اسلام آباد ہائیکورٹ نے گذشتہ ہفتے اسلام آباد سے لاپتہ ہونے والے شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کے سلسلے میں دائر درخواست پر سیکریٹری دفاع کو جواب داخل کروانے کے لیے شام تین بجے تک کی مہلت دی ہے۔
احمد فرہاد مزاحمتی شاعری کے لیے بھی مشہور ہیں اور حال ہی میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے والے احتجاج کے حوالے سے سوشل میڈیا پر خاصے سرگرم تھے اور ان کی کچھ متنازعہ پوسٹس بھی سامنے آئی تھیں۔’
پیر کو احمد فرہاد کی اہلیہ کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کی تو مدعی کی وکیل ایمان مزاری نے عدالت کو بتایا کہ 17 مئی کو احمد فرہاد کے نمبر سے واٹس ایپ کال موصول ہوئی اور ’ہمیں کہا گیا درخواست واپس لے لیں، احمد فرہاد واپس آ جائے گا‘۔
ایمان مزاری نے دعویٰ کیا کہ ’تین ڈرافٹس ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان شیئر ہوئے‘ اور انھیں کہا گیا کہ آپ عدالت کے سامنے کہیں کہ ان کی موکلہ کے شوہر خود کہیں گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’احمد فرہاد واپس نہیں آئے اس لیے ہم درخواست واپس نہیں لے رہے۔‘
سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ ’کیا احمد فرہاد دہشت گرد ہے؟‘ جس پر ایس ایس پی آپریشنز نے کہا کہ ایسا نہیں ہے۔ جسٹس کیانی نے ریمارکس دیے کہ ادارے جو کر رہے ہیں اس کی سزا سب نے بھگتنی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’مجھے بندہ آئی ایس آئی سے چاہیے۔۔۔ ڈی جی آئی ایس آئی کو بتا دیں، بندہ ہر صورت چاہیے‘۔
انھوں نے مقدمے کے تفتیشی افسر سے بھی کہا کہ وہ سیکٹر کمانڈر اور ڈی جی آئی ایس آئی کا سیکشن 161کا بیان لیں۔
سماعت کے دوران وزارتِ دفاع کے حکام نے جواب دینے کے لیے دو دن کا وقت مانگا تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیکرٹری دفاع سے تین بجے تک جواب طلب کر لیا۔ عدالت نے کہا کہ کیا یہ پوچھیں گے باجوڑ والے سیف ہاؤس میں ہیں یا کشمیر والے سیف ہاؤس میں؟‘۔
جسٹس کیانی کا کہنا تھا کہ ’آپ اپنے سے لیبل ہٹائیں کہ اغوا کرتے ہیں۔۔۔مت لے کر آئیں اس نہج پر کہ اداروں کا رہنا مشکل ہو جائے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ریاست کا فرنٹ فیس نامعلوم افراد نہیں پولیس ہے۔‘
جسٹس کیانی نے یہ بھی کہا کہ ’جو اغوا ہوئے، ان پر کیا گزرتی ہے انھیں ہی پتا ہے۔ ڈریں اس وقت سے جب سب اغوا ہو جائیں‘۔
عدالت نے وزارت دفاع کے نمائندے سے استفسار کیا کہ آیا کبھی ان کا کوئی جاننے والا اغوا ہوا اور انکار پر جسٹس کیانی نے کہا کہ ’اسی لیے آپ کو احساس نہیں۔ جن کا اغوا ہوتا ہے احساس ان سے پوچھیں۔‘
اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینیئر جج کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر اگر تین بجے تک جواب نہیں آتا تو وہ حکم جاری کر دیں گے۔ ’تین بجے تک انتظار کروں گا پھر آرڈر دوں گا وہ آپ کو بہت متاثر کرے گا‘۔
اس کے بعد عدالت نے سماعت میں تین بجے تک وقفہ کر دیا ہے۔