تین جولائی 1250 کو مصر میں صلاح الدین ایوبی کی افواج نے فرانس کے بادشاہ لوئی نہم کو جنگ فارسکور میں شکست دے کر گرفتار کر لیا اور پھر انھیں مصر کے شہر منصورہ میں ابن لقمان کے گھر میں قید کر دیا۔
اس فرانسیسی بادشاہ کی کہانی کیا ہے اور انھیں مصر میں قید کیوں کیا گیا؟
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق لوئی نہم 25 اپریل 1214 کو پوائسی، فرانس میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے 1248 اور 1250 کے درمیان ساتویں صلیبی جنگ کی قیادت کی اور ایک اور صلیبی جنگ کے دوران 25 اگست 1270 کو تیونس میں مارے گئے تھے۔
وہ بادشاہ لوئی ہشتم اور کیسٹیل کی ملکہ بلانکا کی چوتھی اولاد تھے لیکن ان کے پہلے تین بچے چھوٹی عمر میں ہی وفات پا گئے تھے۔
لوئی نہم کے کل سات بہن بھائی تھے اور وہ تخت کے وارث بن چکے تھے۔ انھیں ان کے والدین خصوصاً ان کی والدہ کی جانب سے خصوصی توجہ دی گئی تھی۔
انھیں تجربہ کار گھڑ سواروں نے شکار کا ہنر اور گھڑسواری سکھائی۔ انھیں مختلف علما نے بائبل کی تاریخ، جغرافیہ اور قدیم ادب سکھایا۔ ان کی والدہ نے انھیں مذہب کی تعلیم خود فراہم کی تاکہ وہ ایک عقیدت مند مسیحی بن سکیں۔
لوئی ایک جوشیلے نوجوان تھے جنھیں کبھی کبھار شدید غصہ آ جاتا تھا، جس پر قابو پانا ان کے لیے خاصا مشکل ہو رہا تھا۔
جب ان کے والد نے سنہ 1223 میں بادشاہ فلپ دوم (فلپ آگسٹس) کے بعد تخت سنبھالا تو انگلستان کے ساتھ طویل تنازعہ جاری تھا۔ برطانیہ کی اس وقت بھی فرانس میں وسیع املاک موجود تھیں تاہم اس وقت عارضی طور پر امن قائم تھا کیونکہ انگلستان بادشاہ ہنری سوم جنگ جاری رکھنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔
جنوبی فرانس میں البیجینسیان فرقے کے لوگوں میں چرچ اور ریاست کے خلاف بغاوت بھی بے قابو تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اشرافیہ کے درمیان اشتعال بڑھتا گیا اور بغاوت کا خطرہ بھی منڈلانے لگا۔
12 سال کی عمر میں بادشاہت
لوئی ہشتم نے ان بیرونی اور اندرونی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے کوششیں تیز کیں۔ سنہ 1226 میں انھوں نے اپنی توجہ البیجینسیان بغاوت کو دبانے پر مرکوز کی لیکن ان کی آٹھ نومبر 1226 کو مونٹ پینسیئر میں ان کی اچانک موت کے باعث یہ کام ادھورا رہ گیا اور لوئی نہم جو ابھی 13 سال کے بھی نہیں تھے، بادشاہ بن گئے۔
ملکہ کی پہلی فکر لوئی کو تاجپوشی کے لیے ریمز لے کر جانا تھا کیونکہ بہت سے طاقتور امرا نے تقریب میں شرکت سے انکار کیا تھا لیکن بلانکا مصیبتوں کی وجہ سے حوصلہ نہیں ہارتی تھیں۔ انھوں نے باغی قوتوں پر بھرپور حملہ کیا اور البیجینسی انقلاب کو کچلنے کے لیے بھی کوشاں رہیں۔
تاہم فرانس میں انگلستان کی املاک کا مسئلہ اب بھی درپیش تھا۔ پیٹر آف ڈریکس کی حمایت سے ہنری III نے اپنی افواج کو برٹنی میں بھیجا اور مغربی فرانس میں پیشقدمی کی کوشش کی۔ اگرچہ لوئی نہم اس وقت صرف 15 سال کے تھے لیکن انھوں نے ذاتی طور پر فرانسیسی افواج کی قیادت کی تاہم اس دوران جنگ نہیں ہوئی اور پیٹر آف ڈریو نے ہتھیار ڈال دیے اور جنگ بندی معاہدے کی تجدید ہو گئی۔
جب بلانکا نے لوئی کو 1234 میں اقتدار کی باگ ڈور سونپی تو اس وقت امن تھا۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق لوئی نہم ایک انصاف پسند بادشاہ تھے لیکن وہ کسی کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ ایک مذہبی اور پرہیزگار بادشاہ، اور پادریوں کے دوست سمجھے جاتے تھے۔
ملکہ نے لوئی کی بیوی کے طور پر ریمنڈ چہارم بیرینجر، کاؤنٹ آف پروونس کی بیٹی مارگوریٹ کا انتخاب کیا۔ یہ شادی 29 مئی 1234 کو سینس میں ہوئی۔ لوئی کو اپنی بیوی کے ساتھ گہری محبت تھی جس سے بلانکا کو اپنی بہو سے بے حد حسد رہتا تھا۔ لوئس اور مارگریٹ کے 11 بیٹے اور بیٹیاں تھیں۔
لوئی IX کو انگریزوں کا مقابلہ کرنے کے لیے دوبارہ جنگ کے لیے تیار ہونا تھا کیونکہ ہنری ایک بڑی فوج کے ساتھ فرانس پر حملہ کر چکا تھا اور اس بار اس کی فوجیں رویان میں آئیں اور مغربی فرانس کے اشرافیہ کی اکثریت اس کے ساتھ متحد ہو گئی۔ سنہ 1242 میں ٹلبرگ برج پر تصادم انگریزوں کی شکست کا باعث بنا اور ہنری واپس لندن چلے گئے۔
ساتویں صلیبی جنگ
انگریزوں پر فتح کے بعد، لوئی IX شدید بیمار ہو گیا، اور اسی وقت دسمبر 1244 میں انھوں نے صلیب اٹھانے اور مشرق وسطیٰ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا حالانکہ ان کی افواج اس فیصلے کے حوالے سے پرعزم نہیں تھیں۔
لیوانت میں صلیبیوں کے لیے صورتحال مشکل تھی۔ مسلمانوں نے 23 اگست 1244 کو یروشلم پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا اور سلطان مصر کی فوجوں نے دمشق پر قبضہ کر لیا۔ لوئی IX نے اندازہ لگایا کہ اگر امداد فوری طور پر نہ پہنچی تو مشرق کی عیسائی سلطنت جلد ہی ختم ہو جائے گی۔
یورپ میں صلیبی جنگ کے لیے اس سے زیادہ بہتر موقع کوئی نہیں تھا۔ یہ مقدس رومی سلطنت اور پاپائیت کے درمیان عظیم تنازع میں جنگ بندی کا دور تھا۔ فرانس میں بھی امن تھا اور یوں امرا نے ساتویں صلیبی جنگ میں اپنے بادشاہ کے ساتھ جانے پر رضامندی ظاہر کر دی۔
تیاریاں طویل اور پیچیدہ تھیں۔ لوئی IX نے تخت اپنی والدہ کے سپرد کیا اور 25 اگست 1248 کو روانہ ہو گئے۔ وہ اپنی بیوی اور بچوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ ان کا بحری بیڑا تقریباً 100 جہازوں پر مشتمل تھا جس میں 35 ہزار افراد سوار تھے۔
لوئی کا مقصد بہت سادہ تھا، وہ براہ راست مصر پہنچ کر ملک کے اہم شہروں پر قبضہ کرنے اور انھیں لیوانت کے شہروں کی آزادی کے بدلے استعمال کرنا چاہتے تھے۔
ان کا آغاز تو خاصا اچھا تھا۔ قبرص میں موسم سرما گزارنے کے بعد یہ مہم جون 1249 میں مصر میں دمیٹا کے قریب پہنچی۔
ڈیمیٹا کے شہر اور بندرگاہ کو محفوظ بنایا گیا تھا لیکن 6 جون کو لوئی IX شہر میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
جب مصر کے حکمران سلطان الصالح ایوب کو صلیبیوں کی پیش قدمی کا علم ہوا تو انھوں نے دمیٹا کے جنوب میں اپنی فوج بھیجی۔ اس وقت سلطان الصالح بستر مرگ پر تھے۔
صلیبیوں کی آمد پر الصالح کی فوج کے لیڈرز نے سمجھا کہ ان کا سلطان مر چکا ہے اس لیے وہ پیچھے ہٹ گئے اور دمیٹا آسانی سے صلیبیوں کے ہاتھ میں آ گیا۔ شاہ الصالح اس کے کچھ ہی دن بعد وفات پا گئے۔
لوئی IX نے قاہرہ پر پیش قدمی کا فیصلہ کیا لیکن دریائے نیل اور اس کی نہروں میں سیلاب کے باعث شدید طغیانی نے انھیں کئی مہینوں تک روک دیا۔ کامیابی کے لیے انھیں منصورہ قلعے پر قبضہ کرنا ضروری تھا۔
جنگ اور قید
