آپ جتنا چاہیں ہنس لیں لیکن یہ آپ کے ساتھ بھی ہو گا۔
گزرتے برسوں میں آپ کے چہرے میں واضح تبدیلیاں آنے لگیں گی۔ آپ کی آنکھوں کے گرد اور ہونٹوں کے اوپر بہت باریک جھریاں پڑنا شروع ہو جائیں گی۔ بعد میں یہ گہری ہونے لگیں گی اور واضح طور پر نظر آئیں گی۔
آپ کے جسم پر کچھ بال اچانک ایسی جگہوں سے نمودار ہوں گے جن کے بارے میں آپ نے سوچا بھی نہیں ہو گا اور یہ باقی بالوں سے بہت زیادہ کالے ہوں گے۔
ہم سرمئی بالوں کی بحث میں تو پڑنا ہی نہیں چاہتے جو آپ کے پہلے سے کم ہوتے ہوئے بالوں کو مزید بہتری ہرگز فراہم نہیں کرتے۔
نہ ہی ہم اس درد کا زیادہ ذکر کریں گے جو آپ کے جوڑوں اور پٹھوں کو عین اس وقت متاثر کرے جب آپ بستر سے قدم باہر نکالیں گے یا اچانک کسی ایسے وقت میں آپ کو ستائے جب آپ کوئی بہت ہی معمولی کام کر رہے ہوں گے۔
بڑھاپے میں خوش آمدید۔۔۔ یا کم از کم اس خیال کے بارے میں جو ہمیں بڑھاپے کے بارے میں بیچا گیا ہے۔
اس معاشرے میں جہاں جوانی کو بہت قیمتی سمجھا جاتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے 35 یا 40 سال کی عمر سے آگے بڑھنا ایک جرم ہے۔
لندن میں ایک غیر سرکاری ادارے سینٹر فار ایجنگ بیٹر کی جیما مولینڈ کا کہنا ہے کہ ’مقبول تاثر یہی ہے کہ وقت کے ساتھ عمر بڑھنے کا مرحلہ دراصل خرابی اور ناگزیر توڑ پھوڑ کی جانب ایک قدم ہے اور یہ تاثر دراصل عمر کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے باعث سامنے آتا ہے جو متعدد معاشروں میں موجود ہے اور یہ اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ لوگ اس جھوٹے نظریے کو بہت آسانی سے تسلیم کر لیتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’حقیقت میں عمر میں اضافے کے مرحلے کو دراصل مزید بہتر بننے کے عمل کے طور پر دیکھنا چاہیے جس میں نئے امکانات آپ کا انتظار کر رہے ہیں، آپ نئے شوق اور دلچسپی کے امور پر توجہ دے سکتے ہیں، کسی نئی مہم پر نکل سکتے ہیں یا معاشرے میں کچھ بہتر کر سکتے ہیں۔‘
تاہم مولینڈ کا کہنا ہے کہ ہمیں عمر کو بطور اشارہ دیکھتے ہوئے محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ ’ہماری بڑھاپے کی عمر کا تجربہ متعدد دوسرے فیکٹرز کی بنیاد پر تبدیل ہو سکتا ہے جیسے ہم کہاں رہتے ہیں، ہمارے معاشی اور سماجی صورتحال کیسی ہے، ہمارا کس نسل سے تعلق ہے یا کیا ہمیں کسی بھی قسم کی معذوری کا سامنا ہے یا نہیں۔‘
قدرت بہت ذہین ہے
میری عمر 50 سے زیادہ ہو چکی ہے اور میں یہ بات بڑے فخر سے بتا سکتی ہوں کہ بڑھاپے کے حوالے سے بیچا جانے والا یہ مایوس کن نظریہ اب بہت پرانا بھی ہو چکا ہے اور بہت حد تک جھوٹ پر مبنی بھی ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ قدرت ذہین ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ بالکل ایسا ہی ہے۔ کیا وقت کے ساتھ جھریوں میں اضافہ ہوتا ہے؟ بالکل لیکن ساتھ ہی آپ کو انھیں دیکھنے کا دل بھی نہیں چاہتا۔ کیا آپ کا وزن بڑھتا ہے اور آپ کو کپڑے پورے نہیں آتے؟ لیکن ساتھ میں آپ کے لیے یہ بات معنی نہیں رکھتی کہ لوگ آپ کے کپڑوں کے بارے میں یا آپ کے جسم کی بناوٹ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ آپ کی خود شناسی اور خود اعتمادی میں وقت کے ساتھ بہتری دیکھنے کو ملتی ہے۔
صرف یہی نہیں لیکن متعدد اور بھی ایسی چیزیں ہیں جو عمر گزرنے کے ساتھ بہتر ہو جاتی ہیں اور کچھ اتنی جلدی ختم نہیں ہوتیں جتنا خیال کیا جاتا ہے۔ کچھ صلاحیتیں جو 20 اور 30 برس کی عمر میں نہیں بلکہ 40 سے زیادہ عمر کے افراد بہتر کر سکتے ہیں جیسے ایک تحقیق کے مطابق الٹرا میراتھون میں حصہ لینے کے لیے خواتین کی بہترین عمر 40 سے 44 سال جبکہ مردوں کے لیے 45 سے 49 سال ہے۔
اس کے علاوہ میں کچھ اور مثالیں بھی دے سکتی ہوں۔
علمی عادات
اس سے قبل مقبول سوچ یہ تھی کہ آپ کا دماغ 20 برس کی عمر میں اپنےعروج پر پہنچ جاتا تھا، درمیانی عمر میں سنبھل جاتا تھا اور پھر بڑھاپے میں آہستہ آہستہ تنزلی کی جانب گامزن ہو جاتا تھا۔
تاہم اب یہ بات ہمیں معلوم ہو چکی ہے کہ ہمارا دماغ ہماری پوری زندگی کے دوران تبدیل ہوتا رہتا ہے تاہم جہاں کچھ صلاحیتیں وقت کے ساتھ کمزور ہو جاتی ہیں جیسے یادداشت، کم وقت کے لیے لیے یاد رکھنا تاکہ اسے پراسس کیا جا سکے، وہیں کچھ میں بہتری بھی آتی ہے۔
امریکہ میں ہارورڈ ہیلتھ میگزین میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق عمر کے ساتھ ’دماغ معلومات کے مختلف ذرائع کے درمیان رشتے ڈھونڈنے کے قابل ہو جاتا ہے، اسے کسی بھی مسئلہ کو مختلف زاویے سے یا اس کی بڑی تصویر دیکھنے میں آسانی ہوتی ہے اور کسی بھی پہلو کے عالمی سطح پر ہونے والے اثرات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‘ یعنی دانائی عمر کے ساتھ بڑھتی ہے۔
امریکہ کی جارج یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل ٹی المین اور پرتگال کی یونیورسٹی آف لسبن میں اسسٹنٹ پروفیسر جواؤ ویریسیمو کی تحقیق کے مطابق عمر کے ساتھ ذہن کی دو صلاحیتوں میں بہتری آتی ہے۔
ایک تو آپ دماغ کا اپنے وسائل کا صحیح جگہ استعمال اور دوسرا ایسی معلومات کو ایک طرف رکھنا جو ہمارے لیے ضروری نہیں اور اہم چیز پر دھیان دینا۔
المین نے بی بی سی منڈو سے زوم پر بات کرتے ہوئے کہا جس میں جواؤ بھی موجود تھے کہ ’جیسے اس وقت میں آپ کے چہرے پر غور کر رہا ہوں اور جواؤ کی مسکراہٹ کو نظر انداز کر رہا ہوں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’لیکن اس کے علاوہ بھی صلاحیتیں بہتر ہوتی ہیں جن کے بارے میں پہلے سمجھا جاتا تھا کہ یہ ابتر ہوتی ہیں اور ہم تحقیق میں یہ دیکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ ان میں بہتری آتی ہے۔ جیسے الفاظ کے ذخیرے میں اضافہ اور اپنے جذبات پر قابو۔ یہ سب چیزیں ممکنہ طور تجربہ کے باعث بہتر ہوتی ہیں۔‘
المین 61 برس کے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے تجربے کے مطابق کہ وہ اب بھی ’ان مشکل چیزوں میں وقت کے ساتھ بہتر ہو رہے ہیں جیسے سائنسی مقالے لکھنا اور تحقیق کرنا۔ میرے خیال میں میں اپنے عروج پر آج سے 10 سے 15 سال بعد پہنچوں گا۔ میں اب بھی بہتر ہو رہا ہوں۔‘
مدافعتی نظام
جہاں ہمارے جسم کا دفاعی نظام عمر کے ساتھ کمزور ہوتا جاتا ہے (جیسے ہمارے جسم میں وائٹ بلڈ سیلز کم پیدا ہوتے ہیں اور وہ کم موثر طریقے سے کام کرتے ہیں) وہیں ہمارے مدافعتی نظام کا ایک اور حصہ ہے جو کہ کئی سال میں مختلف پیتھوجینز کا سامنا کرنے کی بدولت مضبوط ہو جاتا ہے۔
یہاں ہم مدافعتی نظام کی یادداشت کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو ہمارے دماغ کی یادداشت کی طرح کام کرتا ہے۔
کوئینز لینڈ یونیورسٹی کے ریسپیریٹری میڈیسن کے پروفیسر جان اپہم بی بی سی منڈو کو بتاتے ہیں کہ ’پہلی بار جب ہمارا جسم کسی خاص قسم کے انفیکشن کا سامنا کرتا ہے تو یہ بہت بیمار ہو جاتا ہے لیکن دوسری، تیسری یا چوتھی بار جب آپ اس کا سامنا کرتے ہیں، تو آپ نے پہلے ہی مناسب اور مؤثر طریقے سے جواب دینا سیکھ لیا ہوتا ہے۔
’یوں آپ اس سے بیمار نہیں ہوتے یا اگر ہوتے بھی ہیں تو یہ پہلی بار کے مقابلے میں خاصا کمزور حملہ ہوتا ہے۔‘
مدافعتی یادداشت خاص طور پر ابتدائی زندگی میں اچھی نہیں ہوتی۔
پروفیسر جان اپہم کہتے ہیں کہ ’یہ بچپن، جوانی اور درمیانی عمر میں بہتر سے بہتر ہوتی جاتی ہے اور یہ آپ کے 60 کی دہائی کے آخر، 70 کی دہائی کے اوائل تک بہت اچھی طرح سے کام کرنے لگتی ہے۔‘
نتیجتاً بوڑھے لوگوں کو کم زکام یا فلو کا سامنا کرنا پڑتا ہے – جب تک کہ انھیں دیگر بنیادی بیماریاں نہ ہوں۔ خاص طور پر چھوٹے بچوں کے مقابلے میں، جن کے لیے زیادہ تر پیتھوجینز نئے ہوتے ہیں اور وہ ہر وقت بیمار رہتے ہیں۔
مدافعتی نظام ’70 سال کی عمر کے آس پاس جزوی طور پر کمزور ہونا شروع ہو جاتا ہے۔‘
ایک اور اضافی فائدہ الرجی کی شدت میں کمی ہے۔
اپہم کہتے ہیں کہ ’60 یا 70 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو بچوں یا بڑوں کے مقابلے میں نسبتاً کم الرجی ہوتی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ اس حقیقت کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ آپ کا مدافعتی نظام اتنا مضبوط رد عمل ظاہر نہیں کر رہا ہے۔‘
’مضبوط یا کمزور مدافعتی نظام کا ہونا حالات کے لحاظ سے فائدہ مند یا برا ہو سکتا ہے: اگر یہ زیادہ فعال نہیں تو یہ آپ کو انفیکشن ہونے پر ایک مسئلہ ہو سکتا ہے لیکن درحقیقت یہ الرجی کے لحاظ سے یہ ایک مثبت بات ہے۔
خوشی
خوشی کو اعداد و شمار کے ذریعہ بتانا ایک مشکل عمل ہے لیکن سائنس کم از کم 90 کی دہائی سے اس کی وضاحت کرنے کا طریقہ تلاش کر رہی ہے۔
اور اگرچہ بہت سے عوامل ہیں جو زندگی سے لطف اندوز ہونے کی ہماری صلاحیت کو متاثر کرتے ہیں، سماجی و اقتصادی صورتحال، صحت وغیرہ، محققین نے پایا کہ ان عوامل یا آبادی سے قطع نظر، ایک نمونہ ہے: خوشی انگریزی حرف U کی شکل کی ہوتی ہے۔
یعنی لوگ جوانی میں نسبتاً خوش ہوتے ہیں، یہ احساس عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ زوال پذیر ہوتا ہے (اس کی عام مثال درمیانی عمر کا مشہور بحران ہے) اور پھر 70 سال کی عمر تک دوبارہ اس میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
برطانیہ میں یونیورسٹی آف واروک کے ماہر معاشیات اینڈریو اوسوالڈ اور امریکہ کے ڈارٹ ماؤتھ کالج کے ڈیوڈ بلانچ فلاور نے پہلے امریکہ اور مغربی یورپ کے پانچ لاکھ افراد کا ڈیٹا استعمال کرتے ہوئے U مفروضے کا تجربہ کیا اور درمیانی عمر میں خوشی اور اطمینان میں کمی کا مشاہدہ کیا۔
بعد میں ایشیا، جنوبی امریکہ اور مشرقی یورپ میں جمع کی گئی معلومات کے علاوہ 72 ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں سروے کیے جو اسی ٹرینڈ کی تصدیق کرتے ہیں۔
ہم عمر کے ساتھ زندگی سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت کیوں دوبارہ حاصل کرتے ہیں؟
بہت سے نظریات اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ بوڑھے لوگ نوجوان نسلوں سے زیادہ خوش یا زیادہ مثبت خیالات رکھتے ہیں۔
ڈانا روزن فیلڈ برطانیہ کی یونیورسٹی آف ویسٹمنسٹر میں سوشل جیرونٹولوجسٹ ہیں۔ وہ دی کنورسیشن کے ایک مضمون میں بتاتی ہیں کہ اصولی طور پر ’نوجوانوں کو بوڑھے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ دباؤ والے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے (جیسے اجرتوں میں کمی یا بے روزگاری)۔
اس کے علاوہ، عمر کے ساتھ ’ہم یادوں اور مثبت معلومات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور ہم اپنے جذبات کو کنٹرول کرنے میں بہتر ہو جاتے ہیں۔‘
امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی میں سائیکالوجی کی پروفیسر لورا کارلسٹن اسے ’انسانوں کی اپنی موت کو پہچاننے اور اپنے وقت کو بہتر استعمال کرنے کی منفرد صلاحیت‘ سے جوڑتی ہیں۔
کارلسٹن کا کہنا ہے کہ جیسا کہ بوڑھے لوگ جانتے ہیں کہ وہ موت کے قریب ہیں وہ حال میں بہتر جینا سیکھتے ہیں۔ وہ اس پر توجہ مرکوز کرتے ہیں جو آج اہم ہے، جیسے کہ وہ کیا محسوس کر رہے ہیں اور طویل المدتی اہداف پر کم توجہ دیتے ہیں۔
جنسی تسکین
بہت سے افراد کی توقعات کے برعکس، مختلف مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ بوڑھے لوگوں میں جنسی تسکین بہت زیادہ ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر امریکہ عمر رسیدہ خواتین میں جنسی سرگرمی اور اطمینان کے بارے میں ایک تحقیق میں معلوم ہوا کہ 80 سال کی عمر کی نصف خواتین کو جنسی ملاپ کے دوران ہمیشہ یا زیادہ تر وقت ہیجانِ شہوت یعنی آرگیزم ہوا۔
سیکس عمر کے ساتھ زیادہ خوشگوار تجربہ کیوں بن سکتا ہے؟
امریکہ میں مقیم ماہرِ نفسیات کیٹالینا لاسن بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ ’جوں جوں ہماری عمر بڑھتی ہے، ہمارے اندر جذباتی پختگی پیدا ہوتی ہے اور ہمیں یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں اور یہ وہ جگہ ہے جہاں سے ہمارا جنسی تجربہ بہتر ہوتا ہے اور ہم حقیقت میں ان چیزوں پر توجہ مرکوز کرنا شروع کرتے ہیں جو ہمیں خوشی دیتی ہیں۔‘
خود اعتمادی، خود شناسی اور اپنے جسم کے حوالے سے اطمینان محسوس کرنا بھی جنسی تجربے کو مزید خوشگوار بنانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
نٹالی ولٹن، ایک معالج اور سماجی کارکن ہیں جو بوڑھے لوگوں میں سیکس کے حوالے سے تحقیق کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اس میں ایک سادہ سی حقیقت یہ بھی شامل ہے کہ بڑھاپے میں ہمارے پاس عام طور پر زیادہ فارغ وقت ہوتا ہے اور ہماری روزمرہ کی زندگیوں میں دوسرے بکھیڑے کم ہوتے ہیں جس کے باعث سیکس کے لیے وقت مل جاتا ہے۔‘
’اگر آپ عام درمیانی عمر کے بالغ افراد کے بارے میں سوچتے ہیں جو ملازمت کرتے ہیں، ان کی اولاد ہے اور وہ دوسرے لوگوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں، تو یہ سب بہت مصروف زندگی کا باعث بنتا ہے۔‘
تاہم یہ کوئی ایسی چیز بھی نہیں، جس میں جادوئی طور پر بڑھاپے میں داخل ہونے سے تبدیلی واقع ہو جاتی ہو۔
وہ کہتی ہیں کہ ’کسی بھی عمر میں سیکس کا تعلق آپ کے سیکس سے متعلق رویے کے ساتھ ہے، لہٰذا اگر آپ کی جنسی زندگی 50، 60 یا 70 کی عمر تک پہنچنے سے پہلے اچھی نہیں تھی، تو یہ اچانک بہتر نہیں ہو گی۔‘
اور اس ضمن میں سامنے آنے والی جسمانی رکاوٹوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اگرچہ یہ سچ ہے کہ بڑھاپا اپنے ساتھ دائمی بیماریاں، نقل و حرکت کے ساتھ پیچیدگیاں یا مینوپاز کے بعد خواتین میں اندام نہانی کی ایٹروفی یا مردوں میں عضو تناسل کی استادگی حاصل کرنے میں دشواری جیسے مسائل لا سکتا ہے۔
ولٹن اور لاسن اس بات سے متفق ہیں کہ ’یہ وہ مشکلات ہیں جن پر قابو پایا جا سکتا ہے۔‘
’سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ اپنے ساتھی کے ساتھ اور اپنے معالج کے ساتھ کھل کر بات چیت کریں اور یہ یقینی بنائیں کہ آیا جو ادویات آپ لے رہے ہیں ان سے آپ کی جنسی زندگی پر مضر اثرات ہو سکتے ہیں۔‘
لاسن کا کہنا ہے کہ بہت سی ثابت شدہ حکمت عملیاں ہیں (لبریکنٹ کے استعمال سے لے کر جنسی کھلونوں کے استعمال تک) جو استادگی اور شہوت بڑھانے میں مدد دے سکتے ہیں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ ’جنسی تعلق کیسا ہونا چاہیے اس بارے میں موجود مفروضوں کو ایک طرف رکھ دیں‘ اور یہ یاد رکھیں کہ ’جنسی تسکین کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ آپ سیکس کتنی مرتبہ کر رہے ہیں یا کیسے کر رہے ہیں۔‘
’اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ آپ اپنے جسم سے کس حد تک جڑے ہوئے ہیں اور آپ اپنے ساتھی سے کتنے قریب ہیں۔‘
اس لیے اگر آپ کے سر پر سفید بال آنا شروع ہو گئے ہیں اور آپ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی سالگرہ کی تاریخیں بھول چکے ہیں، تو مایوس نہ ہوں اور اس نئے مرحلے کو قبول کریں۔
ابھی ایسی بہت سی صلاحیتیں ہیں جو بہتر ہونی ہیں اور بہت سے ایسے تجربات ہیں جو آپ کے منتظر ہیں۔