میں پہلی بار ماں بننے والی تھی اور میرا ہونے والا بچہ صحت مند اور نارمل تھا لیکن ایک رات میں بے چین ہو کر اٹھ کر بیٹھ گئی اور بہت دیر اپنی کیفیت سمجھ میں نہیں آئی لیکن جب سمجھ آئی تو میں رونے لگی۔
میرے شوہر میری سسکیاں سن کر اٹھے تو پریشان ہو گئے، پوچھا ’کیا ہوا؟‘ تو پہلے تو مجھے بتاتے ہوئے جھجھک محسوس ہوئی پھر ان کے اصرار پر بتایا کہ ’مجھے بھوک لگ رہی ہے اور ہمت نہیں کہ اس وقت اٹھ کر کچھ پکاؤں کیونکہ جو پکا ہوا ہے وہ کھانے کا دل نہیں کر رہا۔ ‘
یہ سن کر میرے شوہر مسکرانے لگے اور کہا اس میں رونے کی کیا بات ہے مجھ سے کہہ دیتیں۔ پھر انھوں نے میری پسند کا کچھ بنا کر دیا۔ اس کے بعد وہ روزانہ رات کو میرے بستر کے پاس پھل، دودھ، جوس اور سینڈویچز رکھ کر سوتے تھے کہ اگر آدھی رات کو بھوک لگ جائے تو مجھے پھر سے رونا نہ پڑے۔
بات یہیں تک نہیں تھی میں دورانِ حمل پورے نو ماہ تک کچھ بھی کھاتی پیتی تو حلق کھٹّا ہو جاتا۔ اس لیے حمل میں اچار کھانے والی روایت میں نہیں نبھا سکی۔
جذباتی ہونا اور بات بے بات دل بھر آنا کیا ہوتا ہے اس کا صحیح مطلب بھی مجھے تبھی پتا چلا، موڈ اتنا سوئنگ کرتا کہ کرکٹ کی گیند کیا ہی کرتی ہو گی۔ صبح اٹھتے ہی سب سے بڑا ٹاسک ہوتا کہ خود کو قے اور متلی سے کیسے روکا جائے کیونکہ ایک بار یہ کام شروع ہوتا تو سلسلہ دیر تک چلتا۔
میری طرح حمل کے کچھ ایسے ہی تجربات سے گزرنے والی عائشہ عبید کے آٹھ بچے ہیں۔ سب بچوں کی نارمل ڈیلیوری ہوئی اور حمل بھی پیچیدگیوں سے بچے رہے لیکن کسی بھی حمل کے نو مہینے ان کے لیے بھی آسان نہیں رہے۔
وہ کہتی ہیں ’مجھے ہر قسم کے بُو اور خوشبو سے تکلیف ہوتی۔ ادھر کوئی بُو ناک سے ٹکراتی مجھے قے آنا شروع ہو جاتی۔ میں سارا سارا دن ناک پر کپڑا ڈالے رکھتی تھی۔ کھانا پینا نہ ہونے کے برابر ہو گیا تھا۔ یا تو پانی پیتی یا پھر صرف کھیرے کھا سکتی تھی۔ تین ماہ میں میرا وزن بہت کم ہو گیا تھا۔ گھر والوں نے سپورٹ کیا کہ مجھے کچن میں جانا نہیں پڑا لیکن وزن کم ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر نے فولک ایسڈ، کیلشیم اور طاقت کی دواؤں کا ڈھیر مجھے تھما دیا۔‘
عائشہ کے لیے حمل ایک نفسیاتی امتحان بھی تھا کیونکہ پہلے ہی بچے کی دفعہ چھائیوں نے ان کا چہرہ ایسا دیکھا کہ وہ نو ماہ تک خود کو ہی پہچان نہیں پاتیں۔
’میرے چہرے پر بہت زیادہ چھائیاں تھیں، میں پر وقت چہرہ چھپائے رہتی کسی کے سامنے آنے کو دل نہیں کرتا تھا۔ سارا اعتماد ہوا ہو گیا تھا۔‘
وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’غصّہ اور موڈ سوئنگز ہر حمل میں رہے۔ کبھی کبھی کسی عام سے بات پر اتنا زیادہ غصّہ کر جاتی تھی اور پھر بعد میں احساس ہوتا کہ یہ اتنی بڑی بات تھی تو نہیں۔‘
عائشہ بتاتی ہیں کہ ایک چیز جو پہلے حمل سے چلی اور آج تک نہیں گئی وہ ان کی ٹانگ کا درد ہے۔
