اگر آپ ٹرین کی پٹریوں کے قریب رہتے ہیں اور ان پر سے ہر صبح ایک ہی وقت پر گزرتے ہیں تو قوی امکان ہے کہ آپ ٹرین کے انجن کی آواز سے مانوس ہو جائیں گے اور آپ کو وہ شور سُنائی دینا بند ہو جائے گا جو کہ اس آواز سے غیر مانوس افراد کو سُنائی دیتا ہے۔
ایسا اس وقت بھی ہوتا ہے جب آپ کسی کافی شاپ میں داخل ہوتے ہیں: تازہ کافی کی خوشبو کتنی ہی خوشگوار کیوں نہ ہو، جب آپ وہاں زیادہ وقت گزار لیتے ہیں تو آپ کو اس مہک کی عادت پڑ جاتی ہے۔ پھر یہ خوشبو بھی آپ کے لیے اتنی خاص نہیں رہتی۔
دراصل ہمارا دماغ ان چیزوں پر توجہ دینا بند کر دیتا ہے جو ہمہ وقت ہمارے اطراف موجود رہتی ہیں یا ان میں بتدریج تبدیلی آ رہی ہوتی ہے، اس عمل کو ہم انسانی عادات کہتے ہیں۔
’ہم جب کوئی نئی چیز دیکھتے، سونگھتے یا محسوس کرتے ہیں تو اس پر ردِعمل بھی دیتے ہیں، لیکن کچھ عرصے بعد آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ ابھی بھی زندہ ہیں اور سب کچھ ٹھیک ہے اور اس لیے ان چیزوں پر توجہ دینا ضروری نہیں۔‘
ٹالی شروت یونیورسٹی کالج لندن میں نیوروسائنس کی پروفیسر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’بہتر یہی ہے کہ آپ اپنے وسائل کو سنبھال کر رکھیں اور اگلی صورتحال کے لیے خود کو تیار کریں۔‘
اس صورتحال پر قابو کیسے پایا جائے؟
’اوور کمنگ‘ نیورو سائنس میں استعمال ہونے والی ایک اصطلاح ہے جس سے مراد وہ طریقہ کار ہے جو انسان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ اپنے اطراف میں موجود چیزوں پر توجہ مرکوز رکھے۔
اسے سمجھانے کے لیے پروفیسر شروت ملازمت کی مثال دیتی ہیں۔
’اپنی پہلی ملازمت کے بارے میں سوچیں، جب آپ نے کام کرنا شروع کیا تھا، آپ اس وقت شاید پرجوش اور خوش تھے۔ لیکن، اگر آپ اس ملازمت پر 10 سال بعد بھی اتنے ہی پرجوش ہیں جتنا پہلے دن تھے تو آپ ترقی پانے کے لیے بالکل جستجو نہیں کریں گے۔‘
وقت کے ساتھ پڑ جانے والی عادات ہمیں مشکل حالات پر قابو پانے میں بھی مدد دیتی ہیں، جیسے کہ ملازمت کا چھوٹ جانا یا کسی عزیز کا بچھڑ جانا۔
نیورو سائنسدان کہتی ہیں کہ ’یہ اچھی بات ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ، ساتھ ہم کسی چیز کے عادی ہو جاتے ہیں کیونکہ اس سے ہمیں آگے بڑھنے کی ہمت ملتی ہے۔‘
’آپ کے لیے بہت مشکل ہو جائے اگر آپ آج بھی کسی بات کو لے کر اتنے ہی غصے میں ہیں جتنا شروع میں تھے۔‘
لیکن جس طرح ہماری عادات ہمیں مشکلات سے بچائے رکھتی ہیں بالکل اُسی طرح یہ عادات ہمیں پریشانی میں بھی ڈال سکتی ہیں۔
پروفیسر شروت کہتی ہیں کہ ہم اس کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ اگر کوئی صورتحال یا رشتہ ہمیں تکلیف دیتا ہے تو بھی ہم اسےتکلیف دہ سمجھنا چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ اب ہمیں اس کی عادت پڑ چکی ہے۔
ایسا ہی ہمارے ساتھ خوشگوار مواقعوں پر بھی ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں اس خوشگواریت کی بھی عادت پڑ جاتی ہے اور ہم اسے اہمیت دینا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس سے ہمارے جذبات میں کمی آتی ہے اور ہم اس سے اُکتا بھی جاتے ہیں۔
تاہم پروفیسر شروت کہتی ہیں کہ چیزوں کی عادت ڈالنے اور ان کو نظر انداز کرنے کے اس فطری رجحان پر قابو پانا بالکل ممکن ہے لیکن اس کے لیے آپ کو اپنے دماغ کو تربیت دینی پڑتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ طریقہ یہ ہے کہ جن چیزوں کی آپ کو عادت پڑ چکی ہے ان سے وقفہ لیں یا دوری اختیار کر لیں تاکہ بعد میں آپ انھیں نئے زاویے سے دیکھنے کے قابل ہو سکیں۔
پروفیسر شروت کے مطابق مقصد یہ ہے کہ ’چیزیں اپنی وقعت نہ کھوئیں، چاہے وہ اچھی ہوں یا بُری۔‘
.
ان کے مطابق ایسا کرنے کے لیے ’آپ کے پاس دو آپشنز ہیں جو ایک دوسرے سے مماثلت رکھتے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ بریک لیں، یعنی آپ ایسی صورتحال سے ویک اینڈز یا کچھ دنوں کے لیے دور ہو جائیں۔‘
اس چیز کو سمجھانے کے لیے پروفیسر شروت سوشل میڈیا کا سہارا لیتی ہیں۔ اپنی کتاب Look Again: The Power of Noticing What Was Always There میں وہ لکھتی ہیں کہ جب آپ کو لگتا ہے کہ سوشل میڈیا آپ پر منفی اثر ڈال رہا ہے تو آپ اس سے کچھ دنوں کے لیے دوری اختیار کر لیتے ہیں۔
’لوگ جانتے ہیں کہ وہ تناؤ کا سامنا کر رہے ہیں لیکن انھیں یہ نہیں پتا ہوتا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے یا اس کی شدت کیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس صورتحال میں ہمیشہ ہی موجود رہتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’دیکھنے میں آیا ہے کہ جب لوگ وقفہ لینا شروع کرتے ہیں تو ان کے تناؤ میں کمی آتی ہے اور انھیں خوشی کا احساس ہوتا ہے۔‘
پروفیسر شروت کے مطابق ’اگر آپ اپنی روزمرہ کی زندگی سے وقفہ لیتے ہیں، جیسے کہ کام مختلف محکموں میں گھومنا، یا مختلف پروجیکٹس پر کام کرنا وغیرہ۔ جب آپ وقفے کے بعد واپس آئیں گے تو آپ چیزوں کو زیادہ واضح طور پر دیکھ سکیں گے۔‘
جب ہم اچھے خوشگوار لمحات گزار رہے ہوتے ہیں تو اس صورتحال میں خوشگواریت سے فاصلہ اختیار کرنا یا وقفہ لینا ایک عیجب سا قدم لگتا ہے، لیکن تحقیق کے مطابق ایسا کرنا آپ کے لُطف کو بڑھاتا ہے۔
اپنی ایک تحقیق کے دوران پروفیسر شروت کو اندازہ ہوا کہ چھٹیوں کے دوران کچھ لوگوں کے لیے خوشی کا لمحہ تقریباً 43 گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے۔
لیکن جب ان لوگوں نے اپنا سامان سیٹ کرلیا اور وہ آرام دہ ہو گئے تو ان خوشگوار لمحات کا لطف کم ہوتا گیا۔
’ایسا نہیں ہے کہ وہ لوگ ساتویں یا آٹھویں گھنٹے میں خوش نہیں تھے، لیکن جب یہ خوشگوار لمحہ 43 گھنٹوں کے بعد آیا تو ان کی خوشی کم ہو چکی تھی۔‘
ایک تحقیق میں شرکا سے چھٹی کے بہترین لمحات کے بارے میں پوچھا گیا تو بار بار دہرایا جانے والا لفظ ’پہلا‘ تھا۔
یہ کہا گیا کہ ’پہلی بار جب انھوں نے سمندر دیکھا، پہلا کاک ٹیل پیا، ریت میں پہلا قلعہ جو انھوں نے ساحل سمندر پر تعمیر کیا۔‘
اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ایک لمبی چھٹی کے بجائے کم دورانیے کی چھٹیاں لی جائیں تاکہ آپ بار بار ان کا لُطف اُٹھا سکیں۔
’مختصر تعطیلات کا سلسلہ بہتر نتائج پیدا کرتا ہے۔‘
پروفیسر شروت کے مطابق چھٹیاں شروع ہونے سے پہلے والا زیادہ خوشی کا باعث ہوتا ہے کیونکہ اس وقت آپ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ آنے والا وقت اچھا ہو گا اور آپ اپنی تعطیلات کا لُطف اُٹھا رہے ہوں گے۔
مختصراً یہ کہ خود کو ان حالات سے دور رکھیں جن کے آپ عادی ہو چکے ہیں، اپنی روٹین کو تبدیل کریں اور روز مرّہ زندگی میں تبدیلیاں لائیں۔