جاپان کا زمین پر ’مصنوعی سورج‘ بنانے کا خواب، ’کم تابکاری زیادہ توانائی‘

صاف، لامحدود، سستی اور فضلے سے پاک توانائی۔

یہ انسان کا ایسا خواب ہے جسے اب سائنسدان حقیقت میں بدلنے کے لیے خاصے پرامید ہیں۔ اور یہ سب وہ زمین پر ایسے عمل سے ممکن بنانا چاہتے ہیں جو سورج میں ہوتا ہے یعنی ’نیوکلئئر فیوژن‘۔

نیوکلیئر فیوژن کے بارے میں آگے چل کر بات کرتے ہیں مگر پہلے نظر دوڑاتے ہیں جاپان کے زمین پر مصنوعی سورج بنانے والے اس منصوبے پر جس کا افتتاح اس جمعے کو ہوا ہے۔

جاپان نے JT-60SA ڈیوائس کا افتتاح کیا ہے جو دراصل دنیا کا سب سے طاقتور تجرباتی نیوکلیئر فیوژن ری ایکٹر ہے۔

اگرچہ یہ ٹیکنالوجی اپنے ابتدائی دور میں ہے لیکن کچھ سائنسدان اسے انسان کی مستقبل کی توانائی کی ضرورت کا حل قرار دیتے ہیں۔

Nuclear

نیوکلیئر فیوژن ہوتا کیا ہے؟

ایٹمز کے ملاپ سے توانائی پیدا کرنے کی عمل کو نیوکلیئر فیوژن کہا جاتا ہے۔

فزکس کے ماہرین نے کئی دہائیوں سے جوہری توانائی کی ٹیکنالوجی پر تحقیق کی ہے کیونکہ ان کے مطابق یہ لامحدود ماحول دوست توانائی حاصل کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

’فِشن‘ کے برعکس جو فی الحال نیوکلیئر پاور پلانٹس میں استعمال ہونے والی تکنیک ہے۔ فیوژن ایک کے بجائے دو جوہری مرکزوں کو فیوز کرتا ہے۔

محققین نے تصدیق کی کہ انھوں نے اس سلسلے میں بڑی رکاوٹ عبور کر لی ہے: یعنی اب وہ فیوژن کے تجربات کی مدد سے پہلے سے کہیں زیادہ توانائی پیدا کر سکتے ہیں۔

اس کا حتمی مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ’ہائیڈروجن نیوکلی‘ ایک بھاری عنصر ہیلیئم میں فیوز ہوجائے جو سورج کے اندر ہونے والے عمل کی نقل کرتے ہوئے روشنی اور حرارت کی شکل میں توانائی خارج کرے۔

دوسرے لفظوں میں اس اقدام کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر ایک ’مصنوعی چھوٹا ستارہ‘ بنا کر توانائی حاصل کرنا ہے۔

فشن کے برعکس فیوژن تباہ کن جوہری حادثات کا خطرہ نہیں رکھتا ہے جیسا کہ فوکوشیما، جاپان میں سنہ 2011 میں ہوا تھا۔

یورو فیوژن، یورپ میں 31 لیبارٹریوں کا ایک کنسورشیم ہے، جو اس منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ یہ کنسوررشیم فیوژن کے فوائد کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہتا ہے کہ مطلوبہ ایندھن وافر مقدار میں ہے اور یہ گرین ہاؤس گیسز یا مضر گیسز پیدا نہ کرنے کے علاوہ ’جغرافیائی سیاسی تنازعات کے خطرے‘ سے بھی بچاتا ہے۔

Sun

نیوکلیئر فیوژن سے توانائی کیسے پیدا کی جاتی ہے؟

یہ پہلے ہی سنہ 1950 کی دہائی میں تھا جب سوویت محققین آندرے سخاروف اور ایگور تام نے پہلی مقناطیسی فیوژن ڈیوائس یا ’ٹوکامک‘ ڈیزائن کی۔

لفظ ’ٹوکامک‘ دراصل ایک روسی اصطلاح ہے۔

JT-60SA ایک ٹوکامک یا ٹورائیڈل یا یوں کہہ لیں کہ ڈونٹ کی شکل کا آلہ ہے جو ہائیڈروجن سے چلتا ہے۔

توانائی کے حصول میں کامیاب نیوکلیئر فیوژن اس شعبے کے ہر سائنسدان کا خواب ہے۔ ستاروں کی روشنی اور حدت نیوکلیئر فیوژن کے عمل کے باعث پیدا ہوتی ہے۔

اس میں لائٹ ایمز کے جوڑوں کو ایک دوسرے میں ضمن کیا جاتا ہے۔ اس فیوژن (میلاپ) سے توانائی خارج ہوتی ہے۔

یہ نیوکلیئر فشن (انشقاق) کا الٹ ہے جس میں ہیوی ایٹمز کے ٹوٹنے سے توانائی خارج ہوتی ہے۔

فشن وہ ٹیکنالوجی ہے جو اس وقت نیوکلیئر پاور سٹیشنز میں استعمال ہوتی ہے لیکن اس عمل سے بہت زیادہ فضلہ بھی پیدا ہوتا ہے جو طویل عرصے تک تابکاری پیدا کرتا رہتا ہے۔

یہ خطرناک ہو سکتا ہے اور اس کے لیے لازمی ہے کہ اسے محفوظ طریقے سے ذخیرہ کیا جائے۔

نیوکلیئر فیوژن کہیں زیادہ توانائی پیدا کرتا ہے اور اس میں تابکار فضلے کی کم مقدار پیدا ہوتی ہے۔ یہ تابکاری بھی قلیل مدتی ہوتی ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ یہ عمل گرین ہاؤس گیسز یعنی مضر گیسز کا اخراج نہیں کرتا ہے اور اسی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلی کا باعث نہیں بنتا۔

مگر نیوکلیئر فیوژن کے لیے بہت زیادہ درجہ حرارت اور دباؤ درکار ہوتا ہے اور یہی اس کے چیلنجز میں سے ایک ہے۔ اب تک کسی بھی تجربے میں اتنی توانائی پیدا نہیں ہوئی جتنی اس تجربے کو کرنے میں لگی ہو۔

F4E

جاپان کا یہ ری ایکٹر آج تک کا سب سے طاقتور فیوژن ڈیوائس ہے جو پلازما کے آپریشن کا مطالعہ کرنے کے لیے مقناطیسی آلے کا استعمال کرتا ہے۔

ٹوکامک میں ڈونٹ کی شکل کا ویکیوم چیمبر ہے اور مقناطیسں ہیں، جو ’میگنیٹک فیلڈ‘ پیدا کرتے ہیں۔

اس میں ہائیڈروجن گیس کو انتہائی گرمی اور دباؤ کا نشانہ بنایا جاتا ہے جب تک کہ یہ پلازما، ایک گرم، برقی چارج شدہ گیس میں تبدیل نہ ہو جائے۔

یورو فیوژن کنسورشیم کے مطابق JT-60SA کی صورت میں گیس کو 200 ملین سینٹی گریڈ تک حرارت دی جائے گی اور مشین کے مختلف حصوں میں کام کرنے والے 28 سپر کنڈکٹنگ کنڈلیوں پر مشتمل ایک طاقتور مقناطیسی نظام کی مدد سے مقناطیسی طور پر 100 سیکنڈ تک محدود رہے گا۔

متحرک پلازما کے ذرّات آپس میں ٹکرا کر گرم ہو جاتے ہیں۔

گیس کو پلازما میں تبدیل کرنے اور فیوژن ری ایکشن ہونے کے لیے ٹوکامک کے اندر کا درجہ حرارت تقریباً 150 ملین سنیٹی گریڈ تک پہنچنا چاہیے۔

ان حالات میں انتہائی توانائی بخش ذرات، ایک دوسرے کو پیچھے ہٹانے کے بجائے جیسا کہ وہ قدرتی طور پر کرتے ہیں جب وہ آپس میں ٹکراتے ہیں تو فیوز ہوتے ہیں اور یہ فیوژن بہت زیادہ مقدار میں توانائی کے اخراج کا باعث بنتی ہے۔

ٹوکامک کی دیواریں اندر سے کنڈلیوں سے ڈھکی ہوئی ہیں جو ایک میگنیٹک فیلڈ پیدا کرتی ہیں جو پلازما کو محدود رکھنے کا انتظام کرتی ہے۔

جاپان میں ری ایکٹر سے حاصل کردہ علم کو انٹرنیشنل تھرمونیوکلیئر تجرباتی ری ایکٹر (آئی ٹی ای آر) کے ساتھ شیئر کیا جائے گا، جو اس شعبے کا سب سے بڑا بین الاقوامی تجربہ ہے، جو فرانس میں واقع ہے اور ابھی زیر تعمیر ہے۔

امید ہے کہ یہ تجربات بالآخر سائنسدانوں کو مستقبل کے فیوژن پاور پلانٹس کے ڈیزائن میں مدد کریں گے۔

F4E/QST

جاپان میں پلانٹ کا افتتاح کتنا اہم ہے؟

یہ پلانٹ جاپان کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کوانٹم سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (کیو ایس ٹی) میں ٹوکیو کے شمال میں واقع قصبے ناکا میں واقع ہے۔

JT-60SA ری ایکٹر کا مقصد ایک بڑے پیمانے پر کاربن سے پاک توانائی کے ذریعہ فیوژن کی عملداری کی تحقیقات کرنا ہے۔

اس کا مقصد محفوظ ’خالص‘ توانائی حاصل کرنا ہے، جو معمول سے کہیں زیادہ توانائی پیدا کرسکے۔

JT-60SA کے ڈپٹی پروجیکٹ لیڈر سیم ڈیوس نے کہا کہ یہ ری ایکٹر ’ہمیں فیوژن توانائی کے قریب لے جائے گا۔‘

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سیم ڈیوس نے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ ’یہ 500 سے زیادہ سائنسدانوں اور انجینئرز اور پورے یورپ اور جاپان سے 70 سے زیادہ کمپنیوں کے درمیان تعاون کا نتیجہ ہے۔‘

یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ تعمیراتی مرحلے کے لیے منصوبے کی کل لاگت تقریباً 560 ملین یورو ہے جو کہ یورپ اور جاپان کے درمیان تقسیم کی گئی ہے۔

ہم پیمانے پر فیوژن سے کتنے دور ہیں؟

دسمبر 2022 میں امریکہ میں لارنس لیورمور نیشنل لیبارٹری میں ’نیشنل اگنیشن‘ لیبارٹری میں خالص توانائی حاصل کی گئی، جہاں دنیا کا سب سے بڑا لیزر واقع ہے۔

امریکی لیبارٹری کا طریقہ کار فرانس کی آئی ٹی ای آر اور جاپان کی JT-60SA سے مختلف ہے۔ اس امریکی طریقہ تحقیق کو انرشیل کنفائنمنٹ فیوژن کے نام سے جانا جاتا ہے، جس میں ہائی انرجی لیزرز کو بیک وقت ہائیڈروجن والے سلنڈر کی طرف لے جایا جاتا ہے۔

امریکی حکومت نے اس نتیجے کو صاف، لامحدود توانائی کے ذرائع کی تلاش میں ایک ’تاریخی کامیابی‘ قرار دیا ہے۔

تاہم یہ تجربہ 15 سے 20 ’کیٹلز‘ کو ابالنے کے لیے صرف اتنی توانائی پیدا کرنے میں کامیاب رہا اور اس کے لیے 3.5 بلین امریکی ڈالر درکار تھے۔

تجربے سے ثابت ہوا کہ سائنسی حل ضرور موجود ہے مگر ٹیکنالوجی کو مکمل اور سستا بنایا جانا چاہیے اور اس سے پیدا ہونے والی توانائی کی مقدار میں نمایاں اضافہ کرنا ہوگا۔

یورپی یونین کے انرجی کمشنر قادری سمسن نے اس جمعے کو JT-60SA کے افتتاح کے موقع پر کہا کہ یہ ’دنیا کا سب سے جدید ٹوکامک‘ ہے اور اس کے آپریشنز کے آغاز کو ’فیوژن کی تاریخ میں ایک سنگ میل‘ قرار دیا۔

ان کے مطابق ’فیوژن اس صدی کے دوسرے نصف میں توانائی کے مرکب کا ایک اہم جزو بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں