علم کی اقسام

سائنس زندگی کو دو اقسام میں تقسیم کرتی ہے۔ 1۔ پودے۔ 2۔ جانور، انسانوں کو وہ جانوروں میں ہی گنتی ہے۔ وجہ؟ انسانی جسم میں خون کی حرکت اور دل کی دھڑکن سے لے کر اولاد کی پیدائش تک، سب چیزیں جانوروں جیسی ہیں۔ دماغ کا بنیادی سٹرکچر بھی وہی ہے۔ صرف غور کرنے اور منصوبہ بندی کرنے کی صلاحیت مختلف ہے۔ یہ جو ہم ہر وقت بعض لوگوں کو لڑتا ہوا دیکھتے ہیں، یہ بھی ایک حیوانی مظہر ہی ہے۔ جانور بھی خوراک اور مادہ کیلئے اسی طرح لڑتے ہیں۔

انسان کی سب جانداروں پر برتری علم کی وجہ سے ہے۔ اس علم کی مختلف شاخیں ہیں۔ شیخ علی بن عثمان ہجویری ؒ نے فرمایا تھا کہ ہر علم میں سے اتنا لازماًحاصل کرو، جتنا خدا کی شناخت کیلئے ضروری ہے۔ ایک بہت دلچسپ علم کانام ہے ارتھ سائنسز۔ اس میں زمین کی ظاہری شکل و صورت، اس کے سمندر، اس کے نیچے موجود معدنیات اور اس کی فضا پڑھائی جاتی ہیں۔ آپ معدنیات، فضا اور مقناطیسی میدان پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ زندگی کو پھولوں جیسی نزاکت اور حفاظت سے رکھا گیا ہے۔

ایک علم فاسلز کا ہے۔ اس کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ زمین پر زندگی کب شروع ہوئی۔ ابتدا میں جاندار کس قسم کے تھے۔ اس سے تاریخ میں گزرنے والے بڑے حادثات کا علم بھی ہوتا ہے۔ زمین پہ بڑے گڑھوں کا جائزہ لے کر پتہ چل جاتاہے کہ کب وہاں کوئی دم دار ستارا یا شہابِ ثاقب آ گرا تھا۔ ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے ایسا ہی ایک دم دار ستارہ میکسیکو میں آ گرا تھا۔ اس کے نشان اب بھی وہاں موجود ہیں۔ اس دمدار ستارے کا قطر اندازاً دس کلومیٹر تھا۔ اس سے پیدا ہونے والا گڑھا 150کلومیٹر چوڑا اور 20کلومیٹر گہرا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 100جانداروں میں سے 75ہمیشہ کیلئے ختم ہو گئے، بشمول ڈائنا سار۔

زمین پر زندگی کس کس شکل میں پائی جاتی ہے۔ زندگی کی مختلف اقسام کیسے ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ یہ سب چیزیں بہت دلچسپ ہیں۔ جب شیر ایک ہرن کا شکار کرتا ہے بہت سے جانداروں کا پیٹ بھرنے کا بندوبست ہوتا ہے۔ گدھ اکھٹے ہونے لگتے ہیں۔ شیر رخصت ہوتے ہیں تو یہ مردار خور اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ چلتا رہتاہے؛ حتیٰ کہ بیکٹیریا اور خورد بینی جاندار بھی اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔جانداروں کا ایک دوسرے پر منحصر ہونا کس قدر دلچسپ ہے۔ کچھ جاندار یعنی پودے آکسیجن پیدا کر رہے ہیں۔ دوسرے ان آکسیجن پیدا کرنے والوں کو کھا رہے ہیں لیکن آکسیجن پیدا کرنے والوں کے پھلنے پھولنے کی رفتار اتنی تیز ہے کہ وہ ختم نہیں ہو رہے۔ پھر ان سبزی خور جانوروں پر گوشت خوروں کا منحصر ہونا لیکن سبزی خوروں کی نسل کا تیزی سے بڑھنا اور ان کا ختم نہ ہونا۔ ہاتھی اوراونٹ اگر گوشت خور ہوتے تو صورتِ حال کتنی مختلف ہوتی۔اسی طرح توانائی کی ایک قسم کا دوسری میں بدلنا بہت دلچسپ ہے۔ ہم سورج سے توانائی حاصل کرتے ہیں۔ کوئلے، تیل او رگیس کو جلا کر اس میں موجو د ایندھن سے توانائی حاصل کرتے ہیں۔ بہتے اور بلندی سے گرتے ہوئے پانی سے اور ایٹم کو توڑ کر بھی۔ یہ سب چیزیں وہ ہیں کہ جنہوں نے انہیں جلدی سمجھ لیا، وہ دوسری قوموں سے آگے بڑھ گئے۔ انہی قوموں نے ایجادات کیں۔ امریکہ نے ایٹم توڑ کر توانائی نکال کر اس سے تباہی پھیلانا پہلے سیکھ لیا اور دوسری جنگِ عظیم جیت گیا۔ پاکستان ایٹم بم نہ بناتا تو بھارت اسے ختم کر دیتا۔

اسی طرح سیاروں کا علم ہے Planetary Scienceیعنی علمِ فلکیات۔ علم نجوم والے تو اندازے لگاتے پھرتے ہیں۔ لگ گیا تو تیر، نہ لگا تو تکا۔ علمِ فلکیات مگر ٹھوس شواہد پر مبنی ایک سائنس ہے۔ اس میں آپ زمین اور دوسرے سیاروں کی تشکیل، ان کے چاند اور دیگر تفصیلات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ان کی حرکت (Movement)کو سمجھے بغیر آپ کو دن اور رات کی سمجھ نہیں آ سکتی۔ قرآن میں لکھا ہے کہ دن اور رات کے بدلنے میں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں عقل والوں کیلئے نشانی ہے۔ اب یہ دن اور رات کا بدلنا کیا ہے۔ یہ زمین کی اس کے محور کے گرد گردش ہے۔ زمین گھومتی رہتی ہے۔ یہ تقریباً گول ہے۔ اس کا جو حصہ سورج کی طرف مڑ جاتا ہے، وہاں سورج کی روشنی سے دن اور دوسری طرف رات ہو تی ہے۔ زمین اپنے محور پر ایک طرف جھکی ہوئی ہے۔ چاند کا زمین سے ایک خاص فاصلہ ہے اور وہ زمین کے پانی کو متحرک رکھتا ہے۔ زمین کا اس طرح سے ایک طرف جھکائو موسموں پر اثر انداز ہوتاہے۔

یہ سب علوم و فنون وہ ہیں، جنہیں پڑھ کر ہی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہم انسان کون ہیں اور یہاں اس زمین پر کیا کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس اگر زندگی یہاں تک محدود ہو کہ انسان اپنی ضروریات پوری کرتا رہے اور جانوروں کی طرح لڑتا رہے تو پھر ہم میں اور ان میں کیا فرق ہوا؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں