ویاگرا استعمال کرنے والے مردوں میں ’الزائمر کا خطرہ کم ہو سکتا ہے‘

ایک تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ جو مرد عضو تناسل کی کمزوری سے منسلک عارضے (ایریکٹائل ڈسفنکشن) کے لیے ویاگرا جیسی دوا کا استعمال کرتے ہیں ان میں الزائمر کی بیماری کا خطرہ کم ہو سکتا ہے۔

260,000 سے زیادہ مردوں پر کی گئی اس تحقیق میں معلوم ہوا کہ جو لوگ ایسی دوائیں لیتے ہیں ان میں ڈیمنشیا کا امکان 18 فیصد کم تھا۔

لیکن یہ ثابت کرنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ یہ دوائیں کیا اثرات مرتب کر رہی ہیں۔

الزائمر کی دو نئی دوائیوں نے ابتدائی مراحل میں بیماری کی رفتار کو کم کرنے کے مثبت اثرات دکھائے ہیں۔

الزائمرز سے متاثرہ لوگوں کے دماغ میں ’بیٹا امیلائیڈ‘ بنتا ہے۔ یہ نئی دوائیاں اس پر حملہ کرتی ہیں اور ممکن ہے کہ اس سے الزائمر کے علاج کا طریقہ بدل سکتا ہے۔

لیکن سائنسدان پہلے سے موجود دوائیوں کی تلاش بھی جاری رکھے ہوئے ہیں جو بیماری بڑھنے کو روک سکتی ہیں یا اس میں تاخیر کر سکتی ہیں۔

ویاگرا جیسی دوائیں ابتدا میں ہائی بلڈ پریشر اور انجائنا کے علاج کے لیے بنائی گئی تھیں۔ وہ سیل سگنلنگ میسنجر پر عمل کر کے کام کرتے ہیں جو یاداشت سے بھی منسلک ہو سکتا ہے۔

وہ دماغی خلیوں کی سرگرمیوں کو بھی متاثر کرتے ہیں اور جانوروں میں تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ان کا دماغ پر کچھ حفاظتی اثر بھی ہوتا ہے۔

نیورولوجی میں ہونے والی نئی تحقیق میں یونیورسٹی کالج لندن کے محققین نے عضو تناسل کی کمزوری کے شکار ہزاروں مردوں کے طبی نسخے کو دیکھا اور ان لوگوں کا ان لوگوں کے ساتھ موازنہ کیا جنھیں یہ دوا نہیں دی گئی تھی۔

ویاگرا

اگلے پانچ برسوں میں انھوں نے دوائیں لینے والے گروپ کے ہر 10 ہزار لوگوں میں سے 8.1 میں الزائمر پایا جبکہ جو گروپ دوائیں نہیں لے رہا تھا ان میں 9.7 کیس سامنے آئے۔

جن مردوں کو عضو تناسل کی کمزوری کے لیے دوا دی گئی تھی ان میں الزائمر ہونے کے سب سے کم امکان تھے۔ اس سے یہ بات اخذ ہو سکتی ہے کہ اس دوا کا مستقل استعمال بیماری پر زیادہ اثر انداز ہو سکتا ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق یہ نہیں بتاتی کہ آیا خود انھی دوائیوں کی وجہ سے لوگوں میں الزائمر کا خطرہ کم ہوتا ہے لیکن اس سے تحقیق کے نئی راستے کھلتے ہیں۔

تحقیق کی مصنف ڈاکٹر روتھ براؤر نے کہا ’ان نتائج کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے، ان ادویات کے ممکنہ فوائد اور طریقہ کار کے بارے میں مزید معلومات حاصل رکیں اور اس کی بہترین خوراک کی مقدار پر غور کریں۔‘

محققین مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین پر بھی آزمائش کرنا چاہتے ہیں تاکہ دیکھا جا سکے کہ اس دوا سے ان پر کوئی اثر ہوتا ہے یا نہیں۔

اس بیماری کے بہت سے عوامل ہوتے ہیں جو اس کا سبب بنتے ہیں۔

بہت سے عوامل ہیں جو بیماری کا سبب بن سکتے ہیں۔ تحقیق نے ان میں سے کچھ کے لیے اپنے نتائج کو موافق بنایا اس میں عمر، صحت کی بنیادی حالت، لی گئی دوسری دوائیں اور آیا تحقیق میں حصہ لینے والا سگریٹ نوشی کرتا تھا شامل ہے۔

یونیورسٹی آف ایڈنبرا سے تعلق رکھنے والی اور برٹش نیورو سائنس ایسوسی ایشن کی صدر پروفیسر تارا اسپائرز جونز نے کہا کہ ’یہ مطالعہ حتمی طور پر یہ ثابت نہیں کرتا کہ عضو تناسل کی دوائیں الزائمر کے خطرے کو کم کرتی ہیں لیکن اس بات کا اچھا ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ اس قسم کی دوائی مستقبل میں مزید مطالعہ کے قابل ہے۔‘

یونیورسٹی آف ریڈنگ کے نیورو فزیالوجسٹ ڈاکٹر فرانسسکو تمگنینی نے کہا کہ یہ ایک ’بہت اچھا مطالعہ‘ تھا لیکن اس بارے میں مزید سخت شواہد کی ضرورت ہے کہ دوائوں نے دماغ کو کیسے متاثر کیا۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ ہو سکتا ہے کہ یہ علاج کا اثر براہ راست نیوران پر اثر انداز ہو (اگر دوا خون ’بلڈ برین بیریئر‘ کو عبور کرنے کے قابل ہو) اور/یا خون کے بہاؤ کو بڑھا کر، لیکن ان دونوں مفروضوں کو جانچنے کی ضرورت ہے۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں