ہندو ماں اور مسلمان باپ کا بیٹا کیپٹن حنیف جس کی لاش اُٹھانے کے لیے انڈین فوج کو پاکستان کے خلاف آپریشن کرنا پڑا

بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ فوجیوں کا موسیقی سے کیا لینا دینا۔۔۔ انڈین فوجی کی الیون (11) راجپوتانہ رائفلز کے کیپٹن حنیف الدین ایسے ہی لوگوں کو لاجواب کر دیا کرتے تھے۔

کارگل جنگ کے آغاز سے ایک سال قبل حنیف الدین، جنھیں ’حنفو‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، نے لداخ سکاؤٹ ٹریننگ سینٹر کے میس میں ’لاکھوں ہیں یہاں دل والے، پر پیار نہیں ملتا‘ گا کر وہاں موجود سب ہی لوگوں کے دل جیت لیے تھے۔

ایک ہندو ماں اور ایک مسلمان باپ کا بیٹا حنیف الدین، عید اور دیوالی دونوں تہوار مناتے مناتے بڑا ہوا۔ ان کی یونٹ کا جنگی نعرہ تھا ’راجہ رام چندر کی جے۔‘

ان کے والد عزیز الدین اور والدہ ہیما عزیز دونوں وزارت اطلاعات و نشریات کے سونگ اینڈ ڈرامہ ڈویژن میں کام کرتے تھےان کے والد تھیٹر آرٹسٹ تھے جبکہ ان کی والدہ کلاسیکی گلوکارہ تھیں۔ حنیف الدین آٹھ سال کی عمر میں اپنے والد سے محروم ہو گئے تھے۔

عسکری تاریخ کی معروف مصنفہ رچنا بشت راوت اپنی کتاب ’کارگل ان ٹولڈ سٹوریز فرام دی وار‘ میں لکھتی ہیں کہ ’حنیف کو صبح سویرے اٹھنے کی عادت تھی۔ جب وہ 22 سال کی عمر میں انڈین ملٹری اکیڈمی (آئی ایم اے) کے لیے منتخب ہوئے تو اپنی والدہ کے پاس بانڈ پر دستخط کروانے گئے۔‘

رچنا بشت لکھتی ہیں ’جب انھوں نے اسے پڑھنا چاہا تو حنیف نے اپنی ماں سے کہا ’آپ اسے پڑھ کیوں رہی ہیں؟ بس دستخط کریں‘ ان کی والدہ ہیما نے کہا کہ کسی بھی کاغذ پر دستخط کرنے سے پہلے اسے پڑھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس میں کیا لکھا ہے۔‘

’پھر حنیف نے ہنستے ہوئے کہا تھا کہ اس میں لکھا ہے کہ اگر مجھے ٹریننگ کے دوران کچھ ہو گیا تو آپ کو کچھ نہیں ملے گا۔‘

رچنا بشت لکھتی ہیں ’ہیما کا جواب تھا ’انڈین آرمی میں شامل ہونا تمھارا خواب رہا ہے، میں تمہیں نہیں روکوں گی۔‘نرم گو اور پرجوش کیپٹن حنیف

ایک مرتبہ ان کی والدہ کو اپنے کام کی وجہ سے یورپ کے دورے پر جانا پڑا۔ اس وقت حنیف کی عمر 10 سال تھی اور ان کے بڑے بھائی نفیس کی عمر صرف 12 سال تھی۔

رچنا بشت راوت لکھتی ہیں ’ان کی ماں نے مجھے بتایا کہ میں اپنے دو بچوں کو گھر میں اکیلا چھوڑ کر بیرون ملک چلی گئی تھی۔ میں نے ان دونوں کو کچھ پاکٹ منی دی اور کچھ رقم پڑوسیوں کے پاس ایمرجنسی کے لیے چھوڑ دی۔‘

’میں صرف ڈیڑھ ماہ کے لیے گئی تھی لیکن مجھے تین مہینے تک وہاں رہنا پڑا۔ ان دونوں بچوں نے مجھے گھر میں اکیلے رہنے کا طریقہ سکھایا۔ دونوں نے اپنے سکول کی فیس وقت پر ادا کی، وقت پر سکول گئے، اپنے لیے کھانا بنایا۔ اپنے کپڑے استری کیے، حنیف اس عمر میں پراٹھے بھی بنا سکتے تھے۔‘

کرنل انیل بھاٹیہ کارگل جنگ کے دوران 11 راجپوتانہ رائفلز کے کمانڈنگ آفیسر تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’حنیف ہماری بٹالین کا سب سے کم عمر افسر تھا۔ بہت نرم بولنے والا اور ہمیشہ جوش و خروش سے بھرپور انسان۔‘

’وہ کوئی بھی کام کرنے میں سب سے آگے آگے ہوتا۔ اسے کمپیوٹر پر بہت اچھی مہارت حاصل تھی اور وہ بہت اچھا گلوکار بھی تھا۔ اپنے بل بوتے پر اس نے ہماری یونٹ میں جاز بینڈ بنایا اور موسیقی کے تمام آلات بھی وہ خود دہلی سے لایا تھا۔‘

انڈیا
،عسکری تاریخ کی معروف مصنفہ رچنا بشت راوت کی کتاب ’کارگل ان ٹولڈ سٹوریز فرام دی وار‘

سیاچن سے ترتوک پہنچنے کا حکم

حنیف چار ماہ سے سیاچن گلیشیئر پر تعینات تھے۔

سیاچن دنیا کا سب سے اونچا میدان جنگ ہے جہاں صرف کھڑے رہنا ہی بڑی ہمت اور خطرے کا کام ہے۔

جب ان کی کمپنی واپس بیس کیمپ آئی تو حنیف کو لوڈ مینی فیسٹ آفیسر کی ذمہ داری دی گئی۔

ان کا کام سیاچن گلیشیئر کے مختلف حصوں میں فوجی چوکیوں تک راشن، ادویات اور خطوط پہنچانا تھا۔

تب ہی اچانک ترتوک سیکٹر میں تعینات 12 جاٹ یونٹ کو خبر ملی کہ اس علاقے میں پاکستان سے کچھ دراندازی ہوئی ہے۔

چونکہ بٹالک سیکٹر میں لڑائی ہو رہی تھی اس لیے حالات سے نمٹنے کے لیے فوجیوں کی کمی تھی۔

اس وقت یہ فیصلہ کیا گیا کہ قریبی فوجی یونٹوں کو ترتوک پہنچنے اور حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے کہا جائے۔ چونکہ حنیف کا یونٹ قریب ہی تھا اس لیے انھیں بھی اس علاقے میں پہنچنے کے احکامات موصول ہوئے۔

خطرناک برفانی راستہ

11 راجپوتانہ رائفلز کے سپاہی تیز بہاؤ والے دریائے شیوک کے کنارے کئی ٹرکوں میں سفر کر رہے تھے۔ ان میں سے اکثر سیاچن سے واپس آئے تھے۔

کچھ لوگوں کو چھٹی سے واپس بلایا گیا تھا۔ کیپٹن حنیف الدین ابھی تک نہیں جانتے تھے کہ ان کا مشن کیا ہے؟

لیکن ان کا خیال تھا کہ ان کے اضافی دستوں کو سب سیکٹر ویسٹ میں گشت کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ پاکستانی فوجی کہاں تک گھس آئے ہیں۔

ترتوک پہنچنے کے بعد فوجیوں نے ترتوک نالے کے ساتھ ساتھ پیش قدمی جاری رکھی۔ جیسے جیسے سپاہی آگے بڑھے حالات مزید مشکل ہوتے گئے۔

ترتوک سے چھوربٹ لا تک کے پورے علاقے میں ہر طرف گہری کھائیاں تھیں۔ ایک بھی غلط قدم کسی بھی فوجی کو موت کی گہرائیوں میں لے جانے کے لیے کافی تھا۔

جگپال کو عبور کرنے کے بعد فوجیوں کا ایک دوسرے سے ریڈیو رابطہ منقطع ہو گیا۔

وہ گلیشیئر پر زندگی گزارنے کے عادی تھے، اس لیے یہاں کی مشکلات کا سامنا کرنے میں ان کا پرانا تجربہ کارآمد رہا۔

برفانی راستے سے گزرتے وہ ایک چٹان پر پہنچے جہاں انھیں ایک عارضی پناہ گاہ بنانا تھی۔

انڈیا
،ترتوک پہنچنے کے بعد فوجیوں نے ترتوک نالے کے ساتھ ساتھ پیش قدمی جاری رکھی

حنیف الدین کو گولی کیسے لگی؟

چھ جون 1999 کو حنیف الدین نے کرچن گلیشیئر پر فوج کی سرچ پارٹی کی قیادت کرنے کی پیشکش کی۔

کرنل انیل بھاٹیہ کہتے ہیں کہ ’حنیف نے فیصلہ کیا کہ وہ پاکستانی ٹھکانے کے قریب جائیں گے تاکہ پاکستانی فوجیوں کو خود پر فائرنگ کرنے کے لیے اُکسا سکیں، ایسا کرنے سے پاکستانی فوج کی اصل لوکیشن انڈین فوج کو پتا چل جاتی۔ اس عمل سے اس بات کا بھی علم ہوجاتا کہ ان کے پاس کونسے اور کتنے ہتھیار ہیں۔‘

کیپٹن حنیف، بائب صوبیدار منگیج سنگھ اور سات دیگر فوجی اہلکاروں نے لیج نامی جگہ پار کی۔ اس وقت انڈین اور پاکستانی فوجیوں میں صرف 300 میٹر کا فاصلہ رہ گیا تھا۔

کیپٹن حنیف نے اپنے ساتھیوں کو پاکستانی فوج کے آٹھ مورچوں اور ان کے پاس موجود ہتھیاروں سے متعلق آگاہ کیا۔ لیکن انھیں یہ نہیں پتا تھا کہ وہ خطرے کے کتنے قریب آ چکے ہیں۔

پاکستانی فوجیوں نے کیپٹن حنیف اور ان کے ساتھیوں پر بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ شروع کر دی۔ سب سے پہلے نائب صوبیدار منگیج سنگھ کو گولی لگی، انھوں نے ہوا میں قلابازی کھائی اور ایک گہری کھائی میں جا گرے۔

حنیف الدین اور سپاہی پرویش کو بھی اس دوران گولیاں لگیں۔ زخمی ہونے کے باوجود حنیف الدین پاکستانی فوجیوں پر جوابی فائرنگ کرتے رہے۔

لیکن اس ہی وقت کیپٹن حنیف الدین کے پیٹ میں ایک اور گولی لگی اور وہ زمین پر گر گئے۔ کچھ دیر میں ان کی سانس رُکنے لگی اور دھیرے دھیرے وہ موت کے منہ میں چلے گئے۔

ہلاکت کے وقت ان کی عمر 25 برس تھی اور انھیں انڈین فوج میں شامل ہوِئے صرف دو ہی برس گزرے تھے۔

انڈین فوجیوں نے بہت کوشش کی کہ وہ حنیف الدین کی لاش کو اُٹھا سکیں لیکن بھاری ہتھیاروں سے ہونے والی فائرنگ کے سبب وہ آگے نہ بڑھ سکے۔

کچھ دیر بعد انھوں نے ان کی لاش کو اُٹھانے کا ارادہ ترک کردیا اور زنگپال واپس چلے گئے۔ اس کے بعد بھی کیپٹن حنیف الدین کی لاش کو واپس لانے کے لیے انڈین فوجیوں نے دو کوششیں کیں لیکن انھیں کامیابی نہیں مل سکی۔

انڈیا
،موت کے وقت کیپٹن حنیف الدین کی عمر 25 برس تھی

انڈین فوج کے سربراہ کی کیپٹن حنیف الدین کی والدہ سے ملاقات

کیپٹن حنیف الدین کی والدہ کو ان کے بیٹے کی موت کی خبر پہنچائی گئی۔ یہ خبر دینے کے لیے انڈین فوج کے اس وقت کے سربراہ جنرل وی پی ملک خود مشرقی دہلی میں واقع ہیما عزیز کے گھر پہنچے تھے۔

رچنا بشت روات اس حوالے سے لکھتی ہیں کہ ’دشمن کی بلاتعطل فائرنگ کے سبب ہم حینف کی لاش واپس نہیں لا سکے ہیں۔‘

’ہیما عزیز نے انتہائی بہادری سے جواب دیا کہ میں نہیں چاہتی کہ میرے بیٹے کی لاش کو لانے کے لیے کوئی اور فوجی اپنی جان خطرے میں ڈالے۔ جب لڑائی ختم ہوجائے گی تو میں اس مقام پر جانا چاہوں گی جہاں میرے بیٹے نے آخری سانس لی تھی۔‘

جنرل وی پی ملک نے انھیں تسلی دی کہ وہ خود اس سفر کے اتتظامات کریں گے۔

حنیف الدین کی موت کے تقریباً ایک مہینے بعد 11 راجپوتانہ رائفلز کے سپاہی سیاچن میں اپنی ڈیوٹی سے فارغ ہو گئے۔ اس وقت کرنل انیل بھاٹیہ کو کیپٹن حنیف الدین کی موت کی خبر سُنائی گئی۔

43 دنوں تک کیپٹن حنیف الدین کی لاش برف پر پڑی رہی

کرنل انیل بھاتیہ کہتے ہیں کہ ’ہم 10 جولائی کو ترتوک پہنچے۔ میں نے اپنے جوانوں کہا کہ ہم اپنے ساتھیوں کی لاشیں واپس لائیں گے۔‘

’کیپٹن حنیف کی موت کے 43 دنوں بعد کیپٹن ایس کے دھمن، میجر سنجے وشواس راؤ اور ان کے ساتھیوں نے یہ ذمہ داری لے لی۔ ایک انتہائی مشکل راستے پر چلتے ہوئے وہ بالآخر اس مقام پر پہنچ گئے جہاں حنیف نے اپنی جان قربان کی تھی۔‘

انھیں کچھ فاصلے سے کیپٹن حنیف اور پرویش کی لاشیں نظر آگئیں جو کہ ٹھنڈ کی وجہ سے جم چکی تھیں۔ پہلے انھوں نے پتھروں کے پیچھے سے لاشیں اٹھا کر اپنے کندھوں پر لادیں اور پھر پوری رات پیدل چلتے رہے۔

تقریباً صبح کے سات بجے وہ اپنے ساتھیوں کی لاشیں اٹھائے زنگپال پہنچے۔ اس وقت تک کیپٹن حنیف کا چہرہ سیاہ پڑ چکا تھا لیکن وہ پھر بھی پہچانے جا رہے تھے۔

اگلے دن ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے ان کی لاش کو وہاں سے روانہ کردیا گیا۔ اسی روز 11 راجپوتانہ رائفلز کے اہلکاروں نے فیصلہ کیا کہ وہ پوائنٹ 5590 پر قبضہ حاصل کریں گے اور اس مشن کو انھوں نے ’آپریشن حنیف‘ کا نام دیا۔

پوائنٹ 5590 پر حملے کی منصوبہ بندی

کرنل انیل بھاٹیہ نے فیصلہ کیا کہ وہ گلیشیئر پر چڑھنے کے لیے مشکل راستہ اختیار نہیں کریں گے بلکہ ان کے سپاہی پاکستان کی طرف سے پوائنٹ 5590 پر چڑھیں گے۔

یہ یقیناً ایک مشکل کام ہوگا لیکن کرنل انیل کو توقع تھی کہ پاکستانی فوجیوں کو یہ امید بالکل نہیں ہوگی کہ ان پر حملہ ان ہی کی سرزمین سے ہو سکتا ہے۔

کرنل انیل بھاٹیہ نے اس حملے کے لیے پورے نو دن انتظار کیا۔ اس کے بعد تقریباً 40 انڈین فوجیوں کو دو گروپس میں تقسیم کیا گیا۔

براوو کمپنی کی قیادت تربیت یافتہ کوہ پیما کیپٹن انیردھ چوہان کو سونپی گئی، جبکہ چارلی کمپنی کی قیادت لیفٹننٹ اشیش بھلّا کر رہے تھے۔

چونکہ یہ تمام فوجی کچھ ہی دن قبل سیاچن سے آئے تھے اس لیے ان کے پاس برفیلے علاقے میں پہننے کے لیے مناسب کپڑے اور جوتے تھے۔

لیکن برفیلے علاقے میں تقریباً تین ماہ گزارنے کے بعد ان کی جسمانی حالت زیادہ اچھی نہیں تھی۔ تقریباً ہر فوجی کا وزن کم ہو چکا تھا، ان کے سر میں درد ہو رہا تھا اور بلڈ پریشر بھی اوپر نیچے ہو رہا تھا۔

انڈیا
،کیپٹن حنیف الدین کی والدی ہیما عزیز

جب انڈین فوجی پوائنٹ 5590 کے قریب پہنچ کر واپس آ گئے

کرنل انیل بھاٹیہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنے سپاہیوں کو بتایا کہ پوائنٹ 5590 سے آپ اوپر کی طرف بھی دیکھ سکتے ہیں۔ دشمن نے وہیں سے فائرنگ کی تھی اور ہمارے ساتھیوں کو ہلاک کیا تھا۔‘

انڈین فوج کے اہلکاروں نے اس وقت ’جے راجہ رام چندر‘ کا نعرہ لگایا اور آگے کی طرف بڑھنے لگے۔ تھکن کے سبب ان کی سانسیں پھول رہی تھیں اور سردی کی وجہ سے ان کی انگلیاں ٹھٹھر کے رہ گئیں تھیں۔

اس پُرخطر راستے پر ان کے قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ بہت سے مقامات پر انھیں اوپر چڑھنے کے لیے رسیوں کا استعمال کرنا پڑا۔ تقریباً نو گھنٹے کے سفر کے بعد وہ تقریباً 40 میٹر مزید اوپر چڑھنے میں کامیاب ہوئے۔

اس وقت صبح کے چار بج رہے تھے اور انھیں 80 میٹر اور اوپر کی طرف چڑھنا تھا۔

کرنل انیل بھاٹیہ کہتے ہیں کہ ’جب انھوں نے مجھے یہ خبر سنائی تو میں نے انھیں واپس آنے کا حکم دے دیا۔ اس وقت میں کرچن گلیشیئر میں اپنی بیس میں تھا۔ ان کو واپس بُلانے کی وجہ یہ تھی کہ جیسے ہی سورج نکلتا قریبی چوٹیوں پر موجود پاکستانی فوجی انھیں دیکھ لیتے اور ان پر فائرنگ شروع کردیتے اور یہ رسک میں لینا نہیں چاہتا تھا۔‘

’ہمارے سپاہی مایوس لوٹ آئے۔ انھیں واپسی میں دو گھنٹے لگے، انھوں نے شام تک آرام کیا اور پھر رات میں اوپر کی طرف چڑھنے کی کوشش شروع کردی۔‘

رات ہونے کا انتظار

اس وقت تیز ہوائیں چل رہی تھیں جب کرنل انیل بھاٹیہ نے اپنے فوجیوں کو جمع کیا اور کہا: ’اگر ہم یہ مشن پورا کیے بغیر واپس جاتے ہیں تو لوگ کیا کہیں گے؟ وہ کہیں گے کہ 11 راجپوتانہ رائفلز ناکام واپس لوٹ آئی۔ یہ ہماری عزت کا معاملہ ہے اور مجھے رضاکار چاہییں۔ بتائیں کون جائے گا؟‘

سب سے پہلے وہاں موجود نائب صوبیدار ابھے سنگھ نے اپنا ہاتھ فضا میں بُلند کیا اور اس کے بعد مزید فوجی بھی اس مشن میں حصہ لینے کے لیے آگے آگئے۔

کرنل انیل بھاٹیہ مشن کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’کیپٹن انیردھ کی قیادت مین ٹاسک فورس ون کے سپاہی مشکل پہاڑی پر چڑھے اور پوائنٹ 5590 کی بیس پر پہنچ گئے۔ اس کے بعد انھیں تقریباً 80 میٹر اور اوپر کی طرف جانا تھا۔ انھوں نے وہاں ایک بار پھر رسیاں نصب کیں اور اپنی منزل تک صبح ساڑھے پانچ بجے تک پہنچ گئے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ میرے سپاہیوں نے مجھے اطلاع دی کہ تقریباً تین پاکستانی مورچے ان کی نظروں کے سامنے ہیں، ایک مورچے میں ایک سوراخ سے مشین گن باہر نکلی ہوئی نظر آ رہی ہے۔

کرنل انیل بھاٹیہ کے مطابق انھیں دی گئی اطلاع کے مطابق پاکستانی مورچے ان کے فوجیوں سے صرف 25 میٹر کے فاصلے پر تھے۔

کرنل انیل بھاٹیہ نے اپنے سپاہیوں کو چٹانوں کے پیچھے چھپ کر رات ہونے کا انتظار کرنے کا حکم دیا۔

انڈیا
،سیاچن کے اطراف میں واقع پہاڑی علاقہ

مورچے پر قبضہ

جیسے ہی اندھیرا پھیلا کان سنگھ نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر پاکستانی فوجیوں پر حملہ کر دیا۔ اس دوران ان کے گلے میں گولی لگی۔

جیسے ہی وہ زمین پر گرنے لگے ان کے ساتھی دلباغ سنگھ نے انھیں پکڑنے کی کوشش کی لیکن کان سنگھ گہری کھائی میں جا گرے۔

اس کے بعد دلباغ سنگھ آگے بڑھے اور پاکستانی فوجیوں پر حملہ کر دیا۔ دونوں ملکوں کے فوجی ایک دوسرے پر فائرنگ کر رہے تھے۔

نائب صوبیدار ابھے سنگھ نے پاکستانی فوجیوں کو کنفیوژ کرنے کے لیے آواز لگائی کہ ’آدھے سپاہی میرے پیچھے آئیں، کچھ دائیں طرف سے اور باقی تمام بائیں طرف سے آگے بڑھیں۔‘

اس موقع پر پاکستانی فوجیوں نے سوچا کہ ان پر 100 اہلکاروں پر مشتمل انڈین فوج کی پوری کمپنی نے حملہ کر دیا ہے۔

کرنل انیل بھاٹیہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنا ریڈیو کنکشن بند کر دیا تھا تاکہ آپریشن میں حصہ لینے والے فوجیوں کی توجہ اپنے مشن پر مرکوز رہے۔ میں نے اپنا ریڈیو صبح پانچ بجے کھولا اور اس وقت تک ہم پاکستانی مورچے پر حملے کر چکے تھے، اس دوران سات پاکستانی فوجی بھی ہلاک ہوئے تھے۔‘

اس پورے آپریشن میں راجپوتانہ رائفلز کا صرف ایک اہلکار ہلاک ہوا تھا۔ کیونکہ اس وقت تک سیاچن میں جنگ کا اختتام ہو چکا تھا اس لیے انڈین فوج کے اس یونٹ کو کوئی ایوارڈ نہیں دیا گیا۔

انڈیا
،کیپٹن حنیف الدین کی قبر

کیپٹن حنیف کو ویر چکرا ایوارڈ دیا گیا

کیپٹن حنیف الدین کو بہادری کا مظاہرہ کرنے پر ویر چکرا کا ایوارڈ دیا گیا اور کارگل میں واقع سب سیکٹر ویسٹ کا نام تبدیل کرکے سب سیکٹر حنیف رکھ دیا۔

ان کی لاش دہلی لائی گئی تھی جہاں انھیں سرکاری اعزار کے ساتھ دفن کیا گیا۔

اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل وی پی ملک نے اپنا وعدہ پورا کیا اور ہیما عزیز کو اس مقام کا دورہ کرنے کا موقع ملا جہاں ان کا بیٹا ہلاک ہوا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں