غزہ پر اسرائیلی بمباری کے ہفتوں بعد 16 نومبر کو شمالی غزہ کے جہاد المشراوی اپنے خاندان کو لے کر اپنے گھر سے چلے گئے۔ بی بی سی عربی کے کیمرہ مین جہاد المشراوی نے اپنی نقل مکانی اور اس مشکل سفر کے بارے میں چونکا دینے والی تفصیلات بتائیں ہیں۔
انتباہ: اس مضمون میں شامل تفصیلات چند قارئین کے لیے باعث تکلیف ہو سکتی ہیں۔
ہم بہت جلدی میں گھر سے نکلے تھے۔ ہم اس وقت روٹیاں پکا رہے تھے جب ہمیں احساس ہوا کہ ہمارے سامنے والے گھروں پر ایک ایک کر کے بمباری ہو رہی ہے۔ میں جانتا تھا کہ جلد ہی ہماری باری بھی آ جائے گی۔ ہم نے اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلے ہی کچھ سامان باندھ رکھا تھا لیکن یہ سب کچھ اتنا جلدی میں ہوا کہ ہم وہ ساتھ لانا ہی بھول گئے۔ ہم نے تو حتیٰ کہ اپنے گھر کا مرکزی دروازہ بھی بند نہیں کیا۔
ہم نے اس لیے وہاں سے نکلنے کا انتظار کیا کیونکہ ہم بزرگ والدین کو وہاں سے نہیں ہلانا چاہتے تھے اور دوسرا ہم نے برسوں بچت کر کے الزیتون کے علاقے میں اپنا گھر بنایا تھا لیکن ہمیں اسے چھوڑ کر آنا پڑا۔
میرے چھوٹے بیٹے عمر کی وہاں نومبر سنہ 2012 میں ہلاکت ہو گئی تھی جب اسرائیل کے ساتھ ایک اور جنگ میں گولے کا تیز شارپنل ہمارے گھر پر آ لگا تھا۔ اب کی بار میں اپنے مزید بچے کھونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔
میں جانتا تھا کہ جنوبی غزہ میں بجلی نہیں، پانی نہیں اور لوگوں کو بیت الخلا استعمال کرنے کے لیے گھنٹوں قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے لیکن آخر کار صرف پانی کی بوتل اور کچھ بچ جانے والی روٹی لے کر ہم نے ہزاروں دوسرے لوگوں کے ساتھ صلاح الدین روڈ سے جنوبی عزہ کی طرف وہ خطرناک سفر کیا جس کے بارے میں اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ محفوظ ہے۔
میرے خاندان کے بہت سے افراد جن میں میری بیوی اہلحم، میرے چاروں بیٹے جن کی عمریں بالرتیب دو، آٹھ، نو اور 14 برس ہیں، میرے بھائی، والدین، بہنیں، کزنز اور ان کے بچے شامل ہیں، میرے ساتھ پیدل سفر کررہے تھے۔
صلاح الدین روڈ پر سفر کا تجربہ
ہم گھنٹوں پیدل چلتے رہے اور جانتے تھے کہ آخر کار ہمیں ایک اسرائیلی چوکی سے گزرنا پڑے گا جو جنگ کے دوران قائم کی گئی تھی۔ ہم گھبرائے ہوئے تھے اور میرے بچے مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ ’فوج ہمارے ساتھ کیا کرے گی؟‘
ہم چوکی سے تقریباً دو تہائی میل کے فاصلے پر ایک سٹاپ پر رک گئے اور لوگوں کی ایک بڑی قطار میں شامل ہو گئے جس نے پوری سڑک کو بھر دیا۔ ہم نے وہاں چار گھنٹے سے زیادہ انتظار کیا اور میرے والد تین بار بیہوش ہوئے۔
سڑک کے ایک طرف بم زدہ عمارتوں اور دوسری طرف خالی زمین پر سے اسرائیلی فوجی ہمیں دیکھ رہے تھے۔
جب ہم چوکی کے قریب پہنچے تو ہم نے ایک پہاڑی پر بنے ایک خیمے میں مزید فوجیوں کو دیکھا۔ ہمارا خیال ہے کہ وہ وہاں دور سے چوکی کو منظم کر رہے تھے، وہ دوربین کے ذریعے ہمیں دیکھ رہے تھے اور لاؤڈ سپیکر کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔
خیمے کے قریب دو کھلے ہوئے کنٹینر تھے۔ تمام مردوں کو ایک اور خواتین کو دوسرے سے کنٹینر سے گزرنا پڑا جہاں کیمرے مسلسل ہم پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ جب ہم وہاں سے گزرے تو اسرائیلی فوجیوں نے ہمارے شناختی کارڈ دیکھنے کو کہا اور ہماری تصویریں بنائی گئیں۔
یہ قیامت کے دن جیسا تھا۔
میں نے وہاں تقریباً 50 افراد کو حراست میں دیکھا، یہ تمام مرد تھے جن میں میرے دو پڑوسی بھی شامل تھے۔ اس چیک پوسٹ پر ایک نوجوان کو روکا گیا کیونکہ اس کے کاغذات گم ہو گئے تھے اور اسے اپنا شناختی کارڈ نمبر یاد نہیں تھا۔ قطار میں میرے ساتھ موجود ایک اور شخص کو لے جائے جانے سے پہلے ایک اسرائیلی فوجی نے دہشت گرد کہا۔
انھیں اپنے زیر جامہ اتار کر برہنہ ہونے اور سامنے زمین پر بیٹھنے کے لیے کہا گیا۔ ان میں سے بعض کو بعد میں کپڑے پہننے اور وہاں سے چلے جانے کا بھی کہا گیا جبکہ دیگر کی آنکھوں پر پٹیاں باندھی گئیں تھیں۔ میں نے اپنے پڑوسیوں سمیت چار افراد کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر ایک تباہ شدہ عمارت سے ریت کی پہاڑی کے پیچھے لے جاتے دیکھا۔ جب وہ نظروں سے اوجھل ہوئے تو ہم نے گولی چلنے کی آواز سنی۔ مجھے نہیں معلوم کہ انھیں گولی ماری گئی یا نہیں۔
اس کے علاوہ میرے جیسا سفر کرنے والے دوسرے لوگوں سے قاہرہ میں میرے ایک ساتھی نے رابطہ کیا۔ ان میں سے ایک کمال الجوجو نے بتایا کہ ایک ہفتے قبل جب وہ چوکی سے گزرے تو انھوں نے کچھ لاشیں دیکھی تھیں لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کی موت کیسے ہوئی۔
میرے ایک ساتھی نے محمد نامی شخص سے بھی بات کی جو 13 نومبر کو اسی چوکی سے گزرا۔ محمد نے بتایا کہ ’ایک فوجی نے مجھ سے اپنے تمام کپڑے یہاں تک کہ زیر جامہ بھی اتارنے کو کہا۔‘
’میں وہاں سے گزرنے والے تمام افراد کے سامنے برہنہ تھا۔ مجھے شرم محسوس ہوئی کہ اچانک ایک اسرائیلی خاتون فوجی نے اپنی بندوق میری طرف کی اور اسے جلدی سے ہٹانے سے پہلے ہنس پڑی۔ میری تذلیل کی گئی۔‘
محمد نے کہا کہ انھیں تقریباً دو گھنٹے تک برہنہ حالت میں انتظار کرنا پڑا جس کے بعد اسے جانے کی اجازت ملی۔
البتہ میری بیوی، بچے، والدین اور میں سب بحفاظت چوکی سے گزر گئے لیکن میرے دو بھائیوں کو تاخیر ہوئی۔ جب ہم ان کا انتظار کر رہے تھے تو ایک اسرائیلی فوجی نے ہمارے سامنے موجود لوگوں کے ایک گروہ پر جو کنٹینرز کی طرف واپس جانے کی کوشش کر رہے تھے چیخ کر آگے جانے کا کہا۔ وہ افراد اپنے حراست میں رکھے گئے رشتہ داروں کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہے تھے۔
اس فوجی نے لاؤڈ سپیکر کا استعمال کرتے ہوئے انھیں آگے بڑھنے اور کم از کم 300 میٹر دور رہنے کے لیے کہا، پھر ایک سپاہی نے انھیں ڈرانے کے لیے ان کی سمت ہوائی فائرنگ شروع کی۔ جب ہم قطار میں کھڑے تھے تو ہم نے بہت سی گولیاں چلنے کی آوازیں سنی تھیں۔
اس وقت سب رو رہے تھے اور میری والدہ بلک رہی تھیں کہ ’میرے بیٹوں کو کیا ہوا؟ کیا انھوں نے انھیں گولی مار دی؟‘ تقریباً ایک گھنٹے سے زائد وقت کے بعد میرے بھائی سامنے آ گئے۔
اسرائیل ڈیفینس فورسز (آئی ڈی ایف) نے بی بی سی کو بتایا کہ ’دہشت گرد تنظیموں سے وابستگی کے شبہ میں افراد‘ کو ابتدائی پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا تھا اور اگر وہ مشتبہ تھے تو انھیں مزید پوچھ گچھ کے لیے اسرائیل منتقل کر دیا گیا۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ دوسروں کو ’فوری طور پر رہا کر دیا گیا تھا۔‘
اسرائیل ڈیفینس فورسز کا کہنا ہے کہ ان افراد کو برہنہ اس لیے کیا گیا تاکہ ان کے پاس خود کش جیکٹس، دھماکہ خیز مواد کو چیک کیا جا سکے اور انھیں جتنا جلد ممکن ہوا لباس دے دیا گیا تھا۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد ’زیر حراست افراد کی عزت نفس اور تحفظ کو مجروح کرنا نہیں تھا اور اسرائیلی فوج بین الاقوامی قوانین کے تحت کام کرتی ہے۔‘
اسرائیلی فوج کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ’شمال سے جنوب کی طرف انسانی ہمدردی کی راہداری میں سفر کرنے والے شہریوں پر گولی نہیں چلاتی‘ لیکن جب نوجوانوں نے مخالف سمت میں جانے کی کوشش کی تو انھیں ’منتشر کرنے کے مقصد کے لیے ہوائی فائرنگ کا استعمال کرنا پڑا۔ لاؤڈ سپیکر سے اعلانات کیے گئے کہ فوجیوں کی پوزیشن کی طرف نہ بڑھیں اور ایسا کرتے رہے۔‘
اس بیان میں مزید کہا گیا کہ گولیاں چلنے کی آوازیں عام بات ہیں اور صرف گولی چلنے کی آواز کسی خاص جگہ یا کسی خاص قسم کی شوٹنگ کا اشارہ نہیں دیتی۔‘
جب ہم فوجی چوکی سے آگے بڑھے اور چوکی ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئی تو میں اور میری بیوی نے سکون محسوس کیا لیکن ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ سفر کا مشکل ترین حصہ ابھی آنا ہے
جب ہم مزید جنوب کی طرف بڑھے تو میں نے سڑک کے کنارے مختلف جگہوں پر تقریباً 10 لاشیں دیکھیں جبکہ باقی بکھرے ہوئے گلے سڑے جسم کے اعضا مکھیوں سے ڈھکے ہوئے تھے جنھیں پرندے نوچ رہے تھے۔ ان سے تعفن اور بدبو اٹھ رہی تھی جس کا میں نے پہلے کبھی تجربہ نہیں کیا تھا۔
میں یہ خیال بھی برداشت نہیں کر سکا کہ میرے بچے یہ سب کچھ دیکھیں گے اور میں نے اپنی پوری قوت سے چیخ کر ان سے کہا کہ آسمان کی طرف دیکھو اور چلتے رہو۔
میں نے راستے میں ایک جلی ہوئی کار کو دیکھا جس کے اندر ایک انسانی لاش کا سر کٹا ہوا تھا۔ سرکٹی گلی سڑی لاش کے ہاتھوں نے ابھی تک کار کے سٹیئرنگ کو تھام رکھا تھا۔
وہاں راستے میں مردہ گدھوں اور گھوڑوں کی لاشیں بھی تھیں جبکہ کچھ کے صرف ڈھانچے رہ گئے تھے اور کوڑے کے ڈھیر اور خراب خوراک بھی بکھری پڑی تھی۔
اسی اثنا میں ایک اسرائیلی ٹینک ایک برابر والی سڑک پر سے نمودار ہوا جو انتہائی تیز رفتاری سے ہماری طرف بڑھ رہا تھا۔ ہم خوفزدہ تھے اور بھاگنے کے لیے ہمیں لاشوں کے اوپر سے بھاگنا پڑا۔ ہجوم میں سے کچھ لوگ لاشوں پر گر گئے۔ ٹینک نے مین روڈ تک پہنچنے سے تقریباً 20 میٹر پہلے اپنا راستہ بدلا۔
پھر اچانک سڑک کے ساتھ بنی ایک عمارت میں بم دھماکہ ہوا۔ دھماکا خوفناک تھا اور ہر طرف چھرے اڑنے لگے۔ اس وقت میں نے چاہا کہ زمین پھٹے اور ہم دفن ہو جائیں۔
اس واقعے سے ہم لرز کر رہ گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس وقت تک ہم تھک چکے تھے لیکن نصرت کیمپ کی طرف چلتے رہے۔ جب شام کو ہم وہاں پہنچے تو ہمیں فرش پر سونا پڑا۔ فرش سردی سے جم رہا تھا۔
میں نے اپنی جیکٹ اپنے بیٹوں کو دی اور ان کے ہاتھوں کو جیکٹ کے بازوؤں میں ڈال کر انھیں گرم رکھنے کی کوشش کی۔ میں نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو اپنی قمیض سے ڈھانپ لیا۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی اتنی ٹھنڈ نہیں پڑتی دیکھی۔
جب بی بی سی نے اسرائیلی فوج سے ٹینک اور لاشوں کے بارے میں پوچھا تو اس کا کہنا تھا کہ ’دن کے وقت ٹینک ان راستوں پر حرکت کرتے ہیں جو صلاح الدین روڈ سے ملتے ہیں لیکن ایسا کوئی معاملہ نہیں تھا کہ ٹینک غزہ میں انسانی ہمدردی کی راہداری پر شمال سے جنوب کی طرف جانے والے شہریوں کی طرف بڑھے۔‘
اسرائیلی فوج نے کہا کہ اسے صلاح الدین روڈ پر لاشوں کے ڈھیروں کے بارے میں کوئی علم نہیں لیکن ایسے وقت بھی آئے جب غزان کی گاڑیاں ’سفر کے دوران لاشوں کو چھوڑ دیتی تھیں، جنھیں آئی ڈی ایف نے بعد میں نکال لیا۔‘
محفوظ جگہ کی تلاش
اگلی صبح ہم غزہ کے دوسرے بڑے شہر خان یونس کے لیے روانہ ہوئے۔ ہم نے کسی کو رقم ادا کی کہ وہ ہمیں گدھا گاڑی میں لے جائے۔ اس کے بعد دیر البلاح میں ہم ایک بس میں سوار ہوئے جس میں صرف 20 افراد کے سوار ہونے کی گنجائش تھی لیکن اس پر بھی 30 افراد سوار تھے۔ کچھ چھت پر بیٹھ گئے اور کچھ باہر سے دروازوں اور کھڑکیوں کے ساتھ لٹک گئے۔
خان یونس میں ہم نے اقوام متحدہ کے زیر انتظام سکول میں رہنے کے لیے ایک محفوظ جگہ تلاش کرنے کی کوشش کی جسے پناہ گاہ میں تبدیل کر دیا گیا تھا لیکن وہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہم نے اس کے بجائے ایک رہائشی عمارت کے نیچے ایک گودام کرائے پر لے لیا اور ایک ہفتے تک وہاں رہے۔
میرے والدین، بھائی اور بہنوں نے خان یونس میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا لیکن مقامی بازار میں بم دھماکے کے بعد میں اور میری اہلیہ نے اپنے بچوں کو مزید جنوب میں رفح لے جانے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ رہیں۔
وہ ایک کار میں لفٹ لینے میں کامیاب ہو گئے اور میں بعد میں بس کے ذریعے ان کے ساتھ شامل ہو گیا لیکن یہ بس اتنی بھری ہوئی تھی کہ مجھے دروازے کے باہر لٹکنا پڑا۔
اب ہم ٹین اور پلاسٹک سے بنی چھت والے ایک چھوٹے سے عارضی گھر میں رہتے ہیں۔ ہمیں یہاں بمباری سے اڑنے والے چھروں سے بچانے کے لیے کچھ نہیں۔
یہاں ہر چیز بہت مہنگی ہے اور ہم اپنی ضرورت کی بہت سی چیزیں حاصل نہیں کر سکتے۔ اگر ہم پینے کا پانی چاہتے ہیں تو ہمیں تین گھنٹے قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے اور ہمارے پاس دن میں تین وقت کے کھانے کے لیے کافی کھانا نہیں ہوتا، اس لیے ہم دوپہر کا کھانا نہیں کھاتے صرف ناشتہ اور رات کا کھانا کھاتے ہیں۔
میرا بیٹا ہر روز ایک انڈا کھاتا تھا۔ صرف ایک انڈا۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ میں اسے اب یہ بھی نہیں دے سکتا۔ میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ غزہ چھوڑ کر اپنے بچوں کے ساتھ محفوظ رہوں، چاہے اس کا مطلب خیمے میں رہنا ہی کیوں نہ ہوں۔