’لوہے کے پھپیپھڑوں‘ نے کیسے دورِ جدید کے انتہائی نگہداشت یونٹ کی بنیاد رکھی؟

چھ برس کی عمر میں پولیو سے متاثر ہونے والے پال الیگزینڈر 78 برس کی عمر میں وفات پا گئے ہیں۔ ان کی زندگی بچانے میں آئرن لنگ نامی آلے نے اہم کردار تھا ۔ آئرن لنگ کی ایجاد نے انتہائی نگہداشت کے یونٹ کی بنیاد رکھی۔

پولیو ویکسین کی تیاری سے پہلے ایک تابوت سے مشابہہ پیچدہ سا آلہ تیار کیا گیا تھا جسے آئرن لنگ یا لوہے کے پھیپڑے کا نام دیا گیا۔

آئرن لنگ اپنے وقت کی بہت اہم ایجاد تھی جس کے ذریعے سینکڑوں افراد کا پولیو سے بچاؤ ممکن ہوا۔ اس آلے کے ذریعے پولیو سے متاثرہ شخص کے مفلوج پھیپھڑوں کو کام کرنے میں مدد کے لیے ہوا کا دباؤ فراہم کیا جاتا تھا۔

دنیا بھر میں ’دی مین ان دی آئرن لنگ‘ کے نام سے مشہور پال الیگزینڈر کا بھی یہی حال تھا جو گذشتہ ہفتے 78 برس کی عمر میں انتقال کر گئےہیں ۔ الیگزینڈر کو 1952 میں پولیو کا مرض لاحق ہوا جب وہ صرف چھ برس کے تھے۔ پال الیگزینڈر کا گردن سے نیچے کا دھڑ مفلوج ہو گیا تھا۔ اگرچہ پال نے مختصر وقت میں خود سے سانس لینے کی استطاعت حاصل کر لی تھی۔ انھوں نے سکول میں تعلیم حاصل کی اور ایک وکیل کے طور پر پریکٹس کی۔ پال الیگزینڈر نے اپنی بقیہ زندگی آئرن لنگ پر انحصار کرتے ہوئے گزاری۔

آئرن لنگ ہارورڈ ٹی ایچ چین سکول آف پبلک ہیلتھ کے ایک فیکلٹی ممبر نے 1927 میں تیار کیا تھا۔ اسے پہلی بار 1928 میں ایک بچے کی زندگی بچانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا. اس کے بعد کی دہائیوں میں پولیو کے پھیلاؤ کے دوران ، خاص طور پر 1948 سے لے کر 1955 میں ویکسین تیار ہونے تک ، یہ تیزی سے پولیو وارڈوں کا ایک لازمی جز بن گیا اور اس کی تخلیق نے بعد میں بہت سی طبی اختراعات کی راہ ہموار کی۔

آئرن لنگ کیسے کام کرتا تھا

Iron Lung

بیسویں صدی کے اوائل میں دنیا بھر میں پولیو کی وبا پھیل رہی تھی۔ 1955 میں ویکسین کی تیاری تک آئرن لنگ پولیو سے شدید متاثرہ مریضوں کے علاج کا بنیادی طریقہ تھا اور اسے جدید ترین ٹیکنالوجی سمجھا جاتا تھا۔

آئرن لنگ ایک دیوقامت، سلنڈر تھا جس کا وزن 295 کلوگرام تک ہوتا تھا۔ پولیو کے مریضوں کو ان کی گردن تک اس میں گھسنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پمپ سے منسلک دھونکنی سے مسلسل سلنڈر کے اندر اور باہر ہوا کو سائیکل کرتا ہے جس سے مریضوں کو اپنے پھیپھڑوں میں ہوا دھکیل کر سانس جاری رکھنے میں مدد ملتی تھی۔ مصنوعی تنفس کی اس شکل کو بیرونی منفی پریشر وینٹیلیشن (ای این پی وی) کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ویل کارنیل میڈیکل سینٹر اینستھیسیولوجی کی ایک انتہائی نگہداشت کی معالج اور’آٹم گھوسٹ‘ کتاب کی مصنفہ ہنا ونش کہتی ہیں کہ آئرن لنگ کی ایجاد نے انسانوں اور مشینوں کے درمیان تعلق کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ ’پہلی بارمشین نے ایک شخص جس کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا، اس کے کام میں جزوی یا مکمل طور پر مدد کی۔ ‘

کچھ مریضوں کو تو آئرن لنگ میں تھوڑا ہی وقت گذرانا پڑتا تھا لیکن کچھ کو ہفتوں اور مہینوں تک اس میں رہنا پڑھتا تھا جب تک وہ آزادانہ طور پر سانس لینے کے قابل نہ ہو جائیں۔ لیکن ایسے مریض جن کے سینے کے پٹھے بھی مستقل طور پر مفلوج ہوگئے تھے، آئرن لنگ ان کی زندگی کا واحد سہارا تھا۔

آئرن لنگ کی ایجاد اپنے وقت کی اہم ایجاد تھی لیکن اس کی کچھ حدود بھی تھیں۔ بہت سے مریضوں نے خود کو اس کے اندر پھنسا ہوا محسوس کیا اور ڈاکٹروں کے لیے مریض کے جسم تک رسائی حاصل کرنا اور ان کا علاج کرنا مشکل تھا۔ لیکن اس ایجاد نے مستقبل میں بہت سی طبی ایجادات کی بنیاد رکھی۔

ہنا ونش کا کہنا ہے کہ ’پھیپڑوں جیسے عضو کی مصنوعی طریقے سے مدد کا تصور آگے چل کر جدید انتہائی نگہداشت کا مرکز بن گیا۔

آئرن لنگ کے بعد کی ایجادات

آئرن لنگ کی تیاری کو اکثر مکینیکل وینٹی لیٹرز کی تیاری میں ایک سنگ میل کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو پولیو پھیلنے سے پہلے بڑے پیمانے پر استعمال نہیں ہوتے تھے۔

میو کلینک کےانتہائی نگہداشت اور نیند کے معالج پیٹر گے کہتے ہیں کہ ’آئرن لنگ کے نتیجے میں مصنوعی سانس کی سائنس سامنے آئی۔‘ گیس کے تبادلے کی فزیولوجی کو اس وقت بہتر طور پر سمجھا گیا جب انھوں نے جسم کے اندر اور باہر حرکت کرنے والی ہوا کو مشینی شکل دی۔ ‘

ابتدائی وینٹی لیٹر کی تیاری میں بیورن ایج ایبسن کا بھی اہم کردار تھا۔ 1953 میں ایبسن نے ’مثبت دباؤ وینٹی لیٹر‘ تیار کرنا شروع کیا۔

آئرن لنگ کے برعکس، جو منفی پریشر وینٹیلیشن پر انحصار کرتا ہے جو مریض کے پھیپھڑوں میں ہوا باہر نکالتا تھا، مثبت پریشر وینٹی لیٹر سانس لینے والی ٹیوب سے منسلک ہونے پر ہوا کو پھیپھڑوں میں دھکیل سکتا ہے۔

ایبسن کا آلہ آئرن لنگ کے مقابلے میں زیادہ پورٹیبل تھا اوراس کا استعمال زیادہ مشکل بھی نہ تھا۔ اس قسم کے مثبت دباؤ کو بعد میں اینستھیسیولوجسٹ کے ذریعہ آپریٹنگ روم میں باقاعدگی سے استعمال کیا جانے لگا۔ یہ مشین آئرن لنگ کی طرح مریض کے پھیپھڑوں میں ہوا پھونک دیتی تھی تا کہ وہ سانس لے سکیں۔

Iron Lung

اگرچہ وینٹی لیٹر ٹیکنالوجی نے ڈرامائی طور پر ترقی کی ہے لیکن اس کا تصورایبسن کے ابتدائی وینٹیلٹر سے بہت مماثلت رکھتا ہے۔ جدید وینٹی لیٹرز جو انتہائی نگہداشت یونٹ میں مثبت دباؤ فراہم کرنے والے مریض کے بستر کے پاس رکھےجاتے ہیں، ان کی ایجاد کو پولیو کی وبا سے جوڑا جا سکتا ہے۔

آئرن لنگ کی ٹیکنالوجی کی ترقی نے یہ تصور پیدا کیا کہ آپ بہت سارے لوگوں کو ایک کمرے میں رکھ سکتے ہیں اور زندگی بچانے والی گیس کے ساتھ ان کی مدد کرسکتے ہیں جس کی انھیں ضرورت ہے۔ اس طرح انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) کا خیال پیدا ہوا۔

ریسپائریٹری کیئر جرنل کے مطابق ’پہلے آئی سی یو درجنوں مریضوں کے لیے قائم کیے گئے تھے، جنھیں پولیو کی وجہ سے منفی پریشر وینٹیلیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

پیٹر گے کا مزید کہنا تھا کہ ’آپ کے پاس ایسے یونٹ تھے جس میں آئرن لنگ کے ذریعے پولیو کے مریضوں کی مدد کی جاتی تھی اور یہیں سے انتہائی نگہداشت کے یونٹوں کا خیال شروع ہوا۔

’یہی وجہ ہے کہ اینستھیسیولوجسٹ ابتدائی طور پر انتہائی نگہداشت کے ماہرین بن گئے۔ کیونکہ اس قسم کی انتہائی نگہداشت کا انتظام کرنے والے پہلے اینستھیسیولوجسٹ تھے۔‘

ہنا ونش اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ’آئرن لنگ کی مدد سے پولیو کے مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے سانس کے مراکز قائم کرنے سے اس خیال کو تقویت ملی کہ مریضوں کی پیچیدہ دیکھ بھال کے لیےایک مخصوص علاقے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں انتہائی ہنر مند دیکھ بھال کرنے والے ہوں۔ یہ تصور جدید آئی سی یو کے مرکز میں بھی ہے۔ مریض کے نظام تنفس کو زیادہ مؤثر طریقے سے مدد کرنے کی صلاحیت نے بہت سی سنگین بیماریوں کے بہتر علاج کی مدد دی ہے.

پیٹر گے کہتے ہیں کہ ’اکثر، جب لوگوں کو سنگین بیماری ہوتی ہے، سانس کی خرابی، بیماری کے ساتھ ہوتی ہے۔ جب مریض سیپٹک ہوتے ہیں، یا نمونیا یا انفیکشن کا شکار ہوتے ہیں تو کسی دوسرے عضو کی ناکامی کو ٹھیک کرنے کے لیے نظام تنفس کی مدد کرنی پڑتی ہے۔

کورونا کی وبا اور وینٹی لیٹر

دنیا بھر میں جب پولیوکی وبا اپنے عروج پر تھی تو اس بیماری نے ہر سال لاکھوں بچوں کو مفلوج کر دیا۔ آئرن لنگ نے ان میں سے بہت سے لوگوں کو بچانے میں مدد کی۔ صرف امریکہ میں 1959 میں آئرن لنگ کو 1200 افراد نے استعمال کیا تھا۔

سنہ 2019 کے آخر اور 2020 کے اوائل میں جب دنیا کو ایک بار پھر کووڈ 19 کی وبا کا سامنا کرنا پڑا تو وینٹیلیشن ایک بار پھرعلاج میں سب سے آگے تھا۔

حال ہی میں انجینئروں اور ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے آئرن لنگ کا ایک جدید ورژن ایجاد کیا ہے جو کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے سانس لینے میں مدد کے طور پر کام کرتی ہے۔

یہ نیا آلہ جو ابھی تیاری اور بہتری کے مراحل میں ہے، اسے مارکیٹ میں متعارف نہیں کروایا گیا ہے اسے ایگزووینٹ این پی وی (Exovent NPV) کا نام دیا گیا ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف مکینیکل انجینئرز کے مطابق یہ ایک منفی پریشر وینٹی لیٹر بھی ہے اور ’جسم کے باہر دباؤ کو کم کرکے کام کرتا ہے تا کہ پھیپھڑوں کے ٹشوز اس طرح سے بڑھنے اور کام کرنے کے قابل ہو سکیں جو عام سانس کی طرح ہو۔‘ یہ بھی امید ہے کہ اس آلے کو نمونیا جیسے حالات میں مدد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایگزووینٹ صرف ایک طبی جدت طرازی کی تازہ ترین مثال ہے جو اس کو آئرن لنگ کی ایجاد سے جوڑ سکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں