چلاس میں حادثے کا شکار ہونے والی بس کے مسافروں نے کیا دیکھا: ’بس نے ہچکولے کھائے اور پھر چھوٹا سا دھماکہ ہوا‘

اکثر مسافر سو رہے تھے اور بس میں مکمل خاموشی تھی، ہمارا سفر خوشگوار گزر رہا تھا لیکن پھر اچانک بس نے ہچکولے کھانے شروع کر دیے اور مجھے ایسا لگا جیسے کوئی چھوٹا سا دھماکہ ہوا۔‘

مطیع اللہ زخمی ہونے والے اُن 22 مسافروں میں سے ایک ہیں جو ایک بس کے ذریعے صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی سے ہنزہ جا رہے تھے۔ اس بس کو جمعہ کی علی الصبح شاہراہ قراقرم پر چلاس شہر سے تقریباً 20 کلومیٹر دور ’یشکول داس‘ کے مقام پر حادثہ پیش آیا تھا۔

صوبائی حکومت کے ترجمان اور دیامر ریسکیو سینٹر کے انچارج کے مطابق اس حادثے میں اب تک 20 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ 21 مسافر زخمی ہیں۔

فون پر بات کرتے ہوئے مطیع اللہ نے بتایا کہ حادثے سے قبل انھیں سنائی دیے جانے والا چھوٹا دھماکہ شاید بس کا ٹائر پھٹنے کی آواز تھی۔ ’دھماکے کی آواز آنے کے چند منٹ بعد بس ایک موڑ پر پہنچ کر کھائی میں جا گری۔‘

یاد رہے کہ حکام کی جانب سے فی الحال یہ وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ بس کو حادثہ کن وجوہات کی بنا پر پیش آیا۔

حادثے میں زخمی ہونے والے ایک اور شخص فہیم عباسی نے بھی اسی نوعیت کی بات بتائی۔

فہیم کے مطابق ’میرا خیال ہے کہ شاید بس کا اگلا ٹائر اُس وقت پھٹا تھا جب ہم اُترائی کے تھے۔ اس کے بعد بس ڈرائیور کے قابو میں نہیں رہی تھی، بس کو روکنا اُن کے لیے شاید ممکن نہیں تھا۔‘

اس حادثے اور اس کے بعد ہونے والے ریسکیو آپریشن سے متعلق مزید تفصیلات جاننے کے لیے بی بی سی نے دیامیر ریسیکو 1122 کے انچارج محمد شوکت سے بات کی ہے جن کے مطابق حادثہ صبح پانچ بجے کے لگ بھگ پیش آیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہمیں ریسکیو سینٹر پر حادثے کی اطلاع 5:20 منٹ پر ملی۔ اس وقت ہم چلاس میں حادثے کے مقام سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر تھے۔ ریسکیو اہلکار اطلاع ملنے کے 20 منٹ کے اندر جائے حادثہ پر پہنچ چکے تھے۔‘

تصویر

اُنھوں نے بتایا کہ مسافر بس نیچے گہری کھائی میں گری تھی اور اوپر سڑک سے کچھ پتا نہیں چل رہا تھا۔ صبح کا وقت تھا اس لیے اس علاقے میں کوئی خاص آمد و رفت بھی نہیں تھی۔ ریسکیو کو متاثرہ بس کے پیچھے آنے والی گاڑی نے اس حادثے کی اطلاع اس وقت دی جب تھوڑا آگے چل کر وہ اس علاقے میں پہنچے جہاں موبائل نیٹ ورک کام کر رہا تھا۔‘

ریسکیو انچارج شوکت کا کہنا تھا کہ ’اس موقع ریسکیو اہلکاروں نے مقامی لوگوں کی مدد حاصل کرنے کے لیے مساجد میں اعلان کروائے جس کے بعد مقامی لوگ بڑی تعداد میں موقع پر پہنچ گئے۔ بعد میں فوج، گلگت بلتستان سکاؤٹس اور مقامی پولیس کے اہلکار بھی وہاں پہنچ گئے۔‘

انھوں نے کہا کہ مقامی لوگوں نے اس ریسکیو آپریشن میں بہت مدد کی۔ مقامی نوجوانوں کی مدد سے تقریبا ایک گھنٹے میں تمام زخمیوں اورہلاک ہونے والوں کو اوپر سڑک تک لایا گیا۔ بس سڑک سے نیچے چھ سو فٹ گہری کھائی میں پڑی تھی۔ بس دریا میں گرنے سے بچ گئی کیونکہ اس سے پہلے یہ ریت کے ایک ٹیلے سے ٹکرا کر رُک گئی تھی۔‘

انھوں نے کہا کہ حادثے میں بیس لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ زخمیوں کو فوجی ہیلی کاپٹرز کی مدد سے گلگت منتقل کیا گیا ہے جبکہ ہلاک شدگان کی شناخت کا عمل ابھی جاری ہے۔

چالاس ہسپتال انتظامیہ کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں بس ڈرائیور بھی شامل ہیں۔ اس طرح گلگت کے علاقے جلگوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک میاں بیوی بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ابھی تک 12 لاشوں کی شناخت ہو چکی ہے جبکہ آٹھ لاشوں کی شناخت کا عمل جاری ہے۔

بس حادثہ، راولپنڈی، پاکستان، قراقرم
،ریسکیو 1122 کو متاثرہ بس کے پیچھے آنے والی گاڑی نے اس حادثے کی اطلاع دی

شاہراہ قراقرم: دنیا کی ’بلند ترین پختہ سڑک‘

شاہراہ قراقرم اپنے مشکل گزار راستوں کے باعث معروف ہے۔

سڑکوں اور ہائی ویز پر مشتمل مواصلاتی نظام کی تعمیر سے قبل گلگت بلتستان سمیت ملک کے بیشتر شمالی علاقے دنیا بھر سے کٹے ہوئے تھے اور یہاں مقامی افراد کا طرز زندگی صدیوں پرانے طور طریقوں کے مطابق چلتا تھا۔ مگر یہاں تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ قراقرم ہائی وے کی تعمیر ہے جو دنیا کی ’بلند ترین پختہ سڑک‘ کہلائی جاتی ہے۔

چین کے سرحدی علاقے کاشغر سے شروع ہونے والی یہ شاہراہ خنجراب پاس کے مقام پر پاکستان میں داخل ہوتی ہے اور پھر ملک کے مختلف حصوں سے ہوتی ہوئی حسن ابدال میں جی ٹی روڈ سے جُڑ جاتی ہے۔

شاہراہ قراقرم کی تعمیر کا آغاز 1966 میں ہوا اور اس کی تکمیل سنہ 1978 میں ہوئی۔ 1300 کلومیٹر طویل اس شاہراہ کی بنیاد قدیم شاہراہ ریشم تھی۔ اس شاہراہ کا 887 کلومیٹر کا حصہ پاکستان جبکہ 400 کلومیٹر سے زائد حصہ چین میں ہے۔

اس شاہراہ کی منصوبہ بندی سے لے کر تعمیر تک ہر قدم ایک چیلنج تھا۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے دو سال قبل اس شاہراہ کی تعمیر سے متعلق ایک دستاویزی فلم جاری کی ہے جس میں اس دور کے کچھ نایاب مناظر بھی دکھائے گئے ہیں۔

بس حادثہ، راولپنڈی، پاکستان، قراقرم
،شاہراہ قراقرم کی تعمیر کا آغاز 1966 میں ہوا اور اس کی تکمیل سنہ 1978 میں ہوئی (فائل فوٹو)

دستیاب اعدادوشمار کے مطابق موسم کی شدت، شدید برفباری اور لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آ کر اس سڑک پر کام کرنے والوں میں سے 800 سے زائد پاکستانی جبکہ 80 سے زائد چینی شہری تعمیر کے مختلف مراحل کے دوران ہلاک ہوئے۔

قراقرم کی سخت پتھریلی چٹانوں میں رستے بنانے کے لیے آٹھ ہزار ٹن ڈائنامائیٹ استعمال ہوا اور شاہراہ کی تکمیل تک 30 ملین کیوسک میٹر سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹا گیا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں