’وہ تو مزدور تھے، غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے وزیرستان گئے تھے۔ بے ضرر لوگ تھے اور انھیں بے دردی سے فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔‘
ملازم حسین اپنے تین رشتہ داروں کا ذکر کرتے ہوئے خاموش ہوگئے اور پھر کہنے لگے ’بس صاحب کیا کریں۔ مجبوری کی وجہ سے لوگ روزگار کے لیے جاتے ہیں۔‘
صوبہ خیبر پختونخوا کے سابقہ قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں دو روز قبل صوبہ پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے چھ افراد، جو حجام کا کام کرتے تھے کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
اب تک کسی تنظیم نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے اس واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور کہاں ہے کہ ان کے اہداف ’واضح ہیں۔‘
قتل ہونے والے افراد کی لاشیں ان کے آبائی علاقے میں لانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب ملک میں آٹھ فروری کے عام انتخابات کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔
بدھ کو پاک انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کی پاکستان کے سکیورٹی حالات سے متعلق 2023 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ملک میں شدت پسندی کے واقعات میں گذشتہ سال کے مقابلے 17 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سال 2022 کے مقابلے 2023 میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد میں ’65 فیصد اضافہ‘ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں سب سے زیادہ شدت پسندی کے حملے (174) خیبر پختونخوا میں ہوئے جن میں 422 افراد کی ہلاکت ہوئی۔
’بظاہر یہ کارروائی خوف پھیلانے کے لیے کی گئی‘
تھانہ سی ٹی ڈی میران شاہ میں درج ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے پولیس کو اطلاع موصول ہوئی تھی کہ میر علی بازار کے قریب چھ افراد کی لاشیں پڑی ہیں جنھیں بے دردی سے قتل کیا گیا ہے اور پولیس نے ان لاشوں کو ہسپتال منتقل کر دیا۔
ایس ایچ او تھانہ میر علی کی مدعیت میں درج اس مقدمے میں بتایا گیا ہے کہ ان چھ افراد کی شناخت ہونے پر معلوم ہوا کہ ’یہ حجام ہیں‘ اور ان کا تعلق صوبہ پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان سے بتایا گیا ہے۔ ان کے نام محمد طارق، محمد شاہد، محمد راعب، کاشف، محمد عرفان اور ساجد بتائے گئے ہیں۔
اس ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ یہ افراد میر علی بازار میں طارق مارکیٹ کے قریب کہیں رہائش پذیر تھے جہاں سے انھیں جائے وقوعہ پر لایا گیا اور پھر ان پر فائرنگ کی گئی ہے۔
مقامی لوگوں سے موصول ہونے والی اطلاع کے مطابق حملہ آور ان افراد کی رہائش گاہ پر گئے جہاں ان کے ساتھ سوال جواب کیے، پھر انھیں ساتھ لے گئے اور مارکیٹ کے قریب ان پر فائرنگ کی۔
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ان میں سے ایک کم عمر لڑکے کو انھوں نے زندہ چھوڑ دیا تھا۔ تاہم اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔
اس ایف آئی آر میں کہا گیا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ کارروائی علاقے میں خوف پھیلانے کے لیے کی گئی ہے یا یہ کارروائی کسی اور شبے میں کی گئی جس میں بے گناہ افراد کو قتل کر دیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق اس علاقے میں شدت پسندوں کے گروہ متحرک ہیں جن میں حیدری گروپ، اریانہ گروپ اور خدی گروپ شامل ہیں۔
پولیس اہلکاروں کے مطابق ان تمام افراد کو رہائش گاہ سے نکال کر قریب کھیتوں میں لے جایا گیا جو پولیس تھانے سے کوئی آدھے کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، جہاں ان پر فائرنگ کی گئی۔
سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق اس واقعے کے بعد کمشنر ڈی جی خان ڈویژن ڈاکٹر ناصر محمود بشیر نے ’متعلقہ اداروں کو ہائی الرٹ کر دیا ہے۔۔۔ متاثرہ خاندان کی مالی امداد کے لیے حکومت پنجاب کو بھی سفارشات ارسال کر دی گئی ہیں۔‘
سیکریٹری ڈی جی خان جمخانہ کلب ذوالفقار علی لغاری نے اراکین کی طرف سے مقتولین کی تدفین اور متاثرہ خاندانوں کو چھ لاکھ روپے عطیہ کیے ہیں۔
دریں اثنا شمالی وزیرستان کے ضلعی پولیس افسر روحان زیب خان نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ پولیس اس حوالے سے تحقیقات کر رہی ہے کہ حملہ آوروں کا مقصد کیا تھا۔
’حجام کی کسی کے ساتھ کیا دشمنی ہو سکتی ہے؟‘
قتل ہونے والے افراد کے بارے میں ڈیرہ غازی خان سے ملازم حسین نے بتایا کہ مزدوروں میں سے تین ان کے رشتہ دار تھے جن ان کی عمریں 16 سال سے 25 سال کے درمیان تھیں۔
ملازم حسین خود بھی پیشے کے اعتبار سے ہیئر ڈریسر ہیں اور ان کے تینوں رشتہ دار ان سے چھوٹے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ شاہد کی شادی ’کوئی دس روز پہلے ہوئی تھی۔ شادی کے بعد وہ میر علی چلے گئے تھے۔‘
یہ ان کی دوسری شادی تھی کیونکہ ’ان کی پہلی بیوی فوت ہو گئی تھی۔ شاہد کے تین بچے ہیں۔‘ ان کے بھائی بھی حجام ہیں اور وہ بھی مختلف علاقوں میں کام کرتے ہیں۔
ملازم حسین نے بتایا کہ میر علی جانے سے پہلے شادی کے وقت شاہد سے بات چیت ہوئی تھی لیکن اس کے بعد ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوسکا تھا۔
ان سے جب پوچھا کہ کیا ان کو کوئی خطرہ یا دھمکی وغیرہ بھی دی گئی تھی تو ان کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں تھی اور نہ ہی کبھی ایسا کوئی ذکر ہوا تھا۔ ’وہ تو بے ضرر لوگ تھے۔ ان کا کوئی اپنا کاروبار بھی نہیں تھا کہ اپنی کوئی دکان یا سیلون۔ بلکہ وہ دوسرے بندے کی دکان پر کاریگر کے طور پر کام کرتے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے رشتہ دار اور خاندان کے دیگر افراد ’انتہائی غریب ہیں۔ یہاں کوئی مناسب کام نہیں تھا، اس لیے وہ شمالی وزیرستان چلے گئے تھے۔ ان میں بیشتر افراد کنوارے تھے اور یہ ڈیرہ غازی خان کے مضافاتی علاقوں میں رہائش پذیر تھے۔‘
بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے بیشتر علاقوں میں ہیئر ڈریسرز یا حجام صوبہ پنجاب کے مختلف علاقوں سے کام کرنے کے لیے آتے ہیں۔
پشاور کے بڑی رہائشی علاقوں سے لے کر دور دراز دیہاتوں میں بھی صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد ہی ہیئر ڈریسرز کا کام کرتے ہیں۔
پشاور میں ہیئر ڈریسرز کی تنظیم کے سربراہ محمد شریف کاہلو نے بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہیئر ڈریسرز بنیادی طور پر تو لوگوں کی خدمت کرتے ہیں، انھیں سنوارنے کا کام کرتے ہیں۔ ’ان کی کسی کے ساتھ کیا دشمنی ہو سکتی ہے؟‘ ’لیکن جب بھی ملک میں کہیں بھی امن و امان کے حالات خراب ہوتے ہیں تو اس میں ان معصوم اور بے ضرر افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں پنجاب سے آنے والے ہیئر ڈریسرز کی تعداد ہزاروں میں ہوگی اور یہ لوگ رزق کی خاطر خطرناک علاقوں میں بھی چلے جاتے ہیں۔ جمعرات کو ان کی تنظیم ہیئر ڈریسرز کو تحفظ فراہم کرنے سے متعلق ایک اجلاس منعقد کر رہی ہے۔
پاکستان میں حجام یا ہیئر ڈریسرز پر یہ کوئی پہلا حملہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بلوچستان کے علاقے کوئٹہ، گوادر اور دیگر علاقوں میں بھی ان پر حملے ہو چکے ہیں۔ لیکن یہ حملہ سب سے زیادہ خطرناک سمجھا جا رہا ہے کیونکہ اس میں ایک ہی وقت میں چھ ہیئر ڈریسرز کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
پشاور میں حیات آباد کے علاقے میں صوبہ پنجاب کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے افراد کی بیسیوں دکانیں ہیں جہاں ہیئر ڈریسرز کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہوگی۔ ان میں سے بعض لوگ اب خود کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