اردو بیگی: مغل بادشاہ اور حرم کی خواتین محافظ جن سے اورنگزیب بھی ڈرتے تھے

ڈنڈے لہراتے، ہٹو بچو کہتے، راستہ بناتے، ملازموں کی سرگرمی سے پتا چلتا ہے کہ مغل شہزادی روشن آرا بیگم کی سواری آتی ہے۔

سترھویں صدی کے فرانسیسی طبیب اور سیاح فرانسوئے برنیئر بتاتے ہیں کہ شہزادی ایک شاندار ہاتھی پر سنہری اور نیلے رنگ کے ہودے میں بیٹھی ہیں اور شاندار لباس پہنے، خوبصورت گھوڑوں پر سوار، تاتار اور کچمیری ملازماؤں کا ایک دستہ انھیں گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔

یہ اردو بیگی ہیں۔

اردو بیگی کون تھیں؟

اردو زبان کے ارتقا پر اپنے مقالات میں حافظ محمود شیرانی کہتے ہیں کہ آئینِ اکبری سے مفہوم ہوتا ہے کہ اردو بیگی شاہی محل سرا میں اونچی قسم کی ملازمہ ہوتی تھی۔

اوردہ (اردو) بیگی مردانہ لباس میں ملبوس ہوتی تھی۔ سر پر پگڑی، کمرمیں پٹکا یا سیلا باندھتی اور جریب (لاٹھی) ہاتھ میں رکھتی تھیں۔ محل سراؤں میں بادشاہ اور بیگموں کی چاکری بجا لاتی تھیں۔ اردو زبان میں اوردہ بیگی کا اردا بیگنی بنا لیا گیا تھا جس کی جمع اردا بیگنیاں ہے۔ جمع کی حالت میں اس لفظ کا زیادہ رواج ہے جس سے ظاہر ہے کہ اس نام کا اطلاق ایک جماعت پر ہوتا تھا۔‘

شیرانی، منشی فیض الدین دہلوی کی کتاب ’بزمِ آخر‘ سے ایک مثال نقل کرتے ہیں: ’کہاریاں ہوادار لائیں، بادشاہ سوار ہوئے، اردا بیگنیاں مردانے کپڑے پہنے، سر پر پگڑی، کمر میں دوپٹے باندھے، جریب ہاتھ میں لیے اور حبشنیاں، ترکنیاں، قلِماقنیاں جریب پکڑے تخت کے ساتھ ساتھ ہیں۔‘

فرہنگِ آصفیہ میں اردو بیگی کی تشریح میں لکھا ہے: مردانہ لباس کی ہتھیار بند عورت جو شاہی محلوں میں پہرا چوکی دیتی ہے۔‘

اردو بیگی

خواتین، بادشاہ کی محافظ

ارتھ شاستر میں مَوری بادشاہ چندر گپت موریا کے مشیر چانکیا کوتلیا (350-275 قبل مسیح) نے پچھلے بادشاہوں کے قتل کی بڑی تعداد کی وجہ سے خواتین محافظوں کی ضرورت پر لکھا ہے۔

خدیجہ توصیف یونانی مورخ اور سفارت کار میگاستھینس کے حوالے سے چندر گپت موریا کے دربار میں خاتون محافظوں کا پتا دیتی ہیں۔

’وہ موری بادشاہ کی حفاظت کرتیں، خاص طور پر جب وہ شکار پر نکلتے۔ وہ شکاری بادشاہ کے ساتھ رتھوں، گھوڑوں اور ہتھیاروں سے لیس ہاتھیوں پر سوار ہوتیں۔‘

نظام الدین احمد کے مطابق سلطان غیاث شاہ (1469-1500) کے پاس مبینہ طور پر سولہ ہزار لونڈیاں تھیں۔

ان میں سے پانچ سو، جو اپنی ذہانت کی وجہ سے ممتاز تھیں، کو کشتی سمیت مختلف علوم کی تربیت دی گئی۔

محمد قاسم فرشتہ ’تاریخ فرشتہ‘ میں لکھتے ہیں۔

’مردوں کے لباس میں پانچ سو خوبصورت نوجوان ترک خواتین، ایک سا لباس پہنے، کمانوں اور تیروں سے لیس، دائیں ہاتھ پر کھڑی تھیں اور انھیں ترک محافظ کہا جاتا تھا۔ ان کے بائیں طرف پانچ سو حبشی خواتین بھی ایک سا لباس پہنے، آتشیں اسلحہ سے لیس تھیں۔‘

مغل دور میں حرم کی حفاظت

اردو بیگی

مغل سلطنت میں اردو بیگیوں کے نام سے خواتین سپاہیوں کا ایک خاص طبقہ مغل بادشاہ اور اس کے حرم کی حفاظت کے مقصد کے ساتھ منظرعام پر آیا۔