اس وقت الصالح ایوب کی بیوہ شجرۃ الدر نے اپنے بیٹے توران شاہ کو پیغام بھیجا اور اسے موجودہ جنوبی ترکی میں شہر حصن کیفہ سے جلد واپس آنے کو کہا تاکہ وہ مصر کی باگ ڈور سنبھالیں۔
انھوں نے مملوک شہزادوں کو منصورہ کی جنگ کی تیاری جاری رکھنے کی ہدایت کی جو 11 فروری 1250 کو ہوئی اور اس کے نتیجے میں لوئی IX کی افواج کو شکست ہوئی اور ان کے بھائی رابرٹ آف آرٹوئس ہلاک ہوئے۔
مسلمانوں اور صلیبیوں کے درمیان محاذ آرائی جاری رہی یہاں تک کہ توران شاہ منصورہ پہنچ گئے جہاں اگلی جنگ کی تیاری ایسے وقت میں شروع ہوئی جب صلیبیوں کی صفوں میں قحط اور بیماری پھیل چکی تھی۔
ان مشکل حالات کے پیشِ نظر لوئی IX نے قاہرہ کی طرف پیش قدمی نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور دمیٹا واپس جانے کی ٹھانی جہاں راستے میں ان کی افواج کو مسلمانوں کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا اور پھر دمیٹا کے قریب جنگ فارسکور ہوئی۔
یہاں مسلمانوں کو ایک تاریخی فتح حاصل ہوئی اور لوئی IX کو گرفتار کر لیا گیا اور منصورہ میں ابن لقمان کے گھر منتقل کر دیا گیا۔
ہاؤس آف ابن لقمان کے بارے میں مصر میں جنرل انفارمیشن سروس کی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ ابن لقمان کے گھر کو اس وقت شہرت ملی جب فرانس کے بادشاہ لوئی IX اور مصر کے خلاف صلیبی جنگ کے رہنما (1249-1250) کو وہاں ایک مہینے کے لیے قید کر دیا گیا۔
اس گھر میں ایک تاریخی عجائب گھر قائم کیا گیا ہے جس میں بہت سی پینٹنگز، معلومات اور تصاویر موجود ہیں جو جنگ میں استعمال ہونے والے کپڑے اور ہتھیاروں کے علاوہ صلیبیوں کی افواج کو تباہ کرنے میں مصری عوام کے کردار کی عکاسی کرتی ہیں۔
تاوان اور موت
طویل مذاکرات کے بعد بادشاہ کو تقریباً ایک ماہ قید میں رہنے کے بعد ایک بڑے تاوان یعنی آٹھ لاکھ دینار کے بدلے رہا کر دیا گیا اور لوئی ایکر میں اپنی اہلیہ کے ساتھ دوبارہ ملنے میں کامیاب ہوئے۔
لوئی IX کی رہائی کے معاہدے میں دمیٹا میں ہتھیار ڈالنا، مصر واپس نہ آنے کا عہد، نصف تاوان یعنی چار لاکھ دینار فوری ادا کرنے کے علاوہ یہ بھی شامل تھا کہ توران شاہ صلیبیوں کے قیدیوں کو اس وقت تک قید رکھیں گے جب تک کہ تاوان کا بقیہ حصہ نہ مل جائے۔ اس کے علاوہ مسلمان قیدیوں کی فوری رہائی اور فریقوں کے درمیان 10 سال کے لیے جنگ بندی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
بادشاہ لوئی نے فرانس واپس جانے کی بجائے مشرق وسطیٰ میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ اگلے چار سال میں انھیں فوجی شکست کو سفارتی کامیابی میں بدلنا تھا، مفید اتحاد بنانے تھے اور لیوانت میں عیسائی شہروں کو مضبوط کرنا تھا تاہم جب انھیں اپنی والدہ کی موت کا علم ہوا تو وہ فرانس واپس لوٹ گئے۔
فرانس واپسی کے بعد وہ اس کے اندرونی معاملات میں مصروف ہو گئے اور اپنے آخری ایام میں انھوں نے ایک نئی صلیبی جنگ شروع کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا اور اس بار ان کی منزل شمالی افریقہ تھی لیکن جوں ہی ان کا بحری بیڑا تیونس کے ساحل پر پہنچا تو سنہ 1270 میں ان کی وفات ہو گئی۔
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطبق لوئی IX وہ واحد فرانسیسی بادشاہ تھے جنھیں 1297 میں چرچ نے مسیحی مذہب کے لیے اپنی لگن اور اس کی تعلیمات کو پھیلانے کی کوشش کی وجہ سے ’پیر‘ کا درجہ دیا تھا۔