خلائی مخلوق کی کھوج میں محققین نے ایک ’مثالی‘ نظام شمسی دریافت کر لیا

محققین نے ایک ایسا ’کامل‘ نظام شمسی دریافت کیا ہے جو کسی بڑے تصادم کے نتیجے میں وجود میں نہیں آیا تھا۔ ہمارے نظام شمسی میں تمام سیارے الگ الگ حجم کے ہیں مگر یہاں سب سیارے ایک ہی سائز کے ہیں۔

یہ نظام 100 نوری سال دور ہے اور اس میں ایک ہی سائز کے چھ سیارے ہیں۔ یہ نظام 12 ارب سال قبل وجود میں آیا اور تب سے اب تک اس میں بہت کم تبدیلی رونما ہوئی ہے۔

ایسا بلا رکاوٹ ماحول یہ سمجھنے کے لیے مثالی ہے کہ دنیائیں کیسے بنتی ہیں اور آیا یہ انسانوں کی میزبانی کر سکتی ہیں۔

یہ تحقیق سائنسی جریدے نیچر میں شائع کی گئی ہے۔

ہمارا اپنا نظام شمسی تصادم کا نتیجہ تھا۔ جب سیارے بن رہے تھے تو وہ ایک دوسرے سے ٹکرائے، مداروں پر اثر انداز ہوئے اور بالآخر ہمیں جوپیٹر اور سیٹرن جیسے بڑے سیارے اور زمین جیسے قدرے چھوٹے سیارے ملے۔

’ایچ ڈی 110067‘ نامی اس نظامِ شمسی میں حالات ہمارے نظام سے بہت مختلف ہیں۔

خلائی مخلوق کی کھوج میں محققین نے ایک ’مکمل‘ نظام شمسی دریافت کر لیا
،ہمارا نظام شمسی بگ بینگ کے نتیجے میں وجود میں آیا

تمام سیارے نہ صرف ایک جتنے ہیں بلکہ یہ بیک وقت اپنے اپنے مداروں میں چکر لگاتے ہیں۔

سب سے قریب سیارہ جتنے وقت میں تین بار ستارے کے گرد چکر لگاتا، اس کے بعد والا سیارہ اسی دورانیے میں قریب دو چکر مکمل کرتا ہے۔ پانچویں اور چھٹے سیارے چار تین کے تناسب کی رفتار سے ستارے کے گرد چکر لگاتے ہیں۔

سیاروں کی یہ گشت اتنی دلچسپ ہے کہ اس پر سائنسدانوں نے ایک دھن تیار کی ہے جسے آپ یہاں سن سکتے ہیں:

،اس ’مکمل‘ نظام شمسی پر بنائی گئی دھن

یونیورسٹی آف شکاگو کے ڈاکٹر رفال لوک، جنھوں نے ایچ ڈی 110067 پر تحقیق کی سربراہی کی، کا کہنا ہے کہ ’سیارے کیسے قائم ہوتے ہیں، یہ سمجھنے کے لیے یہ نظام مثالی ہے کیونکہ اس نظام شمسی کی ابتدا ٹکراؤ کے نتیجے میں نہیں ہوئی تھی اور اپنے قیام سے لے کر اب تک اس کی بنیادیں ویسی ہی ہیں۔‘

واروک یونیورسٹی کی ڈاکٹر مرینا لفرگا-ماگرو نے کہا کہ یہ نظام ’خوبصورت اور نایاب‘ ہے۔ ’مجھے اس میں بہت تجسس ہے کیونکہ یہ ایسی چیز ہے جسے پہلے کبھی کسی نے نہیں دیکھا۔‘

گذشتہ تین سالوں کے دوران ماہر فلکیات نے ہزاروں نظام شمسی دریافت کیے ہیں۔ مگر ان میں سے کوئی بھی اتنا مثالی نہیں کہ وہاں سیاروں کی ابتدا پر تحقیق ہوسکے۔ سیاروں کے ایک جیسے سائز کے سیارے اور بلا رکاوٹ ماحول محققین کے لیے دلچسپ ہے کیونکہ اس سے باقیوں کا موازنہ کرنا قدرے آسان ہے۔ اس سے یہ واضح ہو سکے گا کہ وہ کیسے قائم ہوئے اور ارتقائی عمل کے نتیجے میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

اس مثالی نظام شمسی میں ایک چکمتا ستارہ بھی ہے جس سے وہاں کے سیاروں پر زندگی کے آثار ڈھونڈنا آسان ہو گا۔

سیارے کے تمام چھ سیاروں کو ماہرین فلکیات نے ’سب نیپچونز‘ کا نام دیا ہے۔ یہ ہماری زمین سے دو سے تین گنا بڑے مگر نیپچون سے چھوٹے ہیں (نیپچون کی موٹائی زمین سے چار گنا زیادہ ہے)۔

ستمبر میں دریافت سے اب تک اس نظام کے بارے میں معلومات میں دلچسپی پائی جا رہی ہے۔ ایک دوسرے نظام شمسی کے سب نیپچون ’کے 2-18 بی‘ کے ماحول میں اس گیس کے آثار ملے ہیں جو زمین پر جاندار پیدا کرتے ہیں۔ ماہرین فلکیات نے اسے ’بائیو سگنیچر‘ کا نام دیا ہے۔

اگرچہ ہمارے سولر سسٹم میں ’سب نیپچون‘ نہیں تاہم یہ تصور کیا جاتا ہے کہ کائنات میں یہ سیاروں کی سب سے عمومی قسم ہے۔ مگر ماہرین فلکیات کو حیران کن طور پر ان کے بارے میں بہت کم معلوم ہے۔

یہ واضح نہیں کہ آیا یہ سیارے پتھر، گیس یا پانی سے بنے ہیں اور آیا یہاں انسانی زندگی کی موجودگی کے لیے مناسب ماحول ہے۔

ڈاکٹر لوک کے مطابق اس بارے میں تفصیلات ڈھونڈنے ’شعبے میں سب سے گرما گرم موضوع ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ نئے سولر سسٹم کی دریافت سے ان کی ٹیم کو جلد از جلد اس سوال کا جواب تلاش کرنے کا بہترین موقع ملا ہے۔

انھوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’یہ اب 10 سال سے کم عرصے کا معاملہ ہو گا۔‘

’ہمیں ان سیاروں کے بارے میں معلوم ہے، ہمیں پتا ہے یہ کہاں ہیں۔ ہمیں بس مزید وقت درکار ہے لیکن سب جلد ہو گا۔‘

خلائی مخلوق کی کھوج میں محققین نے ایک ’مکمل‘ نظام شمسی دریافت کر لیا
،سیاروں کی کھوج میں ناسا کی ٹیس دوربین استعمال کی گئی

اگر ٹیم کے اگلے مشاہدے میں ثابت ہوا کہ ’سب نیپچون‘ میں انسانی زندگی کے لیے موزوں ماحول ہے تو اس سے ایسے سیاروں کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوگا جو انسانوں کی میزبانی کر سکتے ہیں۔

مزید یہ کہ اس سے ایسی علامات کی کھوج بھی ممکن ہوگی کہ آیا کسی دوسری دنیا میں زندگی کے آثار ہوجود ہیں۔

چھ نئے ایک سب نیپچونز، یا دیگر حریف گروہوں میں درجنوں، میں سے کسی ایک میں بائیو سگنیچر ڈھونڈنے کی دوڑ شروع ہوچکی ہے۔

نئی دوربینیں دستیاب ہیں اور ان کی صلاحیتیں کئی گنا زیادہ ہیں۔ کئی ماہرین فلکیات کا خیال ہے کہ اس بڑے لمحے کے لیے اب بہت زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔

ان سیاروں کی نشاندہی ناسا کی ٹرانزیٹنگ ایگزو پلینٹ سروے سیٹلائٹ (ٹیس) اور یورپی سپیس ایجنسی کی کیریکٹرائزنگ ایگزو پلینٹ سیٹلائٹ (چیوپس) کے ذریعے کی گئی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں