’میں جانتا ہوں کہ جب ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی بات آتی ہے تو میرا نام دنیا کے مختلف حصوں میں کھیل کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاہم میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے اندر اب بھی ٹی 20 کرکٹ موجود ہے۔‘
جیسا کہ توقع تھی وراٹ کوہلی کے اس بیان نے سوشل میڈیا پر کافی سرخیاں لگائی ہیں۔ گذشتہ چند ماہ سے وراٹ کوہلی اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے فعال کرکٹ سے دور تھے۔
حال ہی میں وہ انگلینڈ کے خلاف پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں بھی نہیں کھیلے تھے۔
دریں اثنا مسلسل قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ وراٹ کوہلی کا جون میں ہونے والے ٹی 20 ورلڈ کپ کے لیے انتخاب مشکل ہو سکتا ہے۔
کوہلی کے خیالات
آپ کو یاد دلانا ضروری ہے کہ چند ہفتے قبل انڈین کرکٹ بورڈ ( بی سی سی آئی) کے سیکریٹری جے شاہ نے امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں ہونے والے ورلڈ کپ کے لیے روہت شرما کو کپتانی کی ذمہ داری سونپ دی تھی، تاہم وہ اس ٹورنامنٹ میں کوہلی کے کھیلنے کے سوال کو ٹال گئے تھے۔
اس کے بعد ذرائع کے حوالے سے مختلف میڈیا رپورٹس میں ایسی خبریں شائع ہوئیں، جن میں بار بار یہ دلیل دی گئی کہ وراٹ کوہلی کو ورلڈ کپ ٹیم میں جگہ نہیں ملتی۔
یہ اور بات ہے کہ سابق کوچ اور وراٹ کوہلی کے بہت قریب سمجھے جانے والے روی شاستری نے بھی اس ہفتے کمنٹری کے دوران کہا تھا کہ آنے والے ورلڈ کپ میں نوجوان کھلاڑیوں اور فارم کو اہمیت دی جانی چاہیے نہ کہ شہرت کو۔
اگرچہ انھوں نے براہ راست وراٹ کوہلی کا نام نہیں لیا، لیکن اشارہ واضح تھا کیونکہ انگلینڈ کے سابق کپتان کیون پیٹرسن جو کمنٹری بھی کر رہے تھے نے کہا کہ ٹیم انڈیا یہ کیسے سوچ سکتی ہے کہ ٹی 20 کو فروغ دینے والے وراٹ کوہلی اور ان کے برانڈ جیسے لیجنڈز ورلڈ کپ کی ٹیم میں نہیں ہیں؟
کوہلی کو پنجاب کنگز کے خلاف 49 گیندوں میں 77 رنز کی اننگز کھیلنے پر میچ کا بہترین کھلاڑی منتخب کیا گیا۔
وراٹ کوہلی جب ہرشا بھوگلے کے پاس انٹرویو کے لیے آئے تو صاف ظاہر تھا کہ اتنے بڑے موقع پر وہ اپنی بات کہیں گے۔ ایسے دل کے خیالات جو شائقین تک نہیں بلکہ بی سی سی آئی سلیکٹرز تک پہنچیں گے۔
اس بیان کے بعد کوہلی نے مکمل طور پر گیند چیف سلیکٹر اجیت اگرکر اور ان کے ساتھیوں کے کورٹ میں ڈال دی ہے۔
شاید وراٹ کوہلی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ اب بھی ٹیم کے کپتان روہت شرما اور کوچ راہول ڈریوڈ کے ورلڈ کپ پلانز میں فٹ بیٹھتے ہیں، لیکن سلیکٹرز کچھ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
سب سے بڑا سوال
اس میں کوئی شک نہیں کہ سنہ 2021 اور سنہ 2022 میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شکست کے لیے انڈیا کے ٹاپ آرڈر (روہت، کے ایل راہول، کوہلی) کی تینوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
تینوں نے پہلے کھیلتے ہوئے ایک ہی انداز میں بلے بازی کی۔ ون ڈے ورلڈ کپ کے دوران کپتان روہت نے مکمل طور پر جارحانہ رویہ اپنایا اور 50 اوور کی کرکٹ میں بھی 20 اوور کی کرکٹ کھیلنا شروع کر دی۔
بائیں ہاتھ سے کھیلنے والے یشسوی جیسوال کے ایل راہول سے بہتر آپشن نظر آتے ہیں۔ اب سلیکٹرز کے سامنے سوال یہ ہے کہ کوہلی یا شبمن گل کو تیسرے نمبر پر منتخب کیا جانا چاہیے۔
کیونکہ مڈل آرڈر میں سوریہ کمار یادو، ہاردک پانڈیا، وکٹ کیپر بلے باز رویندرا جدیجا کی جگہ یقینی ہے۔
اگر کوہلی یا گل کھیلتے ہیں تو رنکو سنگھ کو چھٹے نمبر پر ’فِنشر‘ کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
ایسے میں اگر ضروری ہو تو آپ گِل کو پلیئنگ الیون سے باہر رکھ سکتے ہیں لیکن کوہلی کو نہیں۔ کوہلی کے ٹیم میں برقرار رہنے کے سوال کو لے کر یہاں سے بحث شروع ہوئی۔
کوہلی کے حامی اور روہت کے ناقدین یہ بحث ختم کرنے کو تیار نظر نہیں آتے کہ اگر تجربہ کار کھلاڑی کے طور پر موجودہ کپتان کو میچ ونر سمجھا جا رہا ہے تو پھر سابق کپتان کے ساتھ سوتیلی ماں والا رویہ کیوں؟
اوسط اور سٹرائیک ریٹ دونوں کے لحاظ سے کوہلی کا مجموعی ریکارڈ روہت سے بہتر ہے۔
لیکن بی سی سی آئی اور سلیکٹرز کا ماننا ہے کہ روہت بھی اس ٹیم میں نہ ہوتے اگر ہاردک پانڈیا ون ڈے ورلڈ کپ کے دوران زخمی نہ ہوتے اور روہت اچانک اپنے کھیل میں اتنی بڑی تبدیلی نہ لاتے۔
مسئلہ یہ ہے کہ دونوں عظیم کھلاڑیوں کو پلیئنگ الیون میں ایک ساتھ رکھنے سے ٹیم کا توازن بگڑ جاتا ہے۔
سلیکٹرز کا مسئلہ
وراٹ کوہلی جانتے ہیں کہ اگر روہت ورلڈ کپ کا حصہ ہیں تو کوئی بھی انھیں کسی صورت ٹیم سے نہیں نکال سکتا۔
کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ نام نہاد سست سٹرائیک ریٹ کے باوجود اپنی مہارت اور تجربے کی بدولت انھوں نے ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں کسی بھی کھلاڑی سے زیادہ میچ وننگ اننگز کھیلی ہیں۔
آخر میلبورن میں سنہ 2022 ورلڈ کپ کے دوران پاکستان کے خلاف اس کی تاریخی اننگز کو کوئی کیسے بھول سکتا ہے۔
مجموعی طور پر وراٹ کوہلی نے شاندار اننگز کھیل کر سلیکٹرز کو چیلنج کیا ہے۔
چونکہ کوہلی بنگلور کے لیے اوپنر کا کردار ادا کر رہے ہیں، اس لیے ان کی دلیل یہ بھی ہونی چاہیے کہ انھیں روہت کے ساتھ اوپنر کے طور پر دیکھا جائے۔
لیکن سلیکٹرز کے لیے مسئلہ یہ ہوگا کہ ان دونوں کھلاڑیوں نے اوپننگ پارٹنر کے طور پر ایک ساتھ صرف چند میچ کھیلے ہیں۔
اگر کوہلی آنے والے ہفتوں میں اپنے سٹرائیک ریٹ کے ساتھ دوبارہ جدوجہد کرتے ہیں تو سلیکٹرز کی دلیل الٹ سکتی ہے۔
سلیکٹرز یہ بھی توجیح پیش کر سکتے ہیں کہ کوہلی کے رنز اور آئی پی ایل میں فارم ایک اوپنر کے طور پر ہے جبکہ ٹیم انڈیا کے لیے ان کا کردار تیسرے نمبر پر آنے والے بلے باز کا ہے۔
کوہلی کے انتخاب کا مسئلہ حل ہونے کے بجائے اب سلیکٹرز کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے۔
وراٹ کوہلی کے تازہ بیان سے سلیکٹرز کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر بی سی سی آئی کے سربراہوں نے (بالواسطہ) سلیکٹرز کو ٹی-20 فارمیٹ میں کوہلی کی جگہ کسی نوجوان کھلاڑی کو منتخب کرنے کا پیغام دیا ہے، تو شاید اگرکر کو یہ مشکل فیصلہ لینے میں کچھ سکون ملے گا۔
لیکن پھر بھی کوچ ڈریوڈ اور کپتان روہت مداحوں کے سامنے اپنا دفاع کیسے کر پائیں گے کہ وراٹ کوہلی کی جگہ واقعی پلیئنگ الیون میں نہیں ہے۔
مجموعی طور پر معاملہ دلچسپ ہو گیا ہے اور آئی پی ایل کے آنے والے چند ہفتے وراٹ کوہلی کے بلے کے لیے بہت اہم ہوں گے۔