چند دن پہلے افنان نامی جس نوجوان نے تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے لاہور میں ایک ہی خاندان کے چھ افراد کو ٹکر مار کر ہلاک کیا وہ نوجوان بھی لمز جیسے کسی اعلیٰ کالج میں پڑھتا ہے ۔نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ اگر یہ نوجوان لمز والی تقریب میں ہوتا تودیگر بچوں کی طرح یہ بھی چبھتے ہوئے سوالات پوچھتا کہ جناب والا آپ دیر سے کیوں آئے ،آپ کی آمد پر ہٹو بچو کی صدائیں کیوں لگائی گئیں ، کیا اِس ملک میں قانون صرف عام بندے کیلئے رہ گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور پھر ہم لوگ اِس کی ویڈیو شیئر کرکے تالیاں بجاتے اور کہتے کہ واہ یہ ہوتا ہے شعور ، یہ ہوتی ہے بہادری ۔ مگر افسوس کہ اِس بچے کویہ موقع نہ مل سکا کیونکہ یہ اُس وقت ڈیفنس کے علاقے میں ’ریش ڈرائیونگ‘ کے ذریعے قتل کرنے کی پریکٹس میں مصروف تھا ! یہ پہلا حادثہ نہیں ہے اور نہ ہی آخری۔لوگ ایسے ہی مرتے رہیں گے اور خاندان اجڑتے رہیں گے تاوقتیکہ قانون کی وہ عملداری نہیں ہوگی جس کے تحت بغیر لائسنس کے گاڑی چلانے والے ڈرائیور کو سیدھا حوالات میں بند کر دیا جاتا ہے ۔ مگر یہ کام ہوگا کیسے؟
ویسے تو ٹریفک قوانین کی پاسداری کے حوالے سے ہماری کارکردگی کبھی قابل رشک نہیں رہی مگر گزشتہ پانچ دس برسوں میں ٹریفک کا جو حال ہم نے کردیاہے اسے دیکھ کر خوف آتا ہے ۔ٹریفک کے اشاروں اورون وے کی خلاف ورزی پہلے بھی ہوتی تھی مگر اب جس دھڑلے سے ہوتی ہے وہ کم از کم میں نے کسی اور ملک میں نہیں دیکھی۔کار اور موٹر سائیکل سوار رات کوبغیر لائٹ کے اندھا دھند ڈرائیونگ کرتے ہوئےاچانک سامنے آجاتے ہیں اور انہیں ذرہ برابر بھی پروا نہیں ہوتی کہ وہ کوئی غلط کام کر رہے ہیں بلکہ الٹا اگر آپ انہیں شرمندہ کرنے کی کوشش کریں گے توکوئی بعید نہیں کہ یہ غصے سےآپ پر ہی گاڑی چڑھادیں ۔رہی بات ٹریفک کے سنتری کی تو وہ بیچارہ زیادہ سے زیادہ اُنہیں پانچ سو روپے کا چالان تھماسکتا ہے۔ ٹریفک حادثات میں مرنے والوں کی شرح ہمارے ہاں خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے،کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب مسافربس کسی کھائی میں نہیں گرتی اورٹریکٹر ٹرالی کی زد میں آکر کوئی موٹر سائیکل سوار ہلاک نہیں ہوتا۔یہ مرنے والے بیچارے کسی کے باپ ،بھائی اور بیٹے ہوتے ہیں، کہیں کسی کا سہاگ اجڑ جاتا ہے اور کہیں کوئی بچی بیٹھے بٹھائے یتیم ہوجاتی ہے ۔یہ تمام اموات اِس لیے نہیں ہوتیں کہ اِن کی موت کا دن اور طریقہ کار تقدیر میں لکھا جا چکا ہے،بلکہ یہ بے گناہ لوگ اِس لیے مارے جاتے ہیں کہ کہیں کوئی چنگ چی رکشے پر سریا لاد کر لے جا رہا ہوتا ہے یا کہیں کوئی سرپھرا نوجوان بغیر لائسنس کے باپ کی سڑک پر اندھا دھند گاڑی چلا رہا ہوتاہے ۔جس دن اٹھارہ سال سے کم عمر نوجوان ،گاڑی یا موٹر سائیکل لے کر سڑک پر نکلتا ہے ،اُس دن اگر اسے یہ پتا ہو کہ پکڑے جانے کی صورت میں معافی نہیں ملے گی تو ہمارے ہاں قانون پر عملداری کے دیگر مسائل بڑی حد تک کم ہوجائیں گے ۔لیکن ہوتا یہ ہے کہ پہلے دن جب بچہ گاڑی لے کر نکلتا ہے تو اسے کوئی نہیںروکتا، روکنا تو دور کی بات گھر والے خوشی سے نہال ہوجاتے ہیں کہ آج بیٹے نے گاڑی چلانا سیکھ لی، اُس کے بعد سڑک پر بھی کوئی باز پُرس نہیں کرتا،نتیجہ یہ کہ پہلے دن سے ہی بچے کے دماغ میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ اِس ملک میں قانون فقط مذاق ہے ، سو اُس کی پہلی قانونی خلاف ورزی ٹریفک سے شروع ہوتی ہے، اُس کے بعد وہ کوئی دوسرا چھوٹا موٹاقانون توڑتا ہے ،اور پھر یہ سلسلہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور اُس وقت تک نہیں رکتا جب تک کسی سنگین معاملے میں اسے جیل کی ہوا نہ کھانی پڑجائے ۔
مہذب ممالک میں ڈرائیونگ لائسنس کا حصول بے حد مشکل کام ہے، جبکہ اپنے ہاں یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ، لیکن اِس کے باوجود لوگ لائسنس کی پروا ہی نہیں کرتے کیونکہ انہیں اچھی طرح علم ہے کہ اول تو کوئی پکڑے گا ہی نہیں اور اگر پکڑے بھی گئے تو اِس کی سزاکا اُن کے معمولات زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔اِن تمام مسائل کا حل کوئی آسان نہیں مگر شروعات تو بہرحال کرنا پڑیں گی ۔پہلا حل تو یہ ہے کہ لاہور ،کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سےٹریفک کی خلاف ورزیوں پر بھاری جرمانے عائد کرکے گھر کے پتے پر ارسال کیے جائیں ۔یہ کام شروع تو ہوچکا ہے مگر اِس کا اثر اِس لیے نہیں ہورہا کہ جرمانوں کی رقم بے حد معمولی ہوتی ہے سو کسی گاڑی والے کے گھر اگر ہزار پانچ سو کا چالان آبھی جاتا ہے تو وہ پروا نہیں کرتا۔جرمانے کی کم از کم حد پانچ ہزار مقرر کرنی چاہیے اور ہر خلاف ورزی پر گاڑی کے مالک کے خلاف پوائنٹس کا اندراج کرنا چاہیے جومتعلقہ ایکسائز اور ٹیکسیشن محکمے میں اُس کی گاڑی کے کاغذات کا حصہ بن جائے، مثلاً اگر کوئی شخص دس مرتبہ ٹریفک کی خلاف ورزی کرے تو اُس کے خلاف پچاس ہزار کا جرمانہ جمع ہوجائے اور گاڑی کی ملکیت منتقل کرواتے وقت یہ جرمانہ ادا کرنا پڑے ورنہ گاڑی ٹرانسفر ہی نہ ہوسکے۔اگر خلاف ورزیاں بڑھتی چلی جائیں تو ایسی گاڑی کے مالک کو نشان زد کردیا جائے او ر یہ گاڑی جہاں نظر آئے پکڑ کر بند کردی جائے اور مالک کا لائسنس دس سال کے لیےمنسوخ کردیا جائے۔ اب وہ لوگ باقی بچیں گے جو سرے سے لائسنس لینے کا تکلف ہی نہیں کرتے،اِن کیلئے معافی کی کوئی گنجائش نہیں ، جہاں ایسی کوئی موٹر سائیکل ، گاڑی یا رکشہ نظرآئے اسے پکڑ کر بند کر دیا جائے اور صرف تب واپس کیا جائے جب مالک ایک ماہ کا کشٹ کرنے کے بعد لائسنس بنوا کر تھانے میں پیش نہ کرے۔جب یہ لوگ لائسنس یافتہ ہوجائیں گے تو پھر یہ بھی اُس درجے میں آ جائیں گے جہاں انہیں بھی سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے دیکھ کر جرمانے عائد کیے جا سکیں گے۔
یہ تمام کام مشکل ضرور ہیں مگر نا ممکن نہیں ، دنیا کے کئی پسماندہ ممالک نے بھی اِس قسم کی اصلاحات کے ذریعے اپنے نظام کو بہتر بنایا ہے ،اگر ہم یہ کام نہیں کریں گے تو یقین کریں کہ ہماری سڑکیں موت کا ایسا کنواں بن جائیں گی جہاں سے زندہ واپس آنے کیلئے لوگ دعائیں مانگا کریں گے۔