’سرکار کے پاس جواز کیا ہے کہ وہ شمالی علاقہ جات میں آ کر لوگوں کی بیابان زمینوں پر قبضہ کرے؟ یہاں پر فصل اگانے کی جگہ نہیں۔ گھر کی جگہ نہیں۔ تو ہم اور کیا بات کریں۔‘
یہ کہنا ہے گلگت کے علاقے ہراموش کے رہائشی کا۔ ان سے میری ملاقات ہراموش کے گاؤں شوتہ میں ہوئی جہاں پر زمین کی ملکیت کو لے کر سرکار اور مقامی افراد کے درمیان تنازعہ پنپ رہا ہے۔
یوں تو گلگت بلتستان کے علاقے سیر و تفریح کے لیے مشہور ہیں لیکن سیاحت سے ہٹ کر یہ علاقہ بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے جن میں سرِ فہرست زمین کی ملکیت کا معاملہ ہے۔
مقامی افراد سے بات کرنے پر پتا چلا کہ یہ تنازعہ ایک یا دو گاؤں کا نہیں بلکہ کئی علاقوں کا ہے جو چاہتے ہیں کہ ’خالصہ سرکار‘ کے نام پر لی گئی زمینوں کے قانون کو ہی ختم کر دیا جائے۔
خالصہ سرکار کیا ہے اس پر بعد میں بات کرتے ہیں لیکن پہلے اگر گلگت کے رہائشیوں کو درپیش مسائل پر بات کریں تو گلگت کے یہ گاؤں یہاں پر دہائیوں سے آباد ہیں تاہم پچھلے چند سال میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کے نتیجے میں اب لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ان کو ان کی آبائی زمینوں سے بغیر معاوضہ دیے ہٹایا جا رہا ہے۔
چاہے یہاں کا ڈگری کالج ہو یا پھر کینسر ہسپتال، مقامی افراد دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ لوگوں سے لی گئیں زمینیں ہیں جن پر اب یہ تعمیرات بنا دی گئی ہیں اور نتیجتاً ہر چند ماہ بعد بات مظاہروں تک پہنچ جاتی ہے۔
گلگت میں سب سے بڑا احتجاج رواں سال جنوری میں ہوا تھا لیکن اس کے بعد بھی احتجاجی مظاہروں کے ذریعے عوام اپنے مطالبات سامنے رکھتی رہتی ہے۔
زمین کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے میں نے سب سے پہلے ہراموش کے گاؤں شوتہ کا رُخ کیا۔ شوتہ گاؤں کے رہائشی اس وقت سرکار کے ساتھ قانونی جنگ میں ملوث ہیں۔
’ہمیں ہماری زمینوں سے پیچھے کر کر کے پہاڑوں میں بٹھا دیا گیا‘
شوتہ تک پہنچنے کا راستہ خاصا مشکل اور تنگ ہے اور اسی پہاڑ کے بیچ لوگ آباد ہیں۔ اِن ہی تنگ گلیوں میں لوگوں کی رہائش اور کاشت کرنے کے لیے محدود جگہ میسر ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ زیادہ تر مکانات کے بالکل نیچے گہری کھائی ہے اور مقامی افراد بتاتے ہیں کہ یہ ہر روز تھوڑی تھوڑی سِرک رہی ہے جس کے نتیجے میں کچھ عرصے بعد یہ مکان زمین بوس ہو سکتے ہیں۔
لوگ بتاتے ہیں کہ اس سے پہلے وہ جہاں آباد تھے انھیں ان مقامات سے سرکار نے یہ کہہ کر بے دخل کر دیا تھا کہ ان کے پاس ان جگہوں کے کاغذات نہیں۔
’پہلے زمانے میں دستاویزات نہیں ہوا کرتے تھے۔ ہمارے باپ دادا یہیں آباد تھے اور یہیں ان کے جانوروں کی چراگاہیں تھیں۔ پھر سرکار نے کہا کہ ’خالصہ سرکار‘ کے قانون کے تحت یہ تمام زمینیں سرکار کی ہیں۔
’سرکار کے پاس جواز کیا ہے کہ وہ لوگوں کی آباد کی گئی زمینوں پر قبضہ کرے؟ حال یہ ہو چکا ہے کہ اب ہمارے رہنے کی جگہ تنگ ہو چکی ہے کیونکہ ہمیں ہماری زمینوں سے پیچھے کر کر کے یہاں پہاڑوں میں لاکر بٹھا دیا ہے۔‘
اب ان افراد کا مطالبہ صرف یہی ہے کہ انھیں ان کی زمینوں کی ملکیت دی جائے اور جب تک ایسا نہیں ہو گا تب تک یہ عدالتوں کے ذریعے لڑتے رہیں گے۔
لیکن یہ کہانی صرف اس علاقے تک محدود نہیں بلکہ ہنزہ اور سکردو میں بھی زمین کی ملکیت کا تنازعہ بڑھ چکا ہے۔
خالصہ سرکار کیا ہے؟
خالصہ سرکار کا لفظ گلگت بلتستان میں سِکھوں کی حکومت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو 1799 سے لے کر 1849 تک قائم رہی۔
گلگت کے اندر اور باہر سِکھ سلطنت کی قبضہ کی گئی زمینوں کو ’خالصہ سرکار زمین‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
خالصہ سرکار کے قانون کے تحت گنجان آباد (یا خالی) زمین پر سرکار کا قبضہ تھا جبکہ برصغیر کی تقسیم کے بعد سے پاکستان میں یہ قانون آج بھی رائج ہے۔
اس وقت زمین کی ملکیت کا تنازعہ چلمس، مقپون داس، داس، کونو داس اور دونگ داس میں ہے جبکہ لوگ اپنے گاؤں کے بیچ زمین کے تنازعات کو بھلا کر ایک ہو چکے ہیں اور اس وقت ان کا مقصد سرکار سے اپنی زمین کی ملکیت حاصل کرنا ہے۔
اب کئی دہائیوں بعد یہاں کے مقامی اس قانون کو ہی ختم کر دینا چاہتے ہیں۔
زمین کا یہ تنازعہ اس قدر طول پکڑ چکا ہے کہ ہراموش نے ایک اور گاؤں چھموگڑھ سے اپنی دشمنی بھلا کر اسے بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا ہے۔
چھموگڑھ گاؤں کے احتشام الحق کہتے ہیں کہ ان کی آبائی زمینوں پر ترقیاتی کاموں کے نتیجے میں ان پر زمین تنگ کر دی گئی۔
’ہماری بنجر زمینیں بہت زیادہ ہیں۔ اس پر ہم پانی لا کر آباد کاری بھی کر سکتے ہیں لیکن ایک طرف سے سرکار ہمیں نہیں چھوڑ رہی کیونکہ خالصہ سرکار زمینوں پر دفعہ 144 لگی ہوئی ہے۔‘
’اس وجہ سے ہم جن زمینوں پر بیٹھیں ہیں اب ہماری یہی محدود زمینیں ہیں۔ ہمارے آباؤ اجداد 200 سال پہلے یہاں آئے تھے تب سے لے کر اب تک ہم صرف ایک ہزار گھرانے یہاں رہ گئے ہیں۔‘
احتشام نے کہا کہ سرکار کو جو زمین چاہیے اس پر انھیں اعتراض نہیں لیکن اس کے بدلے انھیں معاوضہ دیا جائے۔
اس حوالے سے وفاقی حکومت کی جانب سے سی پیک سے متعلق منصوبوں کی مد میں زمینیں لی گئی ہیں جس کے لیے ہم نے گذشتہ حکومت میں وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال سے مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تاہم تاحال ان کی جانب سے جواب نہیں دیا گیا۔
احتشام نے کہا کہ سرکار انھیں معاوضہ نہیں دے رہی ’اور اب ہونا تو یہی چاہیے کہ اس قانون کو ہی ختم کر دیا جائے۔‘
یہی سوال جب میں نے گلگت کے وزیرِ قانون سہیل عباس سے پوچھا کہ کیا خالصہ سرکار کا قانون ختم کر دینا چاہیے؟ تو انھوں نے اس کی مخالفت کرنے کی برعکس کہا کہ ’جی، انشا اللہ کیونکہ ابھی جو ہمارا لینڈ رفارمز کا ڈرافٹ بنا ہوا ہے اس میں باقاعدہ دو قسم کی زمینوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس کے مطابق اگر لوگوں کی زمین غیر قانونی طریقے سے بھی حاصل کی گئی ہے تو اسے خالی کروا کر ہم لوگوں میں تقسیم کریں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’خالصہ سرکار کے قانون کو غلط طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں زمین کی ملکیت کے جتنے بھی معاملات ہیں وہ جا جا کر خالصہ سرکار پر ہی آ کر رکتا ہے۔‘
حال ہی میں مقامی افراد نے سیاستدانوں کو گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی سے ایک قرارداد پیش کرنے پر بھی مجبور کیا۔ اس قرارداد کے تحت مقامی افراد نے نو آبادیاتی قوانین کو ختم کرنے، لوگوں کو ان کی زمینوں کی ملکیت کا حق دینے اور گلگت کے لیے سی پیک منصوبوں میں حصہ مانگا ہے۔
لیکن ایسا کرنے سے کیا ان کی زمینیں بچ سکیں گی یا ان کو اس کے بدلے میں معاوضہ مل سکے گا، اس بات کی اس وقت کوئی گارنٹی نہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی سے منسلک جمیل احمد علاقے کے لوگوں کی حقِ ملکیت کے تحت ڈاکیومنٹس جمع کروانے میں مدد کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اس خطے کو ہم انتظامی صوبہ کہہ سکتے ہیں یہ آئینی صوبہ نہیں۔ یہ انتظامی صوبہ ہے جس میں جو صوبہ کا انتظامی سیٹ اپ ہوتا ہے وہ مکمل ہے۔ ایک اسمبلی ہے۔ پہلے معاملات بگڑتے رہے کیونکہ قانون سازی کا اختیار یہاں نہیں تھا، کشمیر افئیرز کے پاس تھا۔ وزیرِ اعظم کے پاس تھا۔‘
’سنہ 2009 میں پہلی دفعہ اس اسمبلی کے پاس یہ اختیار آیا لیکن میں پوری کوشش کروں گا کہ اسمبلی کے ذریعہ لوگوں کے مسائل اجاگر کروں۔‘
احتشام الحق نے کہا کہ ’اس وقت اس بگڑتی صورتحال کے ذمہ دار یہ سیاستدان بھی ہیں۔ جو اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ایک بات کرتے ہیں اور حکومت میں آ کر دوسری بات کرتے ہیں۔ یہ ہمارے ساتھ ہوں یا نہ ہوں، ہم اپنی زمینیں ان سے لے کر رہیں گے۔‘
ویسے تو پاکستان کے لیے گلگت بلتستان کا یہ خطہ خاصی اہمیت رکھتا ہے لیکن مقامی افراد کا کہنا ہے کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کی زمینوں پر ترقیاتی کاموں کو روکنے کی ہر ممکن پلیٹ فارم سے مخالفت کریں گے اور اب یہ واضح ہے کہ جب تک زمین کی ملکیت کا کوئی پائیدار حل نہیں نکالا جاتا، یہ تنازعہ اس خطے میں پنپتا رہے گا۔