وقت سے متعلق آپ کیا سوچتے ہیں؟ گھڑیوں کی آپ کی نظر میں اہمیت کیا ہے؟ کیا گھڑی کے بنا زندگی کا تصور ممکن ہے؟
ان سوالوں کا کوئی مختصر جواب دینا مشکل ہو سکتا ہے۔
اس لیے ہم نے آپ کے لیے وقت کی انسانی زندگی میں اہمیت سے جڑے 11 حقائق تحریر کیے ہیں:
1. زبان کا وقت سے کیا تعلق ہے؟
وقت کو اکثر ایک سیدھی لکیر کے طور پر تصور کیا جاتا ہے مگر یہ لائن جو سیدھی لکیر تصور کی جاتی ہے یہ جاتی کہاں ہے؟ اس کی سمت کیا ہے؟
لیکن یہ جو بات ہم تصور کر رہے ہیں کہ وہ ہو ہی نہ تو یعنی کوئی لائن ہو ہی نہ۔
اب کہا یہ جاتا ہے کہ ان تمام سوالات کے جواب کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کون سی زبان بولتے ہیں۔
وقت کے بارے میں سوچنے اور سمجھنے یا تفہیم اس زبان سے بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے جو ہم استعمال کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر، انگریزی بولنے والے وقت کو آگے یا پیچھے سمجھتے ہیں۔
انگریزی بولنے والے مستقبل کا ذکر کرتے ہوئے ہاتھ سے آگے کی جانب اشارہ کرتے ہیں اور جب وہ ماضی کا ذکر کرتے ہیں تو اُن کے ہاتھ کا اشارہ پیچھے کی جانب ہوتا ہے۔
وقت کو افق پر دائیں سے بائیں تک پھیلی سیدھی لکیر کے طور پر بھی سمجھا جاتا ہے۔
چین میں رہنے والے اور چائنیز زبان بولنے والے وقت کو ایک اوپر سے نیچے جانے والی لائن کے طور پر دیکھتے ہیں، نہ صرف یہ بلکہ تصور یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اس اوپر سے نیچے آنے والی لائن کی تہہ میں مستقبل ہے۔
یونانیوں نے وقت کو لمبائی میں نہیں بلکہ سہہ جہتی سمجھا۔اسی طرح آسٹریلیا کا ایک قبیلہ وقت کو مشرق اور مغرب سمجھتا ہے۔
اس کے علاوہ، ہماری زبان وقت گزرنے کے بارے میں ہماری تفہیم کا تعین کرتی ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ کوئی اپنے حال کے بارے میں کیا کہتا ہے اس سے بہتر کہ وہ اپنے ماضی کے بارے میں کیا کہتا ہے۔
2. جو آپ اب سمجھتے ہیں وہ اب نہیں
جب آپ ان الفاظ کو پڑھ رہے ہوں گے تو اب اسے سمجھنا بہت آسان ہو گا لیکن ایسا نہیں۔
مثال کے طور پر اس شخص کے بارے میں سوچیں جو آپ کے سامنے میز کے دوسری طرف بیٹھا ہے اور بول رہا ہے۔
ان کے اشارے ان کے الفاظ سے پہلے آپ تک پہنچ جاتے ہیں کیونکہ روشنی آواز سے زیادہ تیزی سے سفر کرتی ہے۔ہمارا دماغ ان دونوں کو جوڑتا ہے۔
اسی وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ جب کسی شخص کے ہونٹ ہلتے نظر آتے ہیں تو وہ تبھی بول رہا ہوتا ہے۔
جب ہونٹ ہل رہے ہوتے ہیں تو ہم سب سے پہلے دیکھتے ہیں لیکن یہ وقت کے بارے میں سب سے عجیب بات نہیں۔
3. وقت کے بغیر کوئی شعوری تجربہ نہیں ہو سکتا
ہم اپنے ہاتھوں کی مدد سے گھڑی کی ٹک ٹک کی گنتی کرتے ہیں۔ اب زرا یہ گمان کریں کے یہ ٹک ٹک ہے کیا تو جناب یہ ٹک ٹک آپ کے دل کی دھڑکن ہے۔
وقت اور ہمارے وجود کی بات کرتے ہیں تو یہ گھڑی کی ٹک ٹک اور ہمارے دل کی دھک دھک ایک ساتھ چلتے ہیں۔
ایک اندھیری غار میں لیٹا ہوا شخص بھی دنیا اور گھڑیوں سے چاہے جتنا ہی دور کیوں نہ ہو مگر وہ اپنی اس جسمانی گھڑی کے زیر اثر ہوتا ہے۔
ہولی اینڈرسن سائمن فریزر یونیورسٹی، برٹش کولمبیا میں سائنس، فلسفے اور میٹا فیزکس کا مطالعہ کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم وقت کا ٹریک کھو دیں گے تو اس سے ہمارے اپنے بارے میں تصور متاثر ہوگا۔‘
ان کا ماننا ہے کہ ’اگر وقت کی سمجھ نہ ہو اور ہم وقت گزرنے کو محسوس نہ کریں تو ہم کچھ بھی محسوس نہیں کریں گے۔‘
سوچیں کہ وقت گزرنے کی وجہ سے آج آپ کیا ہیں۔ آپ کی شخصیت وقت کے ساتھ تشکیل پاتی ہے۔
آپ کی شخصیت یادوں کے مجموعے کے سوا کچھ نہیں۔
4. کوئی گھڑی 100 فیصد درست نہیں
سائنسدان وقت کی پیمائش کرنے کے لیے بہت محنت کرتے ہیں۔ وہ گزرنے والے لمحات، منٹوں، گھنٹوں پر نظر رکھنے کے لیے جدید ترین ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں۔
اگرچہ ان کی ایٹمی گھڑیاں بہت درست ہیں لیکن پھر بھی وہ وقت کی مکمل پیمائش کرنے کے قابل نہیں۔
زمین پر کوئی بھی گھڑی صحیح طریقے سے وقت کی پیمائش نہیں کر سکتی۔ اب یہ طے کرنے کا عمل کہ یہ کون سا وقت ہے بہت سی گھڑیوں پر مشتمل ہے۔
اسی طرح دنیا کے وقت کا حساب لگایا جاتا ہے۔
قومی لیبارٹریاں پیرس (فرانس) میں بین الاقوامی ادارہ برائے وزن اور پیمائش کو اپنی ریڈنگ بھیجتی ہیں۔ وہاں ان ریڈنگز کی اوسط کا حساب لگایا جاتا ہے۔
بس یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ وقت ایک انسانی ایجاد ہے۔
5. وقت کا تجربہ صرف ہمارے ذہن میں ہے
وقت کے بارے میں ہماری سوچ سمجھ یا تفہیم بہت سے عوامل سے تشکیل پاتی ہے، جیسے ہمارا شعور، ارتکاز، معنی، اور سمجھ کہ ہم موجود ہیں۔
وقت کے بارے میں ہمارا ادراک ہمیں اپنی ذہنی حقیقت سے منسلک رکھتا ہے۔
ہماری زندگی نہ صرف وقت کے ساتھ شروع ہوتی ہے بلکہ اس کے ساتھ جاری بھی رہتی ہے۔ ہم صرف وقت کے ذریعے زندگی کو محسوس کرتے ہیں اور لطف اندوز کرتے ہیں۔
اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہماری زندگی پر ہمارا کچھ کنٹرول ہے۔
مثال کے طور پر، اگر آپ نہیں چاہتے کہ آپ کی زندگی جلد بازی میں گزر جائے تو، ایک حل ہے اور وہ یہ کہ اپنی زندگی میں جدت کو جگہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اسی طرح، بعض اوقات معمول کی زندگی بہت تیزی سے گزرتی نظر آتی ہے۔
اس کے مقابلے میں اگر آپ زندگی میں جدت کو برقرار رکھیں گے تو زندگی لمحہ بہ لمحہ پرسکون طریقے سے گزرنا شروع ہو جائے گی۔
وقت گزرتا دکھائی نہیں دے گا۔
6. 22ویں صدی کے شہری ہم میں موجود ہیں
ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ آنے والی صدی اکثر ایک طویل دور لگ سکتی ہے۔
اب بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو شاید 2099 کا نیا سال دیکھیں گے۔ 2023 میں پیدا ہونے والا بچہ اس وقت 70 سال کی عمر میں ہو گا۔
ہم ماضی اور مستقبل سے اس سے کہیں زیادہ جڑے ہوئے ہیں جتنا ہم تصور کرتے ہیں۔
ان کے رشتوں کی وجہ سے، ان کی آنے والی نسلوں کی وجہ سے۔
7. ہم سب وقت کے جمود کو محسوس کر سکتے ہیں
وقت کی رفتار ہر ایک کے لیے ایک جیسی نہیں۔ جیسے ہی گاڑی سڑک پر رینگتی ہے، ایسا لگتا ہے جیسے یہ صدیوں سے رینگ رہی ہے۔
اگر ریت کو ہوا میں پھینکا جائے تو یہ ہوا میں کیسے رکتی ہے؟
بعض اوقات ہمارا ماحول وقت کے بارے میں ہمارے تصور کو بھی متاثر کرتا ہے۔
جب تناؤ ہوتا ہے تو وقت تیزی سے گزرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس سے ہمیں زندگی اور موت کے فیصلے جلدی کرنے میں مدد ملتی ہے۔
اسی طرح دماغی بیماریاں جیسے مرگی اور دورے بھی وقت کے بارے میں ہمارے تصور کو متاثر کرتے ہیں۔
8. گھڑی دن کی روشنی کے مطابق چلنا کیوں شروع ہوتی ہے؟