سکالر گیون آر جی ہیمبلی نے اردو بیگیوں کو متنوع نسلی پس منظر کی ’ایک قسم کی خواتین مملوک‘ کہا ہے جو قرون وسطیٰ کی اسلامی حکومت کے خصوصی غلام جنگجوؤں کی طرح تھیں۔ ’ممکنہ طور پر سیکورٹی خدشات کی وجہ سے انھیں دور دراز علاقوں سے بھرتی کیا جاتا۔‘

1505 میں، ظہیرالدین محمد بابرنے پہلی بار ہندوستان کا سفر کیا۔ مغل سلطنت ہندوستان میں 1526 میں پھیلی جب بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست دی۔

بابر کا حرم مہمات کے دوران میں ان کے ساتھ سفر کرتا تھا۔ اس کی حفاظت کے لیے انھوں نے کشمیری، ترک، حبشی اور تاتار قبائل سے تعلق رکھنے والی خواتین اردو بیگیاں رکھیں۔ یہ نیم فوجی خواتین پردہ نہیں کرتی تھیں اور آسانی سے گھوم پھر سکتی تھیں۔

اردو بیگیوں کی اہمیت

بی بی فاطمہ کے علاوہ اردو بیگیوں کا ذکر انفرادی طور پرکم ہی ملتا ہے۔ چغتائی ترک تھیں۔ شاید خود جنگ جو نہیں تھیں لیکن زنانہ کی صدر اردو بیگی تھیں۔

گل بدن بیگم کی کتاب ہمایوں نامہ میں ان کا تذکرہ ان کے سرکاری نام فاطمہ سلطان انگہ سے کیا ہے۔ وہ روشن کوکا اور زہرہ کی والدہ اور دوسرے مغل بادشاہ ہمایوں (1530-1540 اور 1555-1556) کی رضاعی ماں تھیں۔ 1546 میں جب ہمایوں بیمار ہوئے تو ان کی دیکھ بھال کے لیے آس پاس فاطمہ سمیت چند ہی قابل اعتماد لوگ تھے۔

بعد میں صدر اردو بیگی کے طور پر اگرچہ ان کا بنیادی کردار تحفظ فراہم کرنا تھا لیکن ہمایوں نامہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں دوسرے کام بھی سونپے گئے ہوں گے۔

امل نورین ساجتھ لکھتی ہیں کہ بایزید بیات کے مطابق ’چونکہ ایک قاتلانہ حملے کا خطرہ شہنشاہ کے گرد چھایا ہوا تھا، اس لیے، ’ہمایوں کی حفاظت کا جزوی طور پر ان کی چوکسی پر انحصار تھا۔‘

وہ ہمایوں کے بدخشاں بھیجے گئے سفارتی مشن میں بھی تھیں اور انھوں نے بدخشانیوں کے خفیہ عزائم کا ادراک کر کے اپنے ساتھی مردوں کو اطلاع دی۔

اکبر 1556 میں مغل سلطنت کے تیسرے شہنشاہ کے طور پر اقتدار میں آئے۔ ان کے 49 سالہ دورِ حکومت میں مغلیہ سلطنت کو استحکام حاصل ہوا۔ عظیم الشان محلات تعمیر کیے گئے۔

کتاب ’دی میگنیفیسینٹ مغلز‘ میں لکھا ہے کہ اکبر ہی کے دور (1556-1605) میں حرم اور اس کے قواعد ترتیب دیے گئے۔

’زنانہ میں زندگی ایک چھوٹے سے شہر کی طرح متنوع، پیچیدہ اور کثیرالجہتی تھی۔ عام طور پر، مختلف مغل محلوں میں کئی ہزار عورتیں رہتی تھیں، جن میں مائیں، دادی، بیویاں، بہنیں، بیٹیاں، خالہ اور دیگر رشتہ دار خواتین شامل تھیں۔ ’خدمت کرنے والی خواتین‘ کی تعداد بہت زیادہ تھی۔‘

’باشندوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے، زنانہ کے انتظام کے لیے لوگوں کی مدد کی ضرورت تھی۔ خواجہ سراؤں کے علاوہ، وہاں خاتون اہلکار (جو شادی شدہ تھیں اور اکثر شاہی حرم سے دور اپنے گھروں میں رہتی تھیں) جیسے انگا (رضاعی ماں)، داروغہ (میٹرنز)، محلدار (سپرنٹنڈنٹ) اور اردو بیگی ( مسلح خواتین گارڈز)۔‘

آئینِ اکبری میں اردوئے ظفر قرین، یعنی اکبر کا لشکر بہ وقت کوچ و مقام، کا بیان یوں ہے:

’ایک ہموار قطعہ زمین جس کا طول 1530 گز ہوتا تھا مقامِ شاہی و حرم سرائے شاہی کے لیے منتخب کیا جاتا تھا۔۔۔متعدد خیمے اور تنبو خاص خاص بیگمات کے لیے معین ہیں۔ زردوزی مخمل کے ان کے سائبان ہیں۔ ان سے متصل ساٹھ گز طول کا ایک گلیم سراپردہ (پردے والا خیمہ) ملتا ہے جس میں مختلف خیمے لگے ہیں۔ یہاں اردو بیگیاں ( اردا بیگنیاں) اور دیگر ملازم عورتیں رہتی سہتی ہیں۔

چونکہ شہنشاہ کی حفاظت کرنے والے مرد محافظ حرم میں داخل نہیں ہو سکتے تھے، اس لیے خواتین محافظوں، اردو بیگیوں نے زیادہ اہم کردار حاصل کرلیا۔

انھیں تیرکمان اور نیزوں کے علاوہ چھوٹے خنجر اور تلوار کے استعمال کی تربیت دی جاتی۔ وہ نہ صرف ملکہ اور باقی حرم کی حفاظت کرتیں بلکہ بادشاہ کی بھی۔

فاطمہ کا عہدہ اکبر کے دور میں بھی برقرار رہا۔

خدیجہ توصیف لکھتی ہیں کہ فاطمہ کی بیٹی زہرہ کی شادی اکبر کے ماموں خواجہ معظم سے ہوئی تھی۔ وہ متشدد مزاج اور سفاک تھے۔ 1564 میں فاطمہ نے شاہی دربار میں شکایت کی۔ اکبر خود سوار ہو کر ان کے گھر گئے۔ تاہم، یہ جان کر کہ شاہی دستے آ رہے ہیں، معظم نے زہرہ کو چھرا گھونپ کر قتل کر دیا۔ معظم کو قید کر دیا گیا جہاں وہ بالآخر پاگل ہو کر ہلاک ہوئے۔

اردو بیگی

مغل بادشاہ اورنگزیب کا ڈر

کشوری سرن لال نے اپنی کتاب ’دی مغل حرم‘ میں لکھا ہے کہ ’مغل دربار کی اردوبیگیاں جنگ میں اس قدر مہارت رکھتی تھیں کہ جانشینی کی جنگ کے دوران میں اورنگ زیب نے اپنے والد شاہ جہاں سے ملنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ انھیں ڈر تھا کہ اردوبیگیاں انھیں قتل کر دیں گی۔‘

اردو بیگی تربیت یافتہ جنگجو تھیں اور اکثر ان کا تعلق ان قبائل سے تھا جو پردہ نہیں کرتے تھے، اس طرح وہ بعض مواقع پر مردوں کو بھی دکھائی دیتی تھیں۔

برنیئر کے مطابق زنانہ میں رہنے والی خواتین اور شہنشاہ کی حفاظت کے علاوہ ان اردوبیگیوں کے مختلف فرائض تھے۔ وہ عورتوں کی پالکیوں کو تھوڑے فاصلے تک لے جاتیں۔ چوگان ( پولو) کھیلنے، گھومنے پھرنے، باغ میں ٹہلنے، شکار اور زیارت یا حج کے لیے زنانہ سے نکلتے وقت خواتین کے ساتھ ہوتیں۔

اردو بیگیوں اور دیگر زنانِ پارسا (پرہیزگار خواتین خادماؤں) کو بھی علیحدہ سیل الاٹ کیے گئے تھے۔ انھیں شاہی باورچی خانے سے کھانے میں بہت سی مراعات حاصل تھیں۔

بیجا پور اور احمد نگر سلطنتوں کی حکم ران چاند بی بی کے دستے میں بھی مسلح خواتین شامل تھیں۔

مغل مورخ خافی خان نے لکھا ہے کہ 1719 میں جب فرخ سیئر نے حرم میں پناہ لی اور ان کے مخالفین نے اس میں داخل ہونے کی کوشش کی تو ’عورتیں، حبشی اور ترک، سب لڑنے کے لیے تیار ہو گئیں۔‘

آدرِت بینرجی نے لکھا ہے کہ تخت کی جنگ کے دوران میں جب دسویں مغل شہنشاہ فرخ سیئر زندگی بچانے کے لیے حرم میں چھپے تو مارواڑ کے اجیت سنگھ نے حملہ کردیا۔ لیکن محل کے محافظ بادشاہ کی جان نہ بچا سکے۔

اردوبیگیوں کا زوال

اردو بیگیوں کا زوال ممکنہ طور پر مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی شکست اور سلطنت کے خاتمے کے ساتھ ہوا۔

ساجتھ لکھتی ہیں کہ حرم نہ رہا تو اردوبیگیوں کا کوئی کام نہ رہا۔ خواتین محافظوں کے بارے میں آخری حوالہ جات میں سے ایک ویلنٹائن بلیکر کی برطانوی فوج کی یادداشت ہے۔ اس میں خواتین سپاہیوں کے ایک دستے کا بتایا گیا ہے جس نے 18ویں صدی کے آخر میں حیدرآباد کے نظام کے زنانہ کی حفاظت کی۔

انگریز نو آبادیاتی دور میں بعض اردوبیگیوں کے طوائف اور بعض کے بھکاری بننے کا بھی پتا چلتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں