس دوا کا غلط استعمال بڑھ رہا ہے۔

سنہ 2017 میں متحدہ عرب امارات کے قومی بحالی مرکز نے بتایا کہ پریگابالین اور گیباپینٹین 30 سال سے کم عمر کے لوگوں میں استعمال کی جانے والی سب سے عام منشیات تھیں۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران متحدہ عرب امارات اور کویت میں بڑی مقدار میں غیر قانونی پریگابالین پکڑی بھی جا چکی ہیں۔

صرف مارچ کے مہینے میں متحدہ عرب امارات میں سمگلنگ کے ایک گروہ سے ساڑے ستائیس لاکھ گولیاں پکڑی گئیں جبکہ سنہ 2023 میں کویتی حکام نے ایک کروڑ 50 لاکھ کیپسول اور آدھا ٹن منشیات پاؤڈر کی شکل میں قبضے میں لی تھی۔

سربیا میں 2008 اور 2018 کے درمیان ہر سال پریگابالین اور گیباپنٹین کے استعمال میں 60 فیصد اضافہ ہوا۔ نیشنل پوائزن کنٹرول سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق 2012 سے 2022 کے درمیان 374 افراد کو منشیات کی مدد سے زہر دیا گیا جن میں سے 96 فیصد نے پریگبلین لی تھی۔

پریگابالین کیا ہے اور اس کا کیا استعمال ہے؟

پریگابالین مرگی، نیوروپیتھک درد اور اضطراب جیسے حالات کے علاج کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور یہ دوا ٹیبلٹ، کیپسول یا مائع شکل میں بھی دستیاب ہوتی ہے تاہم یہ دوا ساز کمپنی پر منحصر ہے کہ وہ اسے کس شکل میں بناتی ہے۔ اسے لیریکا، الزین یا ایکسلڈ کے نام سے بھی تیار کیا جاتا ہے۔

کچھ لوگ پریگابالین کو ’نیا ویلیئم‘ یا ’بڈ‘ (جیسے بڈویزر بیئر) کہتے ہیں کیونکہ یہ صارفین کو سکون آور ادویات اور شراب کی طرح پر سکون کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

تاہم اس کا بہت زیادہ استعمال، خاص طور پر دیگر غیر قانونی منشیات کے ساتھ ملا کر، غنودگی اور سانس لینے کے مسائل کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہیروئن یا افیون کے ساتھ پریگابالین لینا خطرناک ہو سکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق افیون اور پریگابالین کا ہم آہنگ استعمال سانس لینے کی رفتار کو سست کر دیتا ہے۔

کیا آپ پریگابالین کے عادی ہو سکتے ہیں؟

پریگابالین کا سکون آور اثر ہوتا ہے جسے بعض اوقات ‘ہلکا نشہ’ کہا جاتا ہے۔ کچھ صارفین میں وقت کے ساتھ اس کے اس نشہ آور اثر کا احساس کم ہو سکتا ہے۔

پریگابالین پر انحصار خاص طور پر ان لوگوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے جو منشیات کے غلط استعمال یا نشے کی تاریخ رکھتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق کچھ لوگوں کو پریگابالین لینے سے روکنا مشکل ہوتا ہے۔

اس دوا کے استعمال کو روکنے کے ضمنی اثرات میں موڈ کی تبدیلیاں جیسے غصہ اور چڑچڑاپن، اضطراب اور گھبراہٹ کے ساتھ ساتھ جسمانی علامات جیسے پسینہ آنا، متلی اور کانپنا شامل ہو سکتا ہے۔

جو لوگ علاج کی غرض سے یہ دوا لیتے ہیں لیکن اب اس دوا کو لینا بند کرنا چاہتے ہیں، ان کو پہلے ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کرنا چاہیے۔

اس دوا کی خوراک عام طور پر ایک ہفتے یا اس سے زیادہ عرصے کے دوران آہستہ آہستہ کم کر دی جاتی ہے اور مشورہ دیا جاتا ہے کہ اس کا اچانک استعمال ترک نہں کرنا چاہیے۔

کیا پریگابالین کی فروخت غیر قانونی ہے؟

برطانیہ سمیت کئی ممالک میں پریگابالین صرف طبی نسخے کے ذریعے استعمال کی جانے والی دوا ہے اور بغیر کسی جائز طبی وجہ کے اس کا استعمال ایک مجرمانہ فعل ہے۔

تاہم یہ دوا مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک کے ساتھ ساتھ انڈیا میں فارمیسیوں میں ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر فروخت کی جاتی ہے۔

واضح رہے کہ پریگابالین 1993 میں امریکہ اور برطانیہ میں متعارف ہوئی اور پھر اسے مارکیٹ میں لایا گیا تھا۔

طبی جریدے نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2008 اور 2018 کے درمیان دنیا بھر میں پریگابالین اور اسی طرح کی دوا گیباپینٹین کی روزانہ خوراک میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔

سنہ 2022 میں برطانیہ میں پریگابالین کے 80 لاکھ سے زائد کیسز تجویز کیے گئے تھے۔ اس سال انگلینڈ اور ویلز میں اس دوا سے متعلق 441 اموات رپورٹ ہوئی تھیں۔

سنہ 2023 میں آسٹریلوی سالانہ اوورڈوز رپورٹ نے 2000 اور 2021 کے درمیان 887 پریگابالین اور گیباپینٹین سے ہونے والی اموات کی نشاندہی کی، جن میں سے 93 فیصد پریگابالین سے متعلق تھیں۔

برطانوی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ 2004 اور 2020 کے درمیان پریگابالین سے زیادہ تر اموات اس وقت ہوئیں جب منشیات کو میتھاڈون یا مورفین جیسی ایک اور دوا کے ساتھ لیا گیا تھا۔

بہت سے کیسز میں، یہ دوائیں ڈاکٹر کے ذریعہ تجویز نہیں کی گئیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں