امریکہ کی مشیگن یونیورسٹی کی ایک لیبارٹری کے اندر ایک دیوہیکل ویکیوم چیمبر میں چمکیلی سبز روشنی جگمگا رہی ہے۔ اس چیمبر کا حجم دو ٹینس کورٹس کے برابر ہے جس کی دیواریں 60 سینٹی میٹر کنکریٹ کی بنی ہیں تاکہ تابکاری کا اخراج نہ ہو سکے۔ یہاں عملہ ماسک اور سر پر نیٹ پہنے ہوئے ہے تاکہ حساس الیکٹرانکس متاثر نہ ہوں۔
یہ ’زیوس‘ ہے، جو جلد ہی امریکہ کی سب سے طاقتور لیزر کا روپ دھار لے گی۔ اس وقت یہ پہلی بار باقاعدہ طور پر سرکاری تجربات کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔
یہ ان عام لیزر کی طرح نہیں جن کا استعمال دکانوں تک میں کیا جاتا ہے۔ یہ وقفے وقفے سے روشنی کے برسٹ مارتی ہے۔ ہر بار روشنی تین پیٹاواٹ کی طاقت تک پہنچ سکتی ہے جو پوری دنیا کی استعمال شدہ بجلی سے ایک ہزار گنا زیادہ ہے۔
اتنی زیادہ توانائی رکھنے والی لیزر محققین کو کوانٹم قوانین سمجھنے میں مددگار ثابت ہو گی۔ اس کی مدد سے خلا میں ایسٹرو فزکس کے حالات کو لیبارٹری میں سمجھا جا سکے گا۔
تاہم آنے والے برسوں میں نئی دریافتوں کو ممکن بنانے والی ایسی طاقتور لیزر صرف زیوس ہی نہیں ہے۔ یورپ سے ایشیا تک انتہائی طاقتور لیزر تیار ہو رہی ہیں۔
مشیگن یونیورسٹی میں الٹرا فاسٹ آپٹیکل سائنس کے ڈائریکٹر کارل کروشیلنک کہتے ہیں کہ ’یہ شعبہ تیزی سے بڑھ رہا ہے جس میں لوگ نئی ٹیکنالوجی سامنے لا رہے ہیں۔‘
برطانیہ میں تیار ہونے والی ’ولکن ٹونٹی ٹونٹی‘ 2029 میں دنیا کی سب سے طاقتور لیزر بن جائے گی۔ یہ ایسی روشنی پیدا کرے گی جو سورج کی سب سے شدید روشنی کے مقابلے میں اربوں کھربوں گنا زیادہ روشن ہو گی۔
اس کی ایک بار نکلنے والی روشنی پوری دنیا میں پیدا ہونے والی توانائی سے چھ گنا زیادہ توانائی پیدا کرے گی لیکن یہ ایک سیکنڈ کے ٹریلین حصے سے بھی کم تک باقی رہے گی۔
زیوس کی طرح ولکن ٹونٹی ٹونٹی پر دنیا بھر سے سائنسدانوں کو تجربات کے لیے دعوت دی جائے گی تاکہ کائنات، جوہری توانائی کی سمجھ بوجھ میں اضافہ ہو سکے اور شاید ایک نیا مادہ بھی پیدا ہو سکے۔
برطانیہ میں آکسفورڈ شائر میں سینٹرل لیزر فسیلیٹی میں پرانی ولکن لیزر کی جگہ اب نئی 20 پیٹاواٹ والی ولکن ٹونٹی ٹونٹی تیار ہو رہی ہے۔ اس وقت یہ اولمپکس میں استعمال ہونے والے دو سوئمنگ پولز جتنی ہے اور اس کے ایک میٹر چوڑے شیشوں میں سے ہر ایک کا وزن ڈیڑھ ٹن ہے۔ لیزر کے اپرچر سے موٹی سفید تاریں کمرے میں پھیل جاتی ہیں۔ 1997 میں ولکن پہلی بار تیار ہوئی تھی تاہم نئی لیزر اس سے سو گنا زیادہ روشن ہو گی۔
سینٹرل لیزر فسیلیٹی میں تجرباتی سائنس گروپ کے سربراہ روب کلارک کا کہنا ہے کہ ’متاثر کن چیز اس لیزر کی طاقت نہیں بلکہ اس کی شدت ہے۔ اس شدت کو سمجھنے کے لیے تصور کریں کہ 50 لاکھ 40 واٹ لائٹ بلب ہیں۔‘
’اب ان کی روشنی کو انسانی بال کے دسویں حصے میں محدود کر دیں۔ اس کا نتیجہ روشنی کے انتہائی شدید ذریعے کی شکل میں نکلے گا اور اسی کی مدد سے یہ سب دلچست تجربات ممکن ہو سکتے ہیں جیسا کہ الیکٹرک یا میگنیٹک فیلڈ۔‘
ولکن ٹونٹی ٹونٹی کی مدد سے سائنسدان دور دراز کائنات کے حالات لیبارٹری میں پیدا کر سکیں گے تاکہ ستاروں کے اندرونی نظام کو سمجھا جا سکے یا پھر اس بات پر تجربہ کیا جا سکے کہ مادہ شدید درجہ حرارت کے باعث کیسے بدلتا ہے۔
سینٹرل لیزر فسیلیٹی کے ایلکس رابنسن کا کہنا ہے کہ اس شعبے میں دلچسپی کی وجہ کائنات کی تحقیق کی خواہش ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ایسٹرو فزکس بنیادی طور پر جائزہ لینے تک محدود رہی ہے۔‘
’آپ ٹیلی سکوپ پر کوئی چیز دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہو کیا رہا ہے۔‘
اب اتنی طاقتور لیزر سے یہ امید کی جا رہی ہے کہ پہلی بار ایسے تجربات کیے جا سکیں گے جن سے مختلف سائنسی نظریوں کی حقیقت سامنے آ سکے گی۔
ایک ایسی ہی پہیلی جس کا جواب آکسفورڈ میں تلاش کرنے کی امید پائی جا رہی ہے وہ مقناطیسی فیلڈ سے متعلق ہے جو کائنات میں ستاروں اور سیاروں کے گرد موجود ہے۔
ایلکس رابنسن کہتے ہیں کہ ’یہ مقناطیسی فیلڈ وہاں کیوں ہے؟ یہ مکمل طور پر واضح نہیں ہے۔ اور کوئی کتنا بھی جائزہ لے، وہ ماضی میں جا کر نہیں جان سکتا کہ یہ کیسے اور کیوں وجود میں آئیں۔‘
دیگر تجربات میں کائنات میں نظر آنے والی شعاؤں (روشنی کی رفتار سے سفر کرنے والے ذرات جو توانائی سے بھرپور ہوتے ہیں) کا ذریعہ تلاش کرنے سمیت جیٹس (ٹکراؤ سے پیدا ہونے والے ذرات)، کے بننے کے عمل سمیت بڑے سیاروں کے اندونی حالات کا جائزہ لیا جا سکے گا۔
اس کے علاوہ محققین ولکن ٹونٹی ٹونٹی کو نئے ذرات کی تشکیل کی تحقیق کے لیے بھی استعمال کریں گے۔ بورون نائٹریڈ ہیرے سے بھی سخت ہوتا ہے اور انتہائی شدید دباؤ کے ساتھ لیبارٹری میں تیار کیا گیا ہے۔
رابنسن کہتے ہیں کہ ’سوال یہ ہے کہ اس طرح ہم اور کیا چیزیں تیار کر سکتے ہیں؟ کیا ان کا الیکٹرانکس میں استعمال ممکن ہے؟ میں نہیں جانتا۔ لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ایسا بہت کچھ ہے جس کی تلاش کی جا سکتی ہے۔‘
جوہری توانائی
جوہری توانائی بھی ان طاقتور لیزر کی فہرست میں شامل ہے۔ جولائی میں کیلیفورنیا کی لارنس لیورمول نیشنل لیبارٹری میں لیزر کی مدد سے توانائی پیدا کی گئی۔ اس پہلے تجربے کے بعد رواں سال پہلے سے زیادہ توانائی پیدا ہوئی جس سے اس امید نے جنم لیا کہ شاید موجودہ توانائی کے ذرائع کو شفاف توانائی کے ذرائع سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
رومانیا میں اس وقت 10 پیٹاواٹ والی لیزر دنیا کی سب سے طاقتور لیزر کا درجہ رکھتی ہے۔ گذشہ ایک سال سے نجی کمپنیوں کے اشتراک سے یہ لیزر ایسی تکنیک تیار کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہے جو دنیا کے پہلے کمرشل جوہری پلانٹ کو ایندھن فراہم کر سکے۔
’چرپڈ پلس ایمپلیفیکیشن‘ نامی تکنیک کی مدد سے، جس کی ایجاد پر 2018 میں فزکس کا نوبل انعام دیا گیا، اس شعبے کو نئی جہت ملی ہے۔
لیزر کی ’طاقت اور شدت ہی سب کچھ نہیں‘
ماہرین فزکس کے مطابق لیزر کا حجم فی الحال شیخیاں بگھارنے تک محدود ہے۔ چینگ ہی نام جنوبی کوریا میں لیزر سائنس سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں اور ان کے ادارے کے پاس یہ ریکارڈ ہے کہ سب سے زیادہ شدت کی لیزر ان کے ادارے میں ہے جو دنیا کی تمام روشنی جتنی طاقتور ہونے کے باوجود ایک مائیکرومیٹر یا انسانی بال کے پانچویں حصے پر فوکس کی گئی۔
جنوبی کوریا میں سائنسدان لیزر کی مدد سے پروٹون تھیراپی پر کام کر رہے ہیں جو سرطان کا ایسا علاج ہو گا جس میں لیزر کی مدد سے مریضوں کے ٹیومر پر اثرانداز ہوا جا سکے گا۔
ایسی تحقیق کئی جگہ پر ہو رہی ہے جس میں طبی شعبے سمیت کائنات سے جڑے صدیوں پرانے تصورات کو ازسر نو جانچا جا رہا ہے۔ چینگ ہی نام کا کہنا ہے کہ اب وہ زیادہ پیٹا واٹ کی لیزر پر کام کر رہے ہیں۔ اگر ان کا یہ 25 پیٹاواٹ لیزر تیار کرنے کا منصوبہ کامیاب ہو گیا تو یہ ولکن ٹونٹی ٹونٹی کو بھی پیچھے چھوڑ دے گی۔
بہر حال کلارک کا کہنا ہے کہ ’طاقت اور شدت ہی سب کچھ نہیں۔ اس وقت سب سے اہم چیز یہ ہے کہ آپ اس لیزر کی مدد سے کیا کر سکتے ہیں؟ اور اس سے کیا حاصل کر سکتے ہیں۔‘
ان لیزر پر کام کرنے والے سائنسدانوں کے نزدیک سب سے اہم بات یہی ہے۔ کلارک کہتے ہیں کہ ’اہم نکتہ درست طریقے سے لیزر تیار کرنے کے بعد اس کا درست استعمال ہے۔‘