مہندی کا نام آتے ہی جو بات سب سے پہلے میں آتی ہے وہ یہ کہ اب کسی کی شادی کا ذکر ہونے لگا ہے، مگر مختلف مذاہب میں حنا یا مہندی کا استعمال شادی کے علاوہ بھی کیا جاتا ہے، مگر یہاں معاملہ ہے شادی کا۔ مہادی کو اپنی زندگی کے خاص دن کا بے صبری سے انتظار تھا یعنی اپنی شادی کے دن کا۔ دولہا مہندی کی کون لے کر آیا اور مہادی کے ہاتھ پر مہندی سے خوبصورت پھول بوٹیاں بنائی گئیں۔
مہادی کو مہندی بہت پسند تھی۔ ان کی سہیلیاں اُن کا مزاق اُڑا رہی تھیں کہ مہادی کے ہاتھوں پر لگی مہندی یہ بتا سکتی ہے کہ دولہا ان سے کتنا پیار کرتا ہے۔ انھوں نے ان کے دونوں ہاتھوں اور پیروں کو مہندی کے خوبصورت ڈیزائنوں سے بھر دیا۔
کچھ دیر بعد مہادی کو اس جگہ پر خارش ہونے لگی جہاں مہندی لگائی گئی تھی۔ لیکن شادی کے جشن اور افراتفری میں انھوں نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔
اس کے بعد تھکاوٹ کی وجہ سے مہادی سو گئیں۔ اگلے دن جب وہ بیدار ہوئیں تو اُن کے بازوؤں اور ٹانگوں میں درد محسوس ہو رہا تھا۔ انھوں نے جب اُن جگہوں پر توجہ دی کہ جہاں درد ہو رہی تھی تو یہ جانا کہ تکلیف، درد اور سوجن اُس جگہ پر ہے کہ جہاں مہندی لگائی گئی تھی۔
شادی کی خوشی
مہادی نے اپنے پیروں اور ہاتھوں سے مہندی کو پانی کی مدد سے اچھی طرح دھویا لیکن انھیں نے معمولی سی الرجی سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔ دولہے کے کچھ مہمان آئے، دلہن سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے مہادی کے ہاتھوں پر چھالے دیکھے۔ انھوں نے مہادی کو فل فور مشورہ دیا کہ ان پر ہلدی اور نیم کے پتے لگاؤ یہ سب ٹھیک ہو جائیں گے۔ لیکن اس مشورے نے مہادی کی مشکلات تو کم نہیں کیں بلکہ اُن میں اضافہ ضرور کر دیا۔
اُسی شام، مہادی کی کلائی پر ایک بڑا داغ اور سوجن نمودار ہوئی۔ تبھی انھیں احساس ہوا کہ اب تو حالت زیادہ خراب ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے بعد انھیں رات کو ڈرماٹولوجسٹ یعنی ماہر امراضِ جلد کے پاس لے جایا گیا۔
وہاں اینٹی الرجی کی گولیاں اور مرہم دی گئی۔ اگلی صبح، شادی حال میں بیٹھے گروجی نے مہادی سے کہا کہ وہ شادی کے موقع پر پوجا کی غرض سے جلائی جانے والی آگ میں کچھ ڈال دیں۔
لیکن گروجی نے مہادی کے ہاتھوں پر لپٹی پٹیوں کو دیکھتے ہوئے اُنھیں ایسا کرنے سے فوراً روک دیا، گرو جی کو ایک دم سے اس بات کا احساس ہوا کہ کہیں مہادی کے ہاتھوں پر لپٹی ہوئی ململ کی پٹیاں آگ نا پکڑ لیں۔ اس وقت دولہے نے دلہن کے ہاتھ پر الرجی سے متعلق زخموں کو دیکھا اور حیران رہ گیا۔
دولہے کے اس روئیے نے مہادی کا دل جیت لیا۔ یہ دن تو جیسے تیسے گُزر گیا مگر بعد میں ہاتھوں پر مہندی کی وجہ سے بننے والے چھالے انتہائی خطرناک شکل اختیار کر گئے ان میں سے خون پانی کی طرح رسنے لگا۔ مہادی کو اس حالت کی وجہ سے انھیں اپنا ہنی مون بھی ملتوی کرنا پڑا۔
پہلے انھوں نے اپنے ٹکٹس بھی منسوخ کروا دیے اور شادی کی تقریب اور بعد کے کئی دن مہادی اور ان کے شوہر ہسپتال کے چکر لگاتے رہے۔
الرجی کی وجہ کیا ہے؟
بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ کون میں ملنے والی یہ عام سی مہندی ہی تو ہوتی ہے۔ لیکن بازاروں میں فروخت ہونے والی ان کون مہندیوں میں بہت سی دیگر اجزا کے ساتھ ایک خاص قسم کا کیمیکل بھی ملایا جاتا ہے جسے پی پی ڈی (پیرافینیلینڈیامین) کہا جاتا ہے (پی پی ڈی نامی یہ کیمیکل بالوں کو رنگنے کے لیے بازاروں میں دستیاب ہئیر ڈائے میں خاصی مقدار میں موجود ہوتا ہے اور اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ یہ بالوں کو ایک مستقل یعنی نا اُترنے والا رنگ دے)، یہ کسی حد تک جامنی رنگ کا ہوتا ہے اور مہندی کو زیادہ رنگین یعنی مہندی کے رنگ کو گاڑھا بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ کیمیکل یعنی پی پی ڈی ہر فرد کے لیے ہی خطرناک ثابت ہو مگر کچھ کی جلد کے لیے یہ کافی زیادہ تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ ہم نے چنئی کے کلپکم سرکاری ہسپتال میں ڈرماٹولوجسٹ ونتھی سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے۔
ونتھی کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’جس طرح ایک دوا اگر کسی کے لیے جان بچانے والی ثابت ہوسکتی ہے تو وہی دوا کسی کی جان لے بھی سکتی ہے، اسی طرح، ہر شخص کا جسم کچھ چیزوں کو قبول کرتا ہے اور دوسروں کو سنگین نتائج کے ساتھ مسترد کرتا ہے۔‘
’حنا حنا‘
پرانے زمانے میں مہندی کے پتے کاٹ کر جسم کو رنگنے کے لیے استعمال کئے جاتے تھے۔ شادیوں میں بھی دلہن کے ہاتھوں اور پیروں پر مہندی لگائی جاتی تھی۔ مگر وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں اس میں اضافہ ہوا وہیں وقت بچانے کے لیے نا صرف اس میں جدت آئی بلکہ بات آگے بڑھتے بڑھتے کیمیکلز تک جا پہنچی اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کے استعمال میں بھی اضافہ ہوا۔
دیوالی، سالگرہ، شادیوں اور عیدوں حتیٰ کے ہر مذہب میں ہی مہندی خواتین کے ہاتھوں کی زینت بنتی ہے جو نہ صرف انڈیا بلکہ عرب ممالک اور پاکستان میں بھی ایک عام روایت ہے۔
تاریخی طور مہندی کے پتوں کو کاٹنے کے بعد اپنے ہاتھوں کو لیموں اور چائے کی پتی جیسی قدرتی اشیاء سے سجایا جاتا تاکہ سرخ رنگ کو اپنی مرضی کے مطابق کم سے کم یا زیادہ بنایا جا سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ جب ہاتھوں پر مہندی لگائی جاتی تو وہ پھر کوئی عام دن نہیں رہتا تھا وہ ایک خاص دن ہو جاتا جس میں یہ خواتین ذہنی طور پر اپنے آپ کو ہلکا اور پُرسکون محسوس کرتیں۔
مہندی کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشش
لڑکیاں ایک ساتھ آتیں اور ندی کے کنارے سے مہندی کے پتے کاٹتی تھیں۔ ایک پتھر پر، وہ پتوں کو تقسیم کرتیں اور انھیں ایک اور پتھر کی مدد سے پیس لیتی تھیں، اور اپنی انگلیوں کے پوروں کو اس سے رنگ لیتی تھیں۔
پرانے دور کی اگر بات کریں تو مہندی کا ایک ہی ڈیزائن ہوا کرتا تھا جسے عُرفِ عام میں تو ’ٹیکی‘ والا ڈیزائن کہا جاتا ہے جس میں ہتھیلی کے درمیان میں ایک بڑا نقطہ اور ارد گرد چار کونوں پر چار چھوٹے نقطے بنائے جاتے ہیں اور اُنگلیوں کے پوروں پر مہندی لگا کر انھیں رنگ دیا جاتا ہے۔
لیکن گھر پر تیار کی جانے والی اس حنا یا مہندی میں پانی کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے اسے لگانے میں مُشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
اس کے بعد خواتین نے مہندی لگانے کے مختلف طریقوں پر غور کرنا شروع کیا، جس کے بعد مختلف مراحل سے ہوتے ہوئے اس روائیتی مہندی نے کون کی شکل اختیار کر لی اور اب اسی شکل میں اسے بازاروں میں فروخت بھی کیا جاتا ہے۔
معاملہ یہاں رُکا نہیں ہے اس کے بعد اس مہندی کی کون میں مختلف کیمیکلز کا استعمال کیا جانے لگا ہے کے جن کی مدد سے ایک تو انھیں زیادہ لمبے وقت تک کے لیے محفوظ رکھنے میں مدد مل سکے اور ساتھ ہی اس کے رنگ میں بھی اضافہ کیا جا سکے۔
مہندی کے رنگ پر طنز
مہندی کی ایک اور خاص بات یہ بھی ہے کہ کچھ لوگوں کے ہاتھوں پر تو اس کا رنگ بہت تیز اور گہرے سرخ رنگ میں سامنے آتا ہے مگر کچھ لوگوں کے ہاتھوں پر اس کا رنگ بہت ہلکا سا نارنجی ہوتا ہے۔
ہر قسم کی مہندی کا ایک مخصوص رنگ ہوتا ہے۔ بہت سے لوگوں نے اسے محبت سے جوڑ رکھا ہے۔ دلہن کو کہا جاتا ہے کہ اگر مہندی نہیں کھلتی یا اس کا رنگ گاڑھا نہیں ہوتا تو لڑکیاں بھی ایک دوسرے کا مذاق اڑاتی ہیں یا ایک دوسرے پر طنز کرتی ہیں۔
نتیجتاً پی پی ڈی کو مہندی میں شامل کر کے اسے مزید سرخ بنایا جاتا ہے۔
مہندی کو سرخ کرنے کے لیے کیا کرتے ہیں؟
ڈاکٹر وانتھی کا کہنا ہے کہ مہندی کا سائنسی نام ’لوسونیا انرمس‘ ہے۔ اس میں لاسن نامی ایک پگمنٹ کچھ دیر کے لیے جلد پر لگایا جاتا ہے۔ یہ ایک قسم کا عمل ہے جو کسی بھی مہندی کو اس وقت مزید سرخ کر دیتا ہے جب وہ جسم کے پروٹین کی شکل کے خلیات کے ساتھ لمبے وقت تک رہتا ہے۔
کیمیائی طور پر تیار کردہ مہندی کی کون میں پی پی ڈی نامی کیمیکل ملا کر اس کی سرخی میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ یہ ایک جامنی خوشبودار کیمیکل ہے جو جسم کے سامنے آنے پر سرخ اور پھر سیاہ ہوجاتا ہے۔
دیگر صنعتیں جو پی پی ڈی استعمال کرتی ہیں
ڈاکٹر وانتھی کہتی ہیں ’یہ سفید بالوں کو سیاہ کرنے کے لیے استعمال ہونے والے بالوں کے رنگ میں سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے صرف دو فیصد استعمال کرنے کی اجازت ہے، لیکن بہت سے ڈائی مینوفیکچررز یا بالوں کے رنگ بنانے والی کمپنیاں اسے زیادہ استعمال کرتے ہیں، اور یہ زیادہ تر کپڑوں کے رنگوں میں استعمال کیا جاتا ہے، اور ماضی میں یہ فوٹو گرافی میں ربڑ بنانے کے لیے خام مال کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا۔‘
جب یہ کیمیکل جلد، آنکھوں اور منھ میں چلا جائے تو اس کے جسم پر مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
مسلسل استعمال کا خطرہ
ڈاکٹر وانتھی نے بالوں کے رنگ کے مسلسل استعمال کے ضمنی اثرات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے پاس آنے والے مریض مجھ پر یقین نہیں کرتے جب میں انھیں بتاتی ہوں کہ انھیں ان کے بالوں کی رنگت سے الرجی ہے۔ وہ مجھے کہتی ہیں کہ میڈم، ہم 10 سال سے بالوں کو رنگ کرنے کا ایک ہی برانڈ استعمال کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’لوگ ڈائی لگائے بغیر باہر نہیں جا سکتے ہیں ایسا کرنے میں انھیں شرم محسوس ہوتی ہے۔‘
جب کوئی کیمیکل مسلسل جلد پر لگایا جاتا ہے تو یہ جلد کو بہت حساس بنا دیتا ہے اور اگر اس میں تبدیلی آجائے تو یہ الرجی، بالوں کا جھڑنا اور جلد پر سفید دھبے وغیرہ کا باعث بن سکتا ہے۔
جس طرح بار بار استعمال بالوں کی اور سر کی جلد کی الرجی کا سبب بن سکتا ہے، اسی طرح پی پی ڈی کیمیکل سے تیارکردہ مہندی بھی الرجی کا سبب بن سکتی ہے۔ ڈرماٹولوجسٹ وانتھی کا کہنا ہے کہ ’اس لیے جب لوگوں کو مہندی سے الرجی نہیں ہوتی تو وہ اکثر مہندی کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اس سے کسی نہ کسی موقع پر مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر وانتھی نے بتایا کہ ’ہیئر ڈائی الرجی کے ایک مریض کو امریکہ کے دورے کے دوران بالوں کو رنگ کرنے یا ڈائے کرنے سے منع کیا گیا لیکن انھوں نے اس کے باوجود ہیئر ڈائی استعمال کیا اورانھیں اس کے بعد ڈبل ڈیکر بس پر سفر کرنے اور زیادہ دیر تک دھوپ میں رہنے کے باعث فوٹو سنتھیسس جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور’انھیں دس دن تک ہسپتال میں رہنا پڑا۔‘
ڈاکٹروں نے اس بارے میں بھی خبردار کیا ہے کہ کچھ لوگ سرخ رنگ کے بجائے مختلف رنگ یا سیاہ مہندی کا استعمال کرتے ہیں اور اسے سیاہ کرنے کے لیے زیادہ پی پی ڈی کا استعمال کیا جاتا ہے۔
ٹیٹو بھی خطرناک ہوسکتا ہے
ماہرین نے یہ بھی خبردار کیا کہ مستقل ٹیٹو میں بھی ایسے کیمیکلز استعمال کیے جاتے ہیں جو گرینولوما یا شدید زخم کا باعث بن سکتے ہیں جس سے خون کے بہاؤ میں مسائل یا دیگر کئی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اور اسی سوئی کے ایک سے زیادہ لوگوں پر استعمال سے ایچ آئی وی اور ٹی بی جیسے مسائل کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ پی پی ڈی کیمیکلز کی وجہ سے ہونے والی سوزش شدید خطرناک ہوتی ہے اور گردن کی سوجن، پیٹ میں درد، قے اور یہاں تک کہ گردے کے ناکارہ اور فیل ہونے جیسے مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔
مہندی لگانے کا محفوظ طریقہ کیا ہے؟
فرض کریں کہ آپ کسی کی مہندی کی تقریب میں جائیں اور سوچیں کہ ایک دن مہندی لگانے میں کیا نقصان ہے تو وہ بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے خاص طور پر جتنا ممکن ہو سکے ان کون مہندیوں سے اپنے بچوں کی نازک جلد کو محفوظ رکھیں۔
لہٰذا مہندی لگانے سے پہلے اس کا ایک چھوٹا سا قطرہ کہنی کے اندر یا کان کے پیچھے لگائیں تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ سوزش یا خارش تو نہیں ہے۔ اس کے بعد آپ کسی اچھے برانڈ کی مہندی ہاتھوں یا پیروں پر لگا سکتے ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ونتھی کا کہنا ہے کہ قدرتی مہندی کے پتوں سے بنی مہندی کیمیائی مہندی سے کہیں زیادہ محفوظ ہے۔