ہماری سائیکل رکشا اور شرفِ انسانی کی حالت

ممکن ہے آپ اسے میرا پاگل پن کہیں کہ مجھے سنٹرل لندن میں گھومتے ہوئے اچانک ہی بہاولپور اور ڈیرہ اسماعیل خان یاد آ گئے‘ لیکن مجھے یہ دونوں شہر ایسے ہی بلاوجہ یاد نہیں آئے۔ سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر کھڑے ہوئے ایک سائیکل رکشے کو دیکھ کر بندے کو اگر سنٹرل لندن میں بہاولپور اور ڈیرہ اسماعیل خان یاد آ جائیں تو بھلا اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟ میں نے ان دونوں متذکرہ بالا شہروں میں یہ سائیکل رکشے نہ صرف چلتے ہوئے دیکھے ہیں بلکہ ان پر درجنوں بار سفر بھی کیا تھا۔ کیا زمانہ تھا جب ان دونوں شہروں میں سائیکل رکشے چلا کرتے تھے۔
لندن میں اس سائیکل رکشے کو ”پیڈی کیب‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ایسے سجے اور سنورے ہوئے کہ ادھر دلہن بھی بھلا کب ایسی سجی ہوتی ہو گی۔ رکشا دکھائی دینے سے پہلے ہی اس میں چلتا ہوئی بلند آہنگ میوزک سنائی دینے لگتا ہے۔ لیدر کور پر منڈھی ہوئی ویلوٹ اور فَر کی جھالریں۔ لندن کے سائیکل رکشے میں لگا ہوا میوزک‘ سجاوٹی فَر اور چھوٹی چھوٹی رنگ برنگی ایل ای ڈی بتیاں‘ بندے کا نہ چاہتے ہوئے بھی دل کرتا ہے اس میں بیٹھ جائے۔ لیکن میرے جیسا بندہ جیسے ہی اس کے کرائے کا سوچتا ہے سارا شوق ہوا ہو جاتا ہے۔ اس پر پندرہ منٹ میں دو کلو میٹر کا ٹور کریں تو پچاس پاؤنڈ سے زائد کرایہ بن جاتا ہے۔ اتنے پیسوں میں تو میرے جیسا مسافر لندن انڈر گراؤنڈ میں صبح سے لے کر شام تک مسلسل چار دن ڈے ٹکٹ لے کر آوارہ گردی کر سکتا ہے۔ لندن انڈر گراؤنڈ والا ٹکٹ سارا دن بسوں پر بھی کام دیتا ہے۔ لندن کا پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم دنیا کا بہترین نظام ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا قابلِ دید مقام ہو جہاں آپ کو لندن ٹرانسپورٹ کے ذریعے رسائی نہ ہو۔
2014ء میں لندن پیڈی کیب آپریشنز ایسوسی ایشن کے جائزے کے مطابق لندن شہر میں 700کے لگ بھگ سائیکل رکشے تھے جو 2018ء میں بڑھ کر دوگنا ہو گئے تھے۔ آن لائن ٹیکسی کی آمد اور لندن انڈر گراؤنڈ کی رات گئے سروس کے آغاز نے پیڈی کیب کے لیے تھوڑی مشکل پیدا کی جس کے جواب میں پیڈی کیب والوں نے اپنے سائیکل رکشوں میں میوزک سسٹم‘ سجاوٹی لائٹس اور فَر دار جھالریں لگا کر اس میں لندن آنے والے مسافروں اور سیاحوں کے لیے ناقابلِ مزاحمت قسم کی کشش پیدا کردی۔ اب یہ لندن کے تقریباً ہر اس علاقے میں دکھائی دیتے ہیں جہاں سیاحوں کے لیے قابلِ دید مقامات موجود ہیں۔ سنٹرل لندن اُن کا گڑھ ہے۔ لندن کے پیڈی کیب سیاحوں کے لیے کسی ٹرانسپورٹ سے بڑھ کر اب ایک ایسی تفریح کا ذریعہ بن چکے ہیں جو بذاتِ خود لندن کی سیاحت کے لیے لازم و ملزوم ہو چکا ہے۔ سیاح اس سواری پر سفر کے لیے نہیں بلکہ محض لطف لینے کے لیے سوار ہوتے ہیں۔ ان کی لندن یاترا شاید اس کے بغیر ادھوری رہ جاتی ہے۔
لندن میں چلنے والے یہ سائیکل رکشے میٹرو پولٹین پبلک کیرج ایکٹ 1869ء کے سیکشن چار کے تحت سٹیج کیرج کے زمرے میں آتے ہیں لیکن اب ان کو مزید ترمیم شدہ قوانین کے تحت کنٹرول میں لایا جا رہا ہے کیونکہ اس بات کی شکایات بہت عام ہیں کہ پیڈی کیب ڈرائیورز سیاحوں کو باقاعدہ لوٹنے پر آ گئے ہیں۔ آپ ان سے کرایہ اور منزلِ مقصود میں سے کوئی چیز طے کیے بغیر بیٹھ جائیں تو پھر سمجھیں کہ آپ کے لٹنے میں اب کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی۔ جتنی مسافت کا طے شدہ کرایہ چالیس پاؤنڈ ہے‘ اتنی مسافت کے لیے بغیر طے شدہ کرایہ چار سو پاؤنڈ تک وصول کرنے کی شکایات ملی ہیں۔ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ پیڈی کیب کے کرائے اور فاصلے سے متعلق کوئی قانون نہیں ہے۔ پس ثابت ہوا کہ اگر قانون میں سقم ہو یا قانون کسی چیز کے بارے میں خاموش ہو تو لندن کا پیڈی کیب ڈرائیور بے ایمانی اور چور بازاری میں ہم سے بہرحال کسی طور کم نہیں ہے۔
سائیکل رکشا صرف لندن میں ہی نہیں چلتا۔ میں نے برطانیہ کے کئی شہروں اور یورپ کے کئی سیاحتی مقامات پر سائیکل رکشے کو اپنی چھب دکھاتے ہوئے پایا ہے۔ نہ وہاں پر انسانی حقوق کا کوئی مسئلہ ہے اور نہ ہی اشرف المخلوقات کی توہین کا ہی کوئی پہلو نکلتا ہے۔ ہمارے ہاں لیکن یہ سارے مسئلے ہیں۔ ادھر غیرملکی ایجنڈے اور عوضانے پر کام کرنے والی این جی اوز کو سائیکل رکشا چلانے والے سے بڑی ہمدردی ہے اور وہ اس کام کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور غریب طبقے کے استحصال سے تعبیر کرتے ہوئے انسانیت کی توہین قرار دیتی ہیں۔ بہاولپور اور ڈیرہ اسماعیل خان میں سائیکل رکشا ناپید ہو گیا اور نئی نسل کو شاید علم ہی نہیں کہ ان دو شہروں میں کبھی سائیکل رکشا بطور پبلک ٹرانسپورٹ استعمال ہوتا تھا۔ تب ان شہروں میں آٹو رکشا وغیرہ شاذو نادر ہی دکھائی دیتا تھا۔
یہ سواری تو پاکستان میں بند ہو گئی مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کی بندش سے مملکتِ خداداد پاکستان میں عظمتِ انسانی میں بہت اضافہ ہو گیا ہے اور کیا انسانی حقوق کی پامالی صرف اسی ایک سواری میں پھنسی ہوئی تھی جو اس پر پابندی کے بعد سر بلند ہو گئی ہے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کے معاملات ہر گزرتے دن پہلے سے خراب تر ہو رہے ہیں۔ لوگوں میں عدم برداشت بڑھ گیا ہے اور عمل کا لیول کہیں نیچے جا چکا ہے۔ دور کی بات تو چھوڑیں‘ موجودہ حالات کو دیکھیں تو احساس ہوتا ہے کہ سیاست سے لے کر گفتگو تک میں دلیل‘ قوتِ برداشت اور رواداری قریب قریب مفقود ہو کر رہ گئے ہیں۔
جو ممالک ان این جی اوز کے ذریعے ہمیں یہ بتاتے نہیں تھکتے کہ ہمارے ہاں عظمتِ انسانی ان سائیکل رکشوں کی وجہ سے پروان نہیں چڑھ رہی اور انسانی سواری کو انسان کے کھینچنے سے انسانی حقوق کی جو پامالی ہو رہی ہے‘ وہ ان سائیکل رکشوں پر پابندی لگنے سے ختم ہو جائے گی۔ لیکن ان کے ہاں سائیکل رکشے لندن اور دیگر درجن بھر شہروں کی سڑکوں پر ایل ای ڈی بتیوں اور میوزک سسٹم سمیت چل رہے ہیں۔ امریکہ میں سائیکل رکشے لگ بھگ پچاس شہروں میں قانونی حیثیت رکھتے ہیں اور بیشتر شہروں میں چل بھی رہے ہیں۔ یورپ کے اَن گنت شہروں میں سائیکل رکشا چلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ وہاں نہ تو کسی کو شرفِ انسانی کی توہین کا خیال آتا ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کی کوئی تنظیم کہرام مچاتی ہے۔ یہ سارے چونچلے ہمارے لیے محفوظ ہیں۔بہاولپور اور ڈیرہ اسماعیل خان کے سائیکل رکشے قصۂ پارینہ ہو گئے۔ انسانی حقوق کی جے جے کار مچ گئی۔ اب ان دو شہروں کے علاوہ بھی پورے پاکستان میں شرفِ انسانی کا جھنڈا بلند ہے اور انسانی حقوق کی پامالی بھی ان سائیکل رکشوں کے ساتھ قصہ ٔ ماضی بن چکی ہے۔ اب ایک نیا شوشہ اٹھا ہے کہ کم عمر بچوں سے مشقت لینا قابلِ سزا جرم ہے۔حضور! قانون ضرور بنائیں مگر پہلے اس بات کو یقینی بنائیں کہ لوگ بھوک سے خودکشی نہ کریں اور غربت کم عمری میں مزدوری پر مجبور نہ کرے۔ ریاست پہلے اپنے فرائض پورے کرے اور پھر قانون نافذ کرے۔ نہ تو کم عمر بچے شوقیہ مزدوری کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے والدین کو اس کا شوق ہے۔ یہ مجبوری کے ثمرات ہیں۔ سزائیں دینے سے پہلے ریاست اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ شرفِ انسانی کو اس کے معاشی پہلو سے جدا کر کے سربلند نہیں کیا جا سکتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں