کپڑے لٹکانے کے لیے استعمال ہونے والے ہکس (کُھونٹی) کے اندر لگے جاسوس کیمرے ای کامرس ویب سائٹ ’ایمازون‘ پر فروخت کے لیے دستیاب ہیں، باوجود اس کے کہ کمپنی پر اس نوعیت کے جاسوسی کے آلات کی فروخت کی وجہ سے پہلے ہی مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
حال ہی میں ایک امریکی جج نے فیصلہ سُنایا ہے کہ ایمازون کو ایک خاتون کی جانب سے دائر مقدمے کا سامنا کرنا ہو گا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ایمازون سے خریدے گئے کپڑوں کے ہک کیمرے کا استعمال کرتے ہوئے ایک باتھ روم میں ان کی عکس بندی کی گئی۔
پرائیویسی کے ایک ماہر نے کہا ہے کہ ایسے آلات کا غلط استعمال برطانوی قوانین کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔
ایمازون نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔
کمپنی کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز ایک ایسی خاتون نے کیا ہے جو اداکارہ بننے کی خواہش مند ہیں۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ جب وہ مغربی ورجینیا کے ایک گھر میں رہ رہی تھیں اور ابھی کم عمر تھیں تو انھیں خفیہ طور پر باتھ روم میں کپڑوں کے ہک کی شکل کے کیمرے کا استعمال کرتے ہوئے ریکارڈ کیا گیا تھا، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ ایمازون سے خریدا گیا تھا۔
خاتون کی جانب سے امریکہ کی ضلعی عدالت میں دائر کی گئی شکایت میں کہا گیا ہے کہ ایمازون پر جہاں سے مبینہ طور پر کیمرہ خریدا گیا تھا، وہاں ایک تصویر میں ان کے ساتھ تولیہ لٹکا ہوا ہے اور تصویر پر عنوان دیا گیا ہے کہ ’اس پر کسی کا دھیان نہیں جائے گا۔‘ (یعنی سب لوگ خاتون پر ہی دھیان دیں گے، تولیے پر کسی کا دھیان نہیں جائے گا۔)
شکایت میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ کیمرے کے ممکنہ غلط استعمال کے بارے میں ایمازون کو اندازہ ہونا چاہیے تھ۔ درخواست میں ایمازون انکارپوریٹڈ، ایمازون ڈاٹ کام، سروسز ایل ایل سی اور دیگر نامعلوم مدعا علیہان کے خلاف تادیبی ہرجانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ایمازون نے حال ہی میں یہ دلیل دے کر اس کیس کو مسترد کرنے کی ناکام کوشش کی کہ وہ اس کیمرے کے اس نوعیت کے استعمال کے ذمہ دار نہیں۔
ایمازون پر اسی طرح کے کیمروں کی تلاش کی اور انھیں متعدد فہرستیں ملیں۔ کپڑوں کے ہک کیمرے کی مصنوعات کی ایک تفصیل میں اسے غسل خانے کے اوپر دکھایا گیا تھا، دوسری تصویر میں اسے بستر کے ساتھ دکھایا گیا تھا۔
کپڑوں کے ایک اور ہک کیمرے کی ایک تصویر ہے جس میں اسے ایک بیڈروم میں رکھا گیا ہے اور ممکنہ استعمال کو ظاہر کرنے والے ایک حصے میں الگ سے، ایک جوڑے کی تصویر ہے جو ’دھوکہ دہی‘ کے موضوع پر بحث کر رہے ہیں۔
سائٹ پر فروخت کے لیے دیگر کیمرے موجود ہیں، بشمول:
- ایک الارم گھڑی میں چھپا ہوا کیمرہ جس میں ایک تصویر ہے جس میں ایک بستر پر کپڑوں میں ملبوس لیکن پرجوش جوڑے کی فوٹیج فون پر دیکھی جا رہی ہے
- ایک کیمرہ جو یو ایس بی چارجر کی شکل میں ہے جس میں ایک تصویر ہے جس میں وہ ایک جوڑے کو رومینٹک انداز میں گھر کے اندر فلماتے ہوئے دکھاتا ہے
- ایک کیمرہ جو سموک الارم کے اندر چھپا ہوا ہے جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسے ’بے وفا ساتھی‘ کی ’نگرانی‘ میں مدد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے
یہاں تک کہ ایک ’باتھ روم جاسوس کیمرہ‘ بھی تھا جو شاور ریڈیو میں چھپایا گیا ہے، اگرچہ اس پر کوئی ریویو نہیں تھا اور اس کے بجائے غیر متوقع طور پر یہ اشارہ دیا گیا تھا کہ یہ سی آئی اے کے کام آ سکتا ہے۔ اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایمازون پر اس طرح کی فہرست کیسے برقرار رہ سکتی ہے۔
بہت سے کیمرے بچوں کی نگرانی یا سکیورٹی کے لیے ان کی افادیت پر زور دیتے ہیں لیکن ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ کیمروں کے غلط استعمال سے برطانیہ کے متعدد قوانین کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔
قانونی فرم پنسینٹ میسنز کی پرائیویسی پارٹنر جیا ہانڈا نے بتایا کہ ’گھر کے اندر پرائیویسی کی توقع کو مدنظر رکھتے ہوئے افراد ہراسانی، بچوں کے تحفظ، جنسی جرائم یا انسانی حقوق کے قوانین سمیت کئی دیگر قانونی فریم ورک کے تحت جرم کا ارتکاب کر سکتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ اگر ویڈیوز کو وسیع پیمانے پر شیئر کیا جائے تو ڈیٹا پروٹیکشن کے مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔
انسانی حقوق کی کارکن جینا مارٹن، جنہوں نے ویوریزم (جرائم) ایکٹ 2019 کو نافذ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ خفیہ کیمروں کا نشانہ بننے والی اکثر خواتین اور لڑکیاں ہوتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اس طرح کے کیمروں کو ان لوگوں سے چھپایا جا رہا ہے جن کی ویڈیو بنائی گئی ہے اور ہم سب سے ویڈیو بنانے کے لیے رضامندی لی جانی چاہیے۔‘
خفیہ کیمروں کی فروخت قانونی ہے اور بہت سے پلیٹ فارم اور آن لائن سٹورز پر یہ خریداری کے لیے دستیاب ہیں۔
لیکن جینا مارٹن کا کہنا ہے ’انھیں فروخت کرنے والوں کو مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انھیں خفیہ کیمروں پر مہر لگانے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسی صورتحال بہت کم ہوتی ہے جس میں اس حقیقت کو چھپایا جا سکتا ہے کہ آپ کسی کی فلم بنا رہے ہیں۔