بہت سے ممالک میں، گرمیوں اور سردیوں میں گھڑیوں کو آگے پیچھے منتقل کیا جاتا ہے تاکہ دن کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے۔
سب سے پہلے اگرچہ یہ پوری دنیا میں نہیں کیا جاتا ہے۔
ایک برطانوی بلڈر ولیم ولیٹ نے امریکہ سمیت دنیا کے ایک چوتھائی حصے کو اس بارے میں بتایا۔ پہلی عالمی جگ دوران، برطانیہ نے دن کے لیے اپنی گھڑیاں قائم کیں۔
اس وقت ایسا کوئلے کی قلت کی وجہ سے کیا گیا تھا۔
سورج طلوع ہونے کے ساتھ گھڑیوں کو ہم آہنگ کرنے کا مطلب یہ تھا کہ رات کو روشن کرنے کے لیے کم بجلی کی ضرورت تھی۔
یہ خیال اتنا مؤثر ثابت ہوا کہ برطانیہ نے اسے دوسری عالمی جنگ کے دوران اپنایا۔ برطانیہ نے ایک قدم آگے بڑھ کر اپنی گھڑیاں عالمی اوسط وقت سے دو گھنٹے پہلے طے کیں۔
اس سے صنعت میں بہت زیادہ توانائی بچائی جا سکتی ہے۔
9. کائنات کے خاتمے کے بعد کوئی ماضی، حال اور مستقبل باقی نہیں رہے گا؟
علامتی طور پر وقت کو تیر سمجھا جاتا ہے۔ وقت کا یہ تیر اس مستقبل کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بگ بینگ سے باقی رہ گیا تھا۔
کائنات کے آغاز میں کائنات میں بہت کم اینٹروپی تھی، اینٹروپی بے ترتیبی کی پیمائش ہے۔ تب سے یہ تجسس لگاتار بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ وقت کے تیر کو سمت دیتا ہے۔
چونکہ تیر صرف ایک سمت (آگے) میں جاتا ہے اس لیے ایک انڈے کو توڑا جا سکتا ہے لیکن اسی انڈے کو اس انڈے کا پانی، زردی اور خول ملا کر نہیں بنایا جا سکتا۔
کوئی نہیں جانتا کہ کائنات کے خاتمے کے بعد کیا ہو گا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا (کائنات) کا خاتمہ شدید گرمی میں ہو گا۔
10. چاند کی کشش کی وجہ سے ہمارے دن لمبے ہوتے جا رہے ہیں
آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ ہمارا چاند ہم سے انچ در انچ دور ہوتا جا رہا ہے۔
ہر سال چاند اور زمین کے درمیان فاصلہ تقریباً 1.5 انچ (3.8 سینٹی میٹر) بڑھ رہا ہے۔ اس عمل میں ہمارے دن لمبے ہوتے جا رہے ہیں۔
چاند زمین کے پانی کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ چاند زمین کے پانی کو کھینچتا اور دھکیلتا ہے۔
یہ کشش زمین اور پانی کے درمیان رگڑ پیدا کرتی ہے۔
زمین پانی کے نیچے تیزی سے حرکت کرتی ہے۔ اس رگڑ کی وجہ سے زمین کی اپنے محور کے گرد رفتار کم ہو جاتی ہے جبکہ چاند رفتار پکڑ کر دور جا رہا ہوتا ہے۔
چاند کی اس طاقت کی وجہ سے ہمارے دن 1.09 ملی سیکنڈ فی صدی لمبے ہو جاتے ہیں۔ کچھ دیگر تخمینوں کے مطابق یہ اضافہ 1.78 ملی سیکنڈ فی صدی سے کچھ زیادہ ہے۔
لہٰذا اگرچہ یہ بہت بڑا نہیں لگتا لیکن اگر ہم زمین کی ساڑھے چار ارب سال کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ بہت زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ اس طرح ہمارے دن لمبے ہو جاتے ہیں۔
11. بہت سے لوگ روایتی وقت میں نہیں رہتے، ان کے لیے یہ 2023 نہیں
یہ دراصل نیپال کے بکرمی کیلنڈر کے لیے سال 2080 ہے۔ نیپال کا کیلنڈر باقی دنیا کے ٹائم زون سے 15 منٹ پیچھے چلتا ہے۔
دنیا میں کم از کم چار کیلنڈر استعمال ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بہت سی جگہوں پر لوگ ایک سال میں ایک سے زیادہ سال گزارنے پر خوش ہیں۔
برما میں یہ 1384 سال سے چل رہا ہے۔
اسی طرح تھائی لینڈ میں یہ تعداد 2566 اور ایتھوپیا میں 2016 ہے جہاں سال 13 ماہ کا ہوتا ہے۔
اسلامی کیلنڈر کے مطابق جولائی میں 1445 ہجری میں اضافہ ہوا۔