پاکستانی پولیس نے القاعدہ کے رہنما اور اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھی امین الحق کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو ’اسامہ بن لادن کے سیکیورٹی سپروائزر‘ رہ چکے ہیں۔
پاکستان کے صوبے پنجاب کے کاﺅنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ، سی ٹی ڈی، کے ترجمان کے مطابق جمعے کے دن امین الحق کو ’انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن‘ کے بعد جہلم کے قریب سرائے عالمگیر کے علاقے سے گرفتار کیا گیا۔
سی ٹی ڈی کے ڈی آئی جی عثمان اکرم گوندل کے مطابق امین الحق ایبٹ آباد میں ایک امریکی آپریشن میں ہلاک ہونے والے القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کے سیکیورٹی سپروائزر رہ چکے ہیں اور انھوں نے ایک موقع پر اسامہ بن لادن کی جان بھی بچائی۔
اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق امین الحق اسامہ بن لادن کے دست راست تھے۔ پنجاب سی ٹی ڈی کے ترجمان کے مطابق امین الحق سنہ 1996 سے ہی اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھی بن چکے تھے۔ڈی آئی جی عثمان اکرم گوندل کے مطابق ڈاکٹر امین الحق افغان شہری ہیں لیکن ان کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ بھی ہے جس پر لاہور اور ہری پور کا پتہ درج ہے۔
ان کے مطابق ’یہ کیسے پاکستان میں آئے اور کس آئی ڈی سے سفر کیا، اس کی تفتیش کی جا رہی ہے۔‘
اسامہ بن لادن کو تورا بورا سے فرار کروانے والے امین الحق کون ہیں؟
امین الحق کا تعلق افغانستان کے صوبے ننگرہار کے ضلع خوگیانی سے ہے اور ان کا نام اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کردہ دہشتگردوں کی فہرست میں 25 جنوری 2001 سے شامل ہے۔
محقق عبدالسید کے مطابق امین الحق کا نام عالمی میڈیا میں اس وقت منظر عام پر آیا جب انھوں نے سنہ 2001 میں امریکہ اور نیٹو کے مشترکہ حملے کے وقت اپنے آبائی ضلع سے متصل تورا بورا پہاڑی سلسلے سے القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کو فرار کروانے میں کردار ادا کیا۔
عبدالسید کا کہنا ہے کہ امین الحق کے علاوہ اسامہ بن لادن کے فرار میں سہولت فراہم کرنے کا الزام ان کے تین دیگر ساتھیوں پر بھی لگا جو ماضی میں سویت افواج کے خلاف افغانستان میں جنگ کے دوران ایک ہی عسکری تنظیم سے وابستہ تھے۔
ان کے مطابق ان چار میں سے تین سنہ 2007 میں پاکستان سے گرفتار ہوئے جن میں امین الحق بھی شامل تھے ’مگر امین الحق کو افغان حکومت یا امریکہ کے حوالے نہیں کیا گیا۔‘
امین الحق کی گرفتاری کے بعد سی ٹی ڈی کے ڈی آئی جی عثمان اکرم گوندل نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ امین الحق کو سنہ 2007 میں گرفتار کیا گیا تھا اور چار سال کی قید کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا تھا، جس کے بعد وہ پس منظر میں چلے گئے۔
عبدالسید کہتے ہیں کہ ’امین الحق کے مطابق ان سے پاکستان میں حراست کے دوران امریکی اہلکاروں نے تفتیش کی اور انھیں بے گناہ قرار دیا جبکہ ان کے ایک ساتھی کو امریکہ کی گوانتانامو بے جیل منتقل کیا گیا۔ امین الحق کے ایک اور ساتھی افغان دارالحکومت کابل کے قریب امریکیوں کی بگرام جیل میں قید رہے۔‘
عبدالسید کے مطابق 2011 میں امین الحق کو پاکستان میں قید سے رہا کر دیا گیا تھا۔
ڈی آئی جی عثمان اکرم کے مطابق امین الحق کو سنہ 2021 میں افغانستان میں دیکھا گیا تھا۔ واضح رہے کہ 2021 میں ہی افغانستان میں طالبان نے کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔
عثمان اکرم کے مطابق ’نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد اگست 2021 میں امین الحق افغانستان چلے گئے۔ وہاں انھوں نے القاعدہ کو دوبارہ منظم کرنے کی کوشش کی۔‘ ان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق اپریل 2024 میں بھی امین الحق افغانستان میں موجود تھے۔
امین الحق کو کب گرفتار کیا گیا؟
امین الحق کی پاکستان میں گرفتاری کب اور کیسے ہوئی؟ عبدالسید کے مطابق آٹھ جولائی 2024 کو مرتب کی گئی اقوام متحدہ کے ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امین الحق کو مارچ 2024 میں پاکستان حکام نے غیر قانونی اسلحہ رکھنے کی جرم میں گرفتار کیا ہے۔
تاہم سی ٹی ڈی کے مطابق حال ہی میں وہ غیرقانونی طور پاکستان داخل ہوئے تھے جس کا ان پر مقدمہ بھی درج کر دیا گیا ہے۔
عثمان اکرم نے بتایا ہے کہ وہ اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ القاعدہ کا سابق رکن ’افغانستان سے کیسے اور کس شناختی کارڈ پر پاکستان آیا اور اس لیول کا دہشتگرد پاکستان میں کیا کر رہا تھا۔‘
’اس کا کوئی سپورٹر ہے تو اسے پکڑنا ہے اور یہ کہ ہری پور اور لاہور کے ایڈریس امین الحق کے پاس کیسے آئے۔‘
عثمان اکرم نے بتایا کہ اقوام متحدہ کی طرف سے امین الحق پر تین طرح کی پابندیاں عائد ہیں: ’یہ سفر نہیں کر سکتے، اسلحہ نہیں خرید سکتے اور ان کے اثاتے منجمد ہیں۔‘
عثمان اکرم کے مطابق ’انڈیا کی خفیہ ایجنسی را نے امین الحق سے متعلق بہت پروپیگنڈہ کیا تھا کہ یہ انڈیا کے خلاف کارروائیوں کے لیے القاعدہ کو منظم کر رہے ہیں۔‘امین الحق کی گرفتاری کتنی اہم ہے؟
اسامہ بن لادن کے سابق ساتھی کی پاکستان سے گرفتاری کیا ثابت کرتی ہے؟ طارق پرویز سابق پولیس افسر اور انسداد دہشت گردی کے حکومتی ادارے نیکٹا کے سابق سربراہ رہ چکے ہیں جن کا ماننا ہے کہ یہ گرفتاری پاکستان میں القاعدہ کی تنظیم نو کی جانبب اشارہ ہے۔
طارق پرویز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’القاعدہ، ٹی ٹی پی اور افغان طالبان پاکستان کے خلاف ایک خطرناک اتحاد ہے۔‘
ان کی رائے میں اس وقت ناصرف القاعدہ کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی کو افغانستان میں تربیت دے رہا ہے بلکہ ’خود بھی پاکستان کو ہی اپنی کارروائیوں کا مرکز بنا رہی ہے۔‘
طارق پرویز کے مطابق القاعدہ کی تربیت کی نتیجے میں ٹی ٹی پی نے اپنے طریقہ کار بھی بدلا ہے اور ’اب وہ عوام کے بجائے فوج اور پولیس کو اپنی کارروائیوں کا ہدف بناتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’القاعدہ جلدی میں کچھ نہیں کرتی بلکہ وہ وقت کا انتطار کرتی ہے اور اب وہ پھر سے ناصرف منظم ہو رہی ہے بلکہ پاکستان میں بھی اپنے پرانے روابط کو بحال کرنے کے لیے سرگرم ہے۔‘
ان کے مطابق ’القاعدہ اس وجہ سے بھی پاکستان کو اپنی تنظیم نو کے لیے منتخب کر رہی ہے کیونکہ وہ اس علاقے، محل وقوع، لوگوں اور ثقافت سے آگاہ ہیں۔‘
ان کے مطابق ’اگر القاعدہ کی توجہ پاکستان پر رہتی ہے تو پھر مغربی ممالک بھی القاعدہ سے متعلق زیادہ دلچسپی لیتے دکھائی نہیں دے گے کیونکہ وہ اس گروپ کو دوسرے محاذوں پر ہی مصروف دیکھنا چاہتے ہیں۔‘
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں ’سب سے بڑا دہشت گرد گروپ‘ بن گیا ہے، جسے پاکستان میں سرحد پار سے حملے کرنے کے لیے طالبان حکمرانوں کی حمایت حاصل ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ’القاعدہ کے لوگ دہشت گرد کارروائیوں کے لیے کالعدم ٹی ٹی پی کی مدد کر رہے ہیں اور افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے چھ سے ساڑھے چھ ہزار کے درمیان جنگجو ہیں جن کو مقامی جنگجوؤں کے ساتھ القاعدہ کیمپوں میں تربیت دی جا رہی ہے۔‘
دوسری جانب محقق عبدالسید کا ماننا ہے کہ القاعدہ اب پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہے۔
انھوں نہ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سنہ 2014 میں وزیرستان سے عسکریت پسندوں کے مراکز کے خاتمے، امریکی ڈرون حملوں میں یہاں قیادت کی پے درپے ہلاکتوں، خطہ میں داعش کے پھیلنے کی وجہ سے القاعدہ سنہ 2015 کے بعد پاکستان میں تقریباً ختم ہو چکی ہے۔‘
ان کے مطابق ’سنہ 2014 میں القاعدہ کے پاکستان اور جنوبی ایشیا کے لیے مقامی شاخ القاعدہ برصغیر کا اعلان کیا گیا تھا مگر اس تنظیم نے سنہ 2016 کے بعد پاکستان میں کسی حملے کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ اس کے ملوث ہونے کے شواہد دعوے سامنے آئے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’القاعدہ پاکستان میں فقط میڈیا اور پروپیگنڈا کی حد تک مصروف ہے اور اس کا کوئی فعال آپریشنل نیٹ ورک نہیں ہے۔‘