صرف یہی نہیں بظاہر نارمل نظر آنے والے حمل کے دوران بھی ایسے درجنوں مسائل ہوتے ہیں جو حاملہ خواتین کے لیے یہ نو ماہ مشکل تر بنا دیتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ حمل ایک بیماری نہیں ایک حالت ہے لیکن اس سے جڑے مسائل کی وجہ سے خواتین کے لیے خصوصی توجہ اور دیکھ بھال کی ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
یہی وہ بات ہے جس پر پاکستانی سوشل میڈیا میں بحث ہو رہی ہے۔ خواتین اس بات پر نالاں ہیں کہ ایک ڈاکٹر نے ایسی سطحی بات کیسے کہہ دی۔
ہوا کچھ یوں کہ ایک ڈاکٹر نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر پوسٹ کیا کہ ’حاملہ خواتین کو مریض کی طرح برتاؤ کرنا چھوڑ دینا چاہیے۔۔۔ غیر پیچیدہ حمل ایک بیماری نہیں بلکہ یہ ایک عام جسمانی رجحان ہے۔‘
سوشل میڈیا ردِ عمل
اگرچہ ان ڈاکٹر نے ’حاملہ خواتین کو مریض کی طرح برتاؤ‘ کرنا چھوڑ دینے کا مشورہ ایک اور پوسٹ کے جواب میں کیا تھا جس میں پوچھا گیا تھا کہ ایسا رویّہ بتائیں جو آپ کو استہزایہ انداز میں مسکرانے پر مجبور کرتا ہے لیکن سوشل میڈیا صارفین ان کی اس بات پر کافی ناراض ہو گئے۔
کئی لوگوں نے انھیں احساس دلایا کہ انھیں بحثیت ڈاکٹر حاملہ خواتین کے لیے ہمدردی کے جذبات رکھتے چاہیں تو کسی نے انکی حسّاسیت پر سوال اٹھائے۔
صرف خواتین ہی نہیں کئی مرد حضرات بھی ان کی اس بات پر ناراض ہوئے۔ ایسے ہی ایک صارف داور بٹ نے کہا ’اگرچہ یہ بیماری نہیں لیکن یہ وہ چیز ہے جس کی وجہ سے خواتین مر بھی جاتی ہیں۔‘
اوشاز نامی ہینڈل نے لکھا ’کیا آپ نے آخری سال میں گائناکالوجی کو صیحح سے نہیں پڑھا۔ حمل اگرچہ ایک جسمانی عمل ہے لیکن اس کے جان لیوا خطرات بھی ہوتے ہیں اور شاید حسّاس ترین بھی۔‘
ایک اور صارف نے لکھا ’میرے بھی یہی خیالات تھے جب تک کہ میں خود حاملہ نہیں ہوئی۔ مجھے یقین ہے آپ کے خیالات اپنے حمل کی پہلی سہ ماہی میں ہی بدل جائیں گے۔‘
ایک اور خاتون صارف نے چُبھتا ہوا سوال کیا کہ ’آپ کے خیال میں اپنے اندر ایک ننھا انسان پالنا، ہارمون سے نمٹنا، ممکنہ جان لیوا خطرات کا سامنا کرنا محض کسی پارک میں چہل قدمی کرنے جیسا ہے؟‘
سبحان علی خان نامی ایک صارف نے بھی سوال کیا ’کیا آپ کبھی حاملہ ہوئی ہیں؟ حتیٰ کے ایک غیر پیچیدہ حمل میں بھی بہت کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔ مارننگ سنکنس، بلڈ پریشر کا اوپر نیچے ہونا، مثانے پر دباؤ، کمر اور ہڈیوں کا درد۔۔۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ ایک ڈاکٹر ہوتے ہوئے بھی اپنے مریضوں کے ساتھ ہمدرد نہیں۔‘
غیر پیچیدہ حمل کے مسائل جو خواتین کے لیے پریشان کن ہوتے ہیں
ہم نے ماں بننے والی خواتین سے بات کرکے ایسے ہی چند مسائل کی نشاندہی کی ہے اور گائناکالوجسٹ سے بات کر کے ان کی وجوہات اور حل جاننے کی کوشش کی ہے۔
ڈاکٹر فریسہ وقار پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک ماہر گائناکالوجسٹ ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی حمل کو ایک نارمل یا غیر پیچیدہ حمل نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ کسی بھی وقت ہائی بلڈ پریشر یا ذیابیطس اسے پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔ لہٰذا ہر حمل اور حاملہ خاتون کو اتنی کی توجہ اور سپورٹ درکار ہوتی ہے جتنی کسی پیچیدہ حمل میں دی جا سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’لوگ کو پتا نہیں لیکن اس حالت میں خواتین کو سب سے زیادہ نفسیاتی سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’شوہر کی جانب سے ایک بڑی سپورٹ بچوں کی محدود تعداد ہو سکتی ہے۔ اگر کسی کے تین یا چار بچے ہیں تو وہ مزید بچے پیدا نہ کریں۔‘
غیر پیچیدہ یا نارمل حمل میں ہونے والے مسائل کیا ہیں جو حاملہ خواتین کے لیے پریشان کن ہوتے ہیں۔
1: مارننگ سکنس
حاملہ ہونے والی کسی بھی خاتون کو سب سے پہلے عموماً مارننگ سکنس کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ صبح اٹھنے پر متلی آنا اور بعض معاملات میں قے کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر فریسہ وقار کہتی ہیں کہ اس مسئلے کے لیے دواؤں کی مدد لی جاسکتی ہے تاہم ادرک کا استعمال اس میں مدد گارہوتا ہے۔ دوا سے قے آنے کی شکایت دور ہو سکتی ہے تاہم وہ دیر تک سوئے رہنے کی مخالفت کرتی ہیں۔
ان کا مشورہ ہے کہ ’حاملہ خواتین کے صبح جلدی اٹھنے میں کوئی مسئلہ نہیں، وہ اٹھ کر ناشتہ کریں اور اس کے بعد چاہیں تو دوبارہ آرام کر سکتی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ متلی سے بچنے کے لیے اکثر خواتین دیر تک لیٹی یا سوئی رہتی ہیں اور دن کے 12 بجے تک کچھ نہیں کھاتیں جو ٹھیک نہیں۔ حاملہ خواتین کو صبح اٹھ کر ناشتہ ضرور کرنا چاہیے۔‘
2: تھکن یا سانس لینے میں دشواری
حمل پہلا ہو، دوسرا یا تیسرا کئی خواتین ایک دم سے بہت زیادہ تھکاوٹ اور سانس چڑھنے کی شکایت کرتی ہیں۔ کئی خواتین کا کہنا ہے کہ حمل کے آخری ایّام میں تو سمجھ آتا ہے کہ بچے کے وزن سے تھکن یا سانس پھولے لیکن پہلی سہ ماہی میں بھی ایسا ہی کیوں محسوس ہوتا ہے۔
ڈاکٹر فریسہ وقار بتاتی ہے کہ اس تھکن کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ’حمل کے دوران ایک ہارمون نکلتا ہے جس کا نام پوجسٹرون ہے جو سانس پھولنے کی وجہ بنتا ہے لیکن پھر بھی ایک ٹیسٹ کروا لینا چاہیے کہ آیا حاملہ خاتون خون کی کمی کا شکار تو نہیں۔ ‘
وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’اگر خون کی کمی ہو تو شروع کے حمل میں سپلیمنٹ دیے جاتے ہیں تاکہ یہ کمی پوری کی جا سکے۔ اگر یہ مسئلہ حمل کی آخری سہ ماہی ہے تو حاملہ خاتون کو خون لگانا پڑتا ہے۔
3: جِلد اور بالوں کے مسائل
ایک نارمل حمل کے دوران بیشتر حاملہ خواتین کے جسم میں آنے والے تبدیلیوں میں بالوں کا کمزور ہو جانا، بالوں کا گرنا، جِلد پر خشکی ہونا، ٹانگوں، پیٹ یا چھاتی پر بہت زیادہ کھجلی ہونا بھی شامل ہے۔
کئی خواتین نے بتایا کہ انھیں دورانِ حمل پیٹ اور ٹانگوں پر اس قدر کھجلی ہوتی ہے کہ وہ دن رات کُھجا کُھجا کر جلد پر خراشیں ڈال دیتی ہیں۔
ڈاکٹر فریسہ بتاتی ہیں کہ اگر یہ مسئلہ بہت زیادہ محسوس ہو تو پہلے ایک ٹیسٹ کر کے یہ چیک کرنا ہوتا ہے جگر صحیح طریقے سے کام کر رہا ہے یا نہیں۔
وہ بتاتی ہیں ’اگرچہ اس میں زیادہ خطرے والی بات نہیں ہوتی لیکن اکثر اے ایل ٹی بڑھنے لگتے ہیں جو بعد میں وقت سے پہلے زچگی کا سبب بن سکتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’کُجھلی کی ایک وجہ سکیبیز (جلد بیماری) بھی ہو سکتی ہے، اس کے علاوہ حمل کے دوران جِلد حسّاس ہو جاتی ہے۔ ایسی خواتین کو چاہیے کہ وہ بہت زیادہ لوشن لگائیں، جِلد کو موسچرائز رکھیں۔ حاملہ حواتین جلد کو خشک ہونے سے بچا کر اس شکایت سے بچ سکتی ہیں۔‘
4: جسمانی تبدیلی اور چال ڈھال میں عدم توازن
اکثر خواتین دورانِ حمل وزن بڑھنے سے جسمانی ساخت بدلنے پر ذہنی دباؤ میں آجاتی ہیں۔ کچھ خواتین شکایت کرتی ہیں کہ ان کا وزن بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور انھیں کسی بھی طرح کا لباس پورا نہیں آتا۔
یہی نہیں بلکہ حمل کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ وہ چال ڈھال میں عدم توازن کا شکار ہو جاتی ہے۔ بڑھتے وزن اور چلنے میں دشواری زیادہ تر ملازمت پیشہ خواتین کو فکر مند کر دیتی ہے اور ان کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔
ڈاکٹر فریسہ بتاتی ہیں کہ ’اگر وزن بہت زیادہ بڑھنا شروع ہو جائے تو چیک کروائیں کہ خاتون کو ہائی بلڈ پریشر یا ذیابیطس کی شکایت تو نہیں ہونے لگی کیونکہ اس سے بھی وزن بڑھنے لگتا ہے۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’یہ بہت عام ہے۔ پاکستان میں حاملہ خواتین میں سے ہر تیسری خاتون ہائی بلڈ پریشر یا ذیابیطیس کا شکار ہے۔ حاملہ خواتین کی شروع سے ہی رہنمائی کی جانی چاہیے کہ حمل میں بہت زیادہ وزن نہ بڑھے۔ حمل کے ابتدائی حصے میں بچے کو خوراک کی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی صرف فولک ایسڈ چاہیے ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر فریسہ بتاتی ہیں کہ ’کسی بھی حمل کے دوران خاتون کا زیادہ سے زیادہ 12 کلو تک وزن بڑھنا چاہیے۔ اگر اس زیادہ وزن بڑھ رہا ہے تو یہ ہائی بلڈ پریشر یا ذیابیطیس کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔‘
5: موڈ سوئنگز یا جذباتی کشکمش
حمل کے دوران خواتین کا بلا وجہ رو دینا، ناراض ہونا، چِڑ چِڑاپن یا بات بہ بات جذباتی ہو جانا ایک عام بات ہے۔ یہ ایک طبی حالت ہے جسے پاکستان جیسے معاشرے میں اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
بیشتر حاملہ خواتین ایسے میں جذباتی سپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے احساسِ تنہائی میں مبتلا ہو جاتی ہیں جو بعد میں جا کر پوسٹ پارٹم ڈپریشن جیسی سنگین حالت کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر فریسہ بتاتی ہیں کہ ان کے پاس آنے والی حاملہ خواتین کا یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’اکثر شوہر ہمارے پاس آتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ یہ بہت غصّہ کرتی ہیں، ہر وقت لڑتی رہتی ہیں۔ میں انھیں سمجھاتی ہوں کہ اس بات کو سمجھیں کہ وہ آپ کے بچے کی ماں بننے والی ہے۔ اس کا خیال رکھیں۔‘
ان کے بقول ’پاکستان میں تھوڑا بہت ڈپریشن سبھی کو ہے۔ اس لیے جن حاملہ خواتین کو پہلے سے ڈپریشن ہوتا ہے۔ انھیں سمجھاتے ہیں کہ خود کو مصروف رکھیں۔ اپنی خوراک کا خیال رکھیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’افسوس ہے کہ خواتین کے گھر والے خاص کر ساس نندیں نہیں سمجھتیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمیں تو کچھ نہیں ہوا تھا۔ اس لیے اکثر حاملہ خواتین کو تنہائی میں سمجھانا پڑتا ہے۔‘
6: ذائقوں کے لیے ناپسندیدگی
حاملہ خواتین کے لیے ان کی طبی حالت کی وجہ سے مناسب غذائیت اور مقدار میں خوراک لینا ایک باقاعدہ امتحان بن جاتا ہے۔ پہلے تو کچھ اچھا نہیں لگتا پھر تیزابیت اور بدہضمی جیسے مسائل کھانا مشکل بنا دیتے ہیں۔
ایسی حالت میں کسی کو گوشت پسند نہیں ہوتا تو کسی کو مچھلی کے نام سے ہی متلی آنے لگتی ہے، کوئی کھٹا نہیں کھا سکتی، تو کسی کے لیے میٹھا کھانا بھی دشوار ہوتا ہے۔ خوراک کے معاملے میں محدود آپشنز کی وجہ سے یہ خواتین غذائیت کی کمی کا شکار ہو جاتی ہیں اور یہ سب خون کی کمی اور بچے کی نشوونما میں سست رفتاری کا سبب بن سکتا ہے۔
ڈاکٹر فریسہ وقار کا کہنا ہے کہ ’حمل کے دوران مختلف ذائقوں کے لیے ناپسندیدگی بھی عام رویّہ ہے، کسی کو کھٹا پسند نہیں ہوتا، کسی کو گوشت یا مچھلی پسند نہیں ہوتی۔ ہم کہتے ہیں کہ خون کی کمی کے لیے گوشت کھائیں لیکن انھیں گوشت ہی پسند نہیں ہوتا۔‘
’میرا خیال ہے کہ ان حاملہ خواتین کو اس کی ضرورت سمجھائی جائے تو وہ سمجھ جاتی ہیں اور کھانے کے لیے حل نکال لیتی ہیں۔‘
7: غیر معمولی چیزیں کھانے کی عادت
حمل کے دوران کئی خواتین جہاں ایک طرف روز مرّہ خوراک سے منہ موڑ لیتی ہیں وہیں انھیں کچھ ایسی چیزیں کھانے کی عادت پڑ جاتی ہے یا کھانے کو دل چاہتا ہے جنھیں عام دنوں میں وہ کھانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتیں۔
کچھ خواتین پینسل کا سکّہ، ریزیر، مٹی، لکڑی، چاک یا گاچی کھاتی نظر آتی ہیں۔
ڈاکٹر فریسہ بتاتی ہیں کہ ایسی عجیب چیزیں کھانے کی طلب کی میڈیکل کنڈیشن کو پائیکا (pica) کہا جاتا ہے۔
وہ بتاتی ہیں ’اس میں خواتین کچے چاول، مٹی یا چاک وغیرہ بھی کھاتی ہیں۔ یہ عموماً جسم میں خون کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ خون کی کمی دور ہوتے ہی وہ ایسا کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔‘
8: بے آرامی اور نیند کی کمی
حمل کے شروع میں متلی اور خوراک کی کمی اور آخری سہ ماہی میں بڑھے ہوئے پیٹ کی وجہ سے خواتین بے آرامی کا شکار رہتی ہیں اور نیند کی مسلسل کمی نہ صرف ان کی صحت کو متاثر کرتی ہے بلکہ اس سے ذہنی دباؤ میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے اور مزاج میں چڑ چڑاپن مستقل ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر فریسہ کہتی ہیں کہ ’کئی خواتین خود ہی نیند کی دوائیں لینا شروع کر دیتی ہیں جس سے ہم سختی سے منع کرتے ہیں۔ اس سے بچے کی صحت پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘
ان کا مشورہ ہے کہ ’آرام دہ بستر رکھیں، صبح شام چہل قدمی کریں۔ پیٹ بھر کر کھانا کھائیں، بھوک نہیں لگے گی تو نیند اچھی آئے گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا ’شوہر، ساس اور گھر کے باقی لوگ انھیں نفسیاتی سپورٹ دیں تو خواتین پر سکون رہتی ہیں اور یہ بہتر نیند کا سبب بن سکتا ہے۔‘
9: جنسی تعلقات کے مسائل
اکثر خواتین حمل ٹھہرنے کے بعد جنسی تعلقات قائم کرتے ہوئے خوفزدہ ہوتی ہیں۔ انھیں ڈر ہوتا ہے کہ اس سے بچے کو نقصان نہ پہنچے۔ کئی خواتین تو پورے حمل کے دوران سِرے سے جنسی تعلق ہی قائم نہیں کرتیں۔
اس حوالے سے ڈاکٹر فریسہ وقار کہتی ہیں ’اکثر خواتین کو ویجائنل انفیکشن ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے جنسی تعلق کے دوران جلن یا تکلیف ہوتی ہے تاہم اس کا علاج کر دینے سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے اور اگر بظاہر کوئی مسئلہ نہیں ہو رہا تو جنسی تعلق قائم کرنے کی کوئی پابندی نہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر شروع کے حمل میں خون آ جائے تو خواتین ڈر جاتی ہیں کیونکہ زیادہ تر مِس کیرج کا خطرہ بھی حمل کی پہلی سہ ماہی میں ہی ہوتا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’حمل کے دوران جنسی تعلقات پر کوئی پابندی نہیں، نہ حمل کے اوائل میں نہ حمل کے آخری دنوں میں۔ ہاں البتہ اگر کسی خاتون کو حمل کے ابتدائی دنوں میں جنسی تعلق قائم کرنے پر خون آنے کی شکایت ہوتی ہے تو دو سے تین ہفتے تک جنسی تعلق قائم کرنے سے گریز کریں۔‘
یہی نہیں بلکہ ملازمت پیشہ خواتین کے لیے وقت پر کام مکمل کرنا، بہت دیر تک بیٹھے رہنا، دفتر میں آرام دہ نشست نہ ہونا، کام کے اوقات جبکہ گھریلو خواتین کے لیے کنبے بھر کے لیے کھانا بنانا، روزمرّہ کے کام صاف ستھرائی، کپڑے دھونا اور بچوں کی دیکھ بھال ایسے اضافی امر ہیں جو کسی بھی غیر پیچیدہ حمل کو خواتین کے لیے معمول سے مشکل بنا دیتے ہیں۔
نہ صرف خود خواتین بلکہ ڈاکٹرز بھی یہی کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ سب کام ناگزیر ہیں لیکن شوہر اور خاندان کے ساتھ ساتھ کام کی جگہوں پر ساتھیوں کا تعاون خواتین کے لیے اس وقت کو آسان بنا سکتا ہے۔
جیسا کہ ڈاکٹر فریسہ نے کہا کہ کسی بھی حمل کو مکمل طور پر نارمل یا خطرے سے خالی قرار نہیں دیا جا سکتا اس لیے نہ صرف زچگی تک بلکہ اس کے بعد بھی خواتین کو نفسیاتی سپورٹ دینا بہت ضروری ہے کیونکہ ایک انسان کو اپنے اندر پالنا اور پھر ایک نئی زندگی کو جنم دینا کوئی عام سی بات ہرگز نہیں۔