بلیو زون ڈائٹ کا چرچہ پھیل رہا ہے۔ صرف ٹک ٹاک پر ہی اس سے متعلق ایک کروڑ سے زیادہ پیش ٹیگ موجود ہیں۔ اس خوراک کے ممکنہ فوائد پر روشنی ڈالنے والی ایک نئی ڈاکومینٹری سیریز بھی آ چکی ہے۔
لیکن اس خوراک سے جڑی دلچسپی کے باوجود حقائق کا تعین کرنا اور یہ جاننا کہ آیا یہ واقعی صحت مند غذا ہے یا نہیں، مشکل ہو سکتا ہے۔ اسی لیے بطور ماہر غذائیت، میں نے اس پر تحقیق کا فیصلہ کیا۔
بلیو زون کیا ہے؟
بلیو زون سائنسی اصطلاح نہیں ہے لیکن اسے دنیا کے ان حصوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جہاں بسنے والے سو سال یا اس سے بھی طویل عمر پاتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق ان علاقوں میں رہنے والوں کا سو سال کی عمر تک زندہ رہنے کا امکان امریکہ کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ہے۔
اس اصطلاح کو امریکی مصنف ڈان بوئیٹنر نے مشہور کیا تھا۔ انھوں نے جن پانچ بلیو زون کی شناخت کی وہ یہ ہیں؛ یونان کا اکاریا، کیلیفورنیا کا لوما لنڈا، کوسٹا ریکا کا نکویا پننسولا، جاپان میں اوکیناوا اور اٹلی میں سارڈینیا۔
کہا جاتا ہے کہ ان علاقوں میں ذیابطیس، دل کی بیماریاں اور سرطان کی شرح بہت کم ہے۔ بوئیٹنر نے ان علاقوں کے باسیوں کی چند مشترکہ قدریں تلاش کیں تاکہ یہ وضاحت کی جا سکے کہ ان کی طویل العمری اور اچھی صحت کا راز کیا ہے۔
ان مشترکہ قدروں میں سے ایک خوراک ہے اگرچہ دیگر عوامل بھی شامل ہیں۔
بلیو زون ڈائیٹ میں کیا شامل ہے؟
بلیو زون ڈائیٹ بنیادی طور پر سبزیوں اور پھلوں پر مشتمل ہوتی ہے لیکن یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ ہر خطے کی خوراک ثقافتی، تاریخی، مذہبی اور معاشرتی روایات کی بنا پر ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہے۔ تاہم ان سب میں کچھ باتیں مشترک ہیں۔
پھل اور سبزیاں
بلیو زون کے باسی کثرت سے سبزیں اور پھل کھاتے ہیں جو ضروری وٹامن، معدنیات، فائبر سے بھرپور اور صحت کے لیے فائدہ مند ہیں۔
اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ پھل اور سبزیوں پر مشتمل خوراک سے دل کی بیماریوں اور سرطان ہونے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ تحقیق یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ پھل اور سبزیوں پر مشتمل خوراک عمومی صحت، جلد اور ہاضمے کے لیے بھی مفید ہوتی ہے۔
برطانیہ میں طبی حکام کے مطابق روزانہ کی خوراک میں چار سو گرام پھل اور سبزیاں شامل کرنا صحت کے لیے اچھا ہوتا ہے۔
دالیں، پھلیاں اور اناج
پروٹین پر مشتمل خوراک بلیو زون میں اہم سمجھی جاتی ہے جس کے بیش بہا فوائد ہوتے ہیں۔ یہ فائبر سے بھرپور ہیں اور ان میں چربی بھی کم ہوتی ہے جس کے معدے، آنتوں اور دل پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
بلیو زون کے باسی اناج کی کافی مقدار کھاتے ہیں۔ اس میں چربی کی مقدار کم ہوتی ہے لیکن فائبر کافی زیادہ ہوتا ہے۔
اس سے فیٹی ایسڈ، وٹامن بی، فولک ایسڈ اور دیگر غذائیت سے بھرپور چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔ ان میں جو، گندم، بھورے چاول اور مکئی شامل ہیں۔
ایسی خوراک دل کی بیماریوں کے خطرات کم کرنے میں کافی مفید ہوتی ہے۔
کم چربی والی غذا
ان پانچوں علاقوں میں بسنے والے ایسی غذا کے شوقین ہیں جس میں چربی کی مقدار کم ہوتی ہے۔
لیکن گوشت، مکھن اور پنیر کے بجائے یہ لوگ زیتون کا تیل، میکریل مچھلی اور ایواکاڈو پر زیادہ انحصار کرتے ہیں جن کی وجہ سے کولیسٹرول کی مقدار کم رہتی ہے اور دل کی بیماریوں کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ یہاں کے باسی بادام، وال نٹ، پستہ کا روز مرہ کی بنیاد پر استعمال کرتے ہیں۔ ایک صحت مند غذا کے ساتھ ان کو استعمال کرنے سے دل محفوظ رہنے کے علاوہ کئی اور فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔
فرمینٹڈ خوراک
فرمینٹڈ خوراک میں پرو بائیوٹکس ہوتے ہیں یعنی ایسے بکٹیریا جو صحت بخش ہوتے ہیں اور ہاضمے کے لیے اچھے ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر اوکیناوا میں میسو سوپ عام ہے۔ تاہم فرمینٹڈ خوراک کے طویل المعری پر اثرات کے بارے میں مذید تحقیق کی ضرورت ہے کیوں کہ ان کے بارے میں بہت کچھ ابھی نامعلوم ہے۔
مچھلی
بلیو زون میں ہفتے میں تین بار مچھلی کھائی جاتی ہے لیکن کم مقدار میں۔ مچھلی میں گوشت کے مقابلے میں کم چربی ہوتی ہے اور یہ غذائیت سے بھرپور ہوتی ہے۔ اس میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ بھی ہوتا ہے جو دماغ اور دل کی صحت کے لیے مفید ہے۔
برطانیہ میں تجویز کیا جاتا ہے کہ ایک صحت بخش غذا میں ہفتے میں دو بار مچھلی کھانی چاہیے جن میں سے ایک سیلمن، سارڈین یا ٹراؤٹ ہو۔
گوشت
گوشت کا استعمال بلیو زون ڈائیٹ میں کم مقدار میں کیا جاتا ہے اور بکثرت نہیں کھایا جاتا۔ سارڈینیا کی خوراک میں گوشت عام طور پر اتوار یا خصوصی موقعوں پر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
تاہم ایسا نہیں کہ ہر خطے میں ہی کم گوشت کھایا جاتا ہے۔ نکویا پننسولا میں ادھیڑ عمر باسیوں کی نصف تعداد ہفتے میں تین سے پانچ بار گوشت کھاتی ہے۔
بیف، مٹن صحت بخش تو ہوتے ہیں کیوں کہ ان میں پروٹین، معدنیات اور وٹامن ہوتے ہیں لیکن ان کا استعمال اعتدال کے ساتھ کرنا ضروری ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ ضروری ہے کہ پروسیسڈ گوشت کم کھایا جائے۔
ریڈ وائن
بلیو زون میں بسنے والے لوگ دن میں ایک یا دو گلاس ریڈ وائن پیتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر آپ شراب نہیں پیتے تو آپ اس مضمون کی وجہ سے شراب نوشی شروع کر دیں۔
ریڈ وائن کی اینٹی اوکسیڈنٹ خصوصیات کی وجہ سے اس کے صحت پر اثرات کے بارے میں بحث جاری ہے لیکن یہ کسی صحت مند غذا کا لازمی حصہ نہیں سمجھی جاتی اور صرف محدود مقدار میں ہی استعمال کی جانی چاہیے۔
برطانیہ کے محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ اگر آپ باقاعدگی سے شراب نوشی کرتے ہیں تو ہفتے میں چودہ یونٹ سے زیادہ ریڈ وائن نہیں پینی چاہیے۔
پانی اور قہوہ
زیادہ پانی کا استعمال بلیو زون کے تقریبا تمام خطوں کی خاصیت ہے۔ تحقیق سے علم ہوتا ہے کہ باقاعدگی سے پانی پینا اچھی صحت کے لیے مفید ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ دیگر مائع جیسا کہ قہوہ بھی یہاں کے باسیوں میں کافی عام ہے خصوصا جاپان کے اوکیناوا میں۔
خوراک سے آگے
بوئیٹنر نے جب بلیو زون کے باسیوں کی طویل العمری کے بارے میں تحقیق کی تو ان کو علم ہوا کہ خوراک کے علاوہ ان کی روز مرہ زندگی اور جسمانی عادات کا بھی کافی اہم کردار ہے۔
یہاں کے باسی روز مرہ زندگی میں کام کرتے ہیں جیسا کہ باغیچے کی دیکھ بھال کرنا، پیدل چلنا اور خود اپنے کام کرنا۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے آرام اور رات کی نیند کو کافی اہمیت دیتے ہیں۔ اکاریا کے رہائشی دوپہر میں قیلولہ کرتے ہیں جبکہ لوما لنڈا میں ہفتے میں 24 گھنٹے آرام کے لیے مختص ہوتے ہیں۔
نیند جسمانی اور ذہنی تناؤ کو کم کرنے اور ذہنی صحت کے لیے ضروری ہوتی ہے جس کے جسمانی صحت پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ بلیو زون میں بسنے والے افراد کافی میل جول رکھتے ہیں اور اکثر خاندان، دوستوں یا ہمسائیوں کو کھانے میں شریک کرتے ہیں۔
یہ بات جانی جاتی ہے کہ تنہائی بری صحت کا باعث بنتی ہے اور اسی لیے صحت مند معاشرے اور تعلقات کی اہمیت پر زور دیا جاتا ہے۔
کیا بلیو زون خوراک آپ کے لیے بھی اچھی ہے؟
بلیو زون خوراک کے چند عوامل اپنی زندگی میں شامل کرنے سے، جیسا کہ زیادہ سبزیاں کھانا، صحت پر اچھے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
بنیادی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ مناسب مقدار میں مختلف قسم کی خوراک کھائی جائے جس میں پھہ، سبزیاں، اناج شامل ہیں جبکہ نمک، چربی اور چینی کا استعمال کم سے کم کیا جائے۔
اس کے باوجود بلیو زون خوراک کو باقاعدہ طور پر تجویز کرنے کے لیے ابھی اور تحقیق اور شواہد کی ضرورت ہے۔
چند ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگوں کو ایک مخصوص بلیو زون کی خوراک کو اپنا لینا چاہیے لیکن ہر فرد کی ضروریات الگ ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہر کسی کی رہائش کی جگہ اور مالی حالات ایک جیسے نہیں ہوتے۔
تاہم خوراک میں کسی قسم کی تبدیلی سے قبل کسی ماہر غذائیت سے مشورہ ضرور کرنا چاہیے تاکہ وہ آپ کی صحت اور ضروریات کو دیکھتے ہوئے تجویز دے سکے۔