آسٹریلوی کرکٹرعثمان خواجہ نے کہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حمایتی پیغام والے جوتے پہننے کی اجازت نہ دیے جانے کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں لیکن وہ کوشش کرتے رہیں گے کہ انھیں اس اقدام کی اجازت مل جائے۔
عثمان خواجہ نے پاکستان کے خلاف پہلے کرکٹ ٹیسٹ میچ میں ایسے جوتے پہننے کا ارادہ ظاہر کیا تھا جن پر ‘تمام زندگیاں برابر ہیں’ اور ‘آزادی ایک انسانی حق ہے’ جیسے الفاظ تحریر ہیں۔
آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے انھیں متنبہ کیا کہ وہ اس حرکت سے باز رہیں۔ آسٹریلین کرکٹ اتھارٹی نے کہا ہے کہ خواجہ کو ‘ذاتی پیغامات’ پر پابندی کے کرکٹ کے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرنی چاہیے۔
بدھ کو انسٹا گرام پر ایک ویڈیو میں 36 سالہ پاکستانی نژاد آسٹریلوی کرکٹر نے کہا ہے کہ آئی سی سی ان پیغامات کو ’سیاسی‘ سمجھتی ہے جبکہ ان کے جوتوں پر تحریر پیغام صرف ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اپیل ہے‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں (آئی سی سی کے) اس نقطۂ نظر اور فیصلے کا احترام کرتا ہوں لیکن میں اس کی اجازت لینے کے لیے لڑوں گا۔‘
اس سے قبل کئی دوسرے کھلاڑی بھی فلسطین کی حمایت میں بات کر چکے ہیں اور انھیں اس پر تادیبی کارروائی کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔
ایسے ہی ایک کھلاڑی پاکستان کے کرکٹر اعظم خان ہیں جنھیں پاکستان میں ہونے والی کرکٹ کی ایک قومی لیگ کے دوران بلے پر فلسیطینی جھنڈے کا سٹیکر لگانے پر پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے جرمانے کا سامنا کرنا پڑا تاہم بعد میں پی سی بی نے اپنا یہ فیصلہ واپس لے لیا تھا۔
ان کے علاوہ فلسطین کی حمایت کے نیتجے میں کئی شوبز اداکاروں اور کھلاڑیوں کو سرزنش کے ساتھ ساتھ معطلی اور معاہدوں کی منسوخی جیسی سزاؤں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
خواجہ کا تبصرہ
خواجہ کو رواں ہفتے کے اوائل میں پرتھ میں آنے والے ٹیسٹ کی تربیت کے دوران ایسے جوتے کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا گیا تھا اور اس سے قبل انھوں نے غزہ میں لوگوں کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر پوسٹس شیئر کی تھیں۔
انھوں نے یونیسیف انسٹاگرام ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ’کیا لوگوں کو معصوم انسانوں کے مارے جانے کی پرواہ نہیں ہے؟ یا کیا ان کی جلد کا رنگ ان کی اہمیت کم کر دیتا ہے؟ یا وہ جس مذہب پر عمل پیرا ہیں؟ یہ چیزیں بے معنی ہونی چاہیے اگر آپ واقعی یہ مانتے ہیں کہ ’ہم سب برابر ہیں‘۔‘
لیکن بدھ کے روز خواجہ کے منصوبوں کا پتہ چلنے کے بعد کرکٹ آسٹریلیا نے ایک بیان جاری کیا جس میں یہ کہا گيا کہ ’ہم اپنے کھلاڑیوں کے ذاتی رائے کے اظہار کے حق کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن آئی سی سی (انٹرنیشنل کرکٹ کونسل) کے قوانین موجود ہیں جو کھلاڑیوں پر ذاتی پیغامات کی نمائش پر پابندی لگاتے ہیں۔ اور ہم کھلاڑیوں سے اس کی پابندی کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔‘
آسٹریلوی کپتان کمنز نے بعد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی ٹیم خواجہ کی حمایت کرتی ہے۔
انھوں نے کہا: ’مجھے لگتا ہے کہ وہ ’سب زندگی برابر ہے‘ کا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ بہت زیادہ تفرقہ انگیز ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ کسی کو اس کے بارے میں بہت زیادہ شکایتیں ہو سکتی ہیں۔‘
کمنز نے یہ بھی کہا کہ خواجہ کا کوئی ’خاص ہنگامہ آرائی‘ کا ارادہ نہیں تھا اور آئی سی سی کے قوانین سے آگاہ ہونے کے بعد انھوں نے میدان میں جوتے نہ پہننے کا فیصلہ کیا ہے۔
’میرے لیے ایک یہودی اور ایک مسلمان کی زندگی برابر ہیں‘
عثمان خواجہ نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ’میرے لیے تمام انسان برابر ہیں۔
’(میرے لیے) ایک یہودی، ایک مسلمان اور ہندو برابر ہیں۔۔۔ میں ان کے لیے آواز اُٹھا رہا ہوں جو اپنے حق کے لیے آواز نہیں اٹھا پا رہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ یہ معاملہ ان کے دل کے قریب ہے۔ ’جب میں دیکھتا ہوں کہ ہزاروں بچے مر رہے ہیں تو مجھے اپنی دو بچیوں کا خیال آتا ہے۔ یہ سب ان کے ساتھ بھی ہوسکتا تھا۔ کوئی خود اس چیز کا فیصلہ نہیں کرتا کہ اسے کہاں پیدا ہونا ہے۔‘
آسٹریلوی کرکٹر نے کہا کہ دنیا نے اس مسئلے سے اپنا منھ موڑ لیا ہے اور یہ ان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔‘
وہ یاد کرتے ہیں کہ بچپن میں انھیں لگتا تھا کہ ان کی زندگی کی اتنی اہمیت نہیں مگر خود قسمتی سے جہاں وہ پلے بڑھے وہاں اس قدر عدم مساوات نہیں تھا۔
عثمان خواجہ آئی سی سی کے اعتراض سے اتفاق نہیں کرتے کیوںکہ ’یہ انسانی حقوق کی اپیل ہے۔۔۔ آزادی ایک انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔‘
آئی سی سی کے ضوابط کیا ہیں؟
آئی سی سی کے ضوابط کے مطابق کسی خاص حکومت، سیاسی جماعت یا فرد کی حمایت کی طرف اشارہ کرنے والے پیغامات پر پابندی ہے۔
’سیاسی، مذہبی یا نسلی مقصد‘ کے لیے کسی بھی قسم کے پیغام کے حوالے سے آئی سی سی کے ضوابط کے ساتھ منسلک ایک نوٹ میں کہا گیا کہ آئی سی سی اور اس کے ممبران تسلیم کرتے ہیں اور اتفاق کرتے ہیں کہ کرکٹ کو دنیا بھر کے لوگوں اور برادریوں کو ایک ساتھ لانے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے نہ کہ تقسیم کرنے والے سیاسی مسائل کی طرف توجہ مبذول کرنے کے پلیٹ فارم کے طور پر یا بیان بازی کے لیے۔
آئی سی سی رولز کے مطابق کسی بھی کھلاڑی کے کپڑے، شرٹس، ٹی شرٹس، پتلون، سویٹر، ٹوپیوں، ہیلمٹ، کلائی کے بینڈز، ہیڈ بینڈ، چشموں یا دیگر ہیڈ گیئر پر صرف منظور شدہ لوگو ہی لگائے جا سکیں گے۔
آئی سی سی کرکٹ کے آلات جیسا کہ سٹمپس، بیٹ، پیڈ، جوتوں، دستانوں، دیگر نظر آنے والی حفاظتی اشیا پر بھی صرف آئی سی سی کے منظور شدہ لوگو لگانے کی اجازت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی بین الاقوامی کرکٹ ایونٹ ہے تو اس کا لوگو بھی آئی سی سی منظور شدہ ہو گا۔
کھلاڑیوں کے بیٹس کے حوالے سے آئی سی سی کے ضوابط کے مطابق اس پر کسی کھلاڑی کے سپانسر کا صرف منظور شدہ لوگو ہو سکتا ہے۔
آئی سی سی کے ضوابط کے مطابق کوئی بھی لباس یا سازوسامان جو ان ضوابط کی تعمیل نہیں کرتا ہے، سختی سے ممنوع ہے۔ خاص طور پر کرکٹ کے کپڑوں یا کرکٹ کے سازوسامان پر قومی لوگو، تجارتی لوگو، ایونٹ لوگو، مینوفیکچررز کا لوگو، کھلاڑی کا بیٹ لوگو، چیریٹی لوگو یا نان کمرشل لوگو کے علاوہ کسی بھی لوگو کو ظاہر کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
اس کے علاوہ، جہاں کوئی میچ آفیشل کسی ایسے لباس یا سازوسامان کے بارے میں آگاہ ہوتا ہے جو ان ضوابط کی تعمیل نہیں کرتا ہے، تو وہ ایسے شخص کو کھیل کے میدان میں جانے سے روکنے کا مجاز ہو گا۔
ان قواعد و ضوابط کے تحت کسی بھی فرد کے لیے کوئی لباس پہننا یا کسی بھی ایسے سامان کا استعمال کرنا ممنوع ہو گا جو تبدیل یا آلٹر کیا گیا ہو اور کسی بھی طرح سے میچ آفیشل کی رائے میں اس پیشہ ورانہ معیار کو نقصان پہنچائے جو تمام کھلاڑیوں کے لیے ضروری ہیں۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
سوشل میڈیا خواجہ کے ارادے اور آسٹریلین کرکٹ کے فیصلے پر منقسم نظر آ رہا ہے۔ کچھ لوگ عثمان خواجہ کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ کچھ لوگ انھیں میدان میں کرکٹ تک محدود رہنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
ایک صارف نے آئی سی سی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ایک میم شیئر کیا ہے کہ ’بلیک لائیوز میٹر‘ کے معاملے پر تو آئی سی سی نے شاباشی دی تھی جبکہ عثمان خواجہ کو چپ کروایا جا رہا ہے۔‘
جبکہ رابرٹ ایشلی نامی صارف نے لکھا کہ ‘تمام زندگیاں برابر ہیں’ کو کسی کی رائے سمجھ کر مسترد نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے آفاقی سچ سمجھ کر اس کی پزیرائی کرنی چاہیے۔’
لیکن بہت سے لوگوں نے عثمان خواجہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ان پر حماس کی حمایت کا الزام لگایا ہے۔