دیومالائی کہانیوں کے غیر حقیقی کردار اس لیے تشکیل کئے جاتے تھے کہ اُنھیں کوئی چھو نہ سکے مگر اس قدر حقیقی رنگ ان میں بھر دیے جاتے کہ کردار حقیقت کا روپ دھار لیتے۔
یہ کردار چھوئے تو نہیں جا سکتے مگر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ یہ بولتے نہیں، سُنتے نہیں مگر ان کی بولیاں حکم چلاتی ہیں، یہ مقدس ہیں اور انھیں طاقوں میں سجایا جاتا ہے، یہ محترم ہیں اور احترام ان کے لائق، ان کو ہاتھ لگانے والے ہاتھ توڑ دیے جاتے ہیں اور ان کے خلاف اُٹھنے والے قلم کاٹ دیے جاتے ہیں۔
جن معاشروں میں سوال کی عادت نہ رہی ہو وہاں ایسے کردار دیوتا بن جاتے ہیں اور جہاں سوال ہوا وہاں ان کی اہمیت محض کرداروں سے زیادہ نہیں۔ انصاف اور احتساب چُنیدہ ہو تو طاقت دیوتا بن جاتی ہے اور یہی ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔
ہم جس معاشرے میں بستے ہیں یہاں چند کردار دیومالائی حیثیت رکھتے ہیں۔ محدود آزادی، محدود جمہوریت، محدود انصاف، محدود احتساب، محدود آزادی رائے، محدود انسانی حقوق تک رسائی، محدود نقل و حرکت اور محدود سانس لینے کی اجازت نے ان کرداروں کو مزید مضبوط کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں چھوٹے چھوٹے کئی رانگ نمبر اکٹھے ہو گئے ہیں یا ایسے کردار تراش دیے گئے ہیں کہ جنھیں مقدس بنا دیا گیا۔
محدود آزادیوں کے اس معاشرے کو ہم جمہوری معاشرہ مانتے ہیں اور کم سے کم کو زیادہ سے زیادہ بنا کر اپنی اپنی مصلحتوں کے مزاروں پر چراغ جلاتے ہیں۔
دبئی کی شاہراہ پر کھڑے جنرل باجوہ نے کبھی تصور نہیں کیا ہو گا کہ وہ راجہ بازار یا چاندنی چوک کے چوراہے پر یوں سُرخ بتی پر انتظار کرتے بھی دکھائی دے سکتے ہیں۔
’گمنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا‘ پر عمل درآمد کرتے جنرل باجوہ نے کب سوچا ہو گا کہ یوں اُن کی ویڈیو زمانے میں نیک نامی کماتی پھرے گی۔
چھ برس تک مملکت پاکستان کے سیاہ و سفید پر حکمرانی کرنے والے دبئی میں سُرخ بتی کے احترام میں کھڑے یہ پیغام دے رہے تھے کہ ملک کے آئین کو توڑنا مشکل نہیں مگر بیرون ملک سگنل توڑنا بے حد مشکل ہے۔
جس ملک میں بار بار آئین توڑا جاتا رہا ہو وہاں یہ مناظر انتہائی دل خراش محسوس ہوتے ہیں۔
کشمیر سے لے کر حکومتوں کی تشکیل تک، نواز شریف و آصف زرداری کے سیاسی مستقبل کو گول کرنے سے لے کر پراجیکٹ عمران تک، معاشی اور خارجہ پالیسی اور عدالتی و میڈیائی پالیسیاں ترتیب دینے والے ففتھ جنریشن وار فیئر کے خالق جنرل باجوہ اب متحدہ عرب امارات کی سڑکوں پر قانون اور آئین کی عملداری کے مظاہرے کر رہے ہیں اور دوسری طرف مملکت پاکستان میں اُن کے لائے گئے چھوٹے چھوٹے دیوتا سُرخ لکیر مٹانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
باجوہ ڈاکٹرائن کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔ بہرحال اس سب کے باوجود یہ حق پاکستان میں چند لوگوں کو ہی ہے کہ وہ آئین اور قانون کو اپنی مرضی سے استعمال کریں اور پھر اس کا پرچار کریں۔
علی وزیر اور صحافی شاہد اسلم کے پاس یہ اختیار کہاں کہ وہ ان مقدس کرداروں کی طرف اُنگلی اُٹھائیں۔
ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ہائبرڈ رجیم کی تیاری میں استعمال ہونے والی طاقت اور تشکیل میں لگائے جانے والے تمام جزئیات کا اعتراف منظر عام پر آ چکا مگر بے اختیار سیاسی قوتیں احتساب کو تیار نہیں۔
مملکت کی عدالتوں کی ملی بھگت سے سیاسی انجینیئرنگ کے منصوبے منظرعام پر آ چکے ہیں مگر جس دیدہ دلیری سے ’نظام‘ بنانے کا اعتراف کیا گیا، اُسے محض انکشاف سے زیادہ کی حیثیت نہیں دی گئی۔
کبھی کسی معاشرے میں یہ سُنا کہ جج صاحبان کے فیصلے پسندیدہ جماعت کے وکلا سے تحریر کرانے کا الزام ہو اور پھر بھی سوال نہ ہو؟ انصاف کٹہرے میں کھڑا ہے مگر منصف کب کھڑا ہو گا؟
ستم ظریفی کہیے یا کمال ڈھٹائی کہ سیاسی انجینیئرنگ کے الزامات وہ لگا رہے ہیں جو خود انجینیئرنگ کی پیداوار اور جن کے خلاف سچائی کمیشن بننا چاہیے وہ سچائی اور مفاہمت کمیشن کے مطالبے کر رہے ہیں۔
بیتے پچھتر سال میں اشرافیہ اور عوام کے درمیان کھینچی جانے والی لکیر مزید گہری ہوتی چلی جا رہی ہے۔
حق دو تحریک کے مولانا ہدایت اللہ کا صرف یہ قصور ہے کہ وہ گوادر کے باسیوں کی آواز بنے مگر بے پناہ طاقت کے بے حد طاقتور کردار جب یہ دھمکی دیں کہ آئندہ احتجاج ہوا تو سب کو جیل اندر بند کر دیا جائے گا تو شخصی آزادیوں کا چنیدہ حق محض چند لوگوں کو حاصل ہو جاتا ہے۔
تبدیلی، آئین پر عملداری کے نعرے کے ساتھ ہو یا شخصی آمریت کے ساتھ محض نظر کا دھوکا ہے اور کچھ نہیں۔
انصاف کے اعلی ایوانوں میں قانون اندھا ہے اور انصاف بہرا جو دیوتاؤں کے تحفظ کو یقینی بنانے میں مشغول۔۔۔ دھیرے دھیرے چبوتروں پر کھڑے یہ بُت کب ٹوٹیں گے، کون توڑے گا اور ان کرداروں کو بے نقاب کون کرے گا؟