کیا ’ٹائم ٹریول‘ واقعی ممکن ہے اور اس پر علم طبیعات کیا کہتی ہے؟

موجودہ وقت سے آگے جانا یا ماضی میں جانے کی صلاحیت ایک زمانے سے سائنس فکشن لکھنے والوں اور ماہرین طبیعیات کو اپنی جانب کھینچتی رہی ہے۔ تو کیا واقعی ماضی اور مستقبل میں سفر کرنا ممکن ہے؟

’ڈاکٹر ہوُ‘ ٹائم ٹریول یعنی ماضی میں جانے کے بارے میں سب سے مشہور کہانیوں میں سے ایک ہے۔ ’ٹائم مشین‘ اور ’بیک ٹو دی فیوچر‘ کے ساتھ ساتھ اس میں ماضی میں سفر کرنے اور مستقبل کا دورہ کرنے کی خواہش اور ان میں مضمر تضادات کی تلاش ہے۔

ٹی وی شو میں ڈاکٹر تارڈیس نامی ایک گاڑی میں وقت میں آگے اور پیچھے کا سفر کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی جدید ترین گاڑی ہے وقت میں اور جگہ میں کہیں بھی جا سکتی ہے۔ عام خیال کے برخلاف ٹارڈیس جسمانی طور پر کسی جگہ موجود ہونے کے بارے میں ہماری سمجھ کو رد کرتا ہے۔ یہ گاڑی باہر سے چھوٹی لیکن اندر سے بہت بڑی ہے۔

اگرچہ ڈاکٹر ہوُ کے لیے وقت ميں آگے یا پیچھے کا سفر بنیادی ہے لیکن شو میں کبھی بھی حقیقی دنیا کے علم طبیعیات سے مشابہہ کسی بھی چیز کے متعلق ٹارڈیس کی صلاحیتوں کو بنیاد بنانے کی کوشش نہیں کرتا ہے۔ اس کے بارے میں شکایت کرنا عجیب ہو گا کیونکہ ڈاکٹر ہوُ پریوں کی کہانی کی طرح ہے جبکہ یہ کہیں بھی حقیقت پسندانہ سائنس فکشن بننے کا دعوی نہیں کرتا۔

لیکن حقیقی دنیا میں کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا ہم کبھی ٹائم مشین بنا سکتے ہیں اور ماضی بعید میں یا مستقبل بعید میں سفر کر سکتے ہیں اور اپنے پوتے پڑپوتے کو دیکھنے کے لیے ان کے زمانے میں پہنچ سکتے ہیں؟

اس سوال کا جواب دینے کے لیے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وقت اصل میں کیسے کام کرتا ہے۔ اس کے بارے میں ماہرین علم طبیعیات یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں۔ اب تک ہم اعتماد کے ساتھ جو کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ مستقبل میں سفر کرنا قابل حصول ہے، لیکن ماضی میں سفر کرنا یا تو انتہائی مشکل ہے یا بالکل ناممکن ہے۔

آئیے دنیا کے معروف سائنسداں البرٹ آئن سٹائن کے نظریہ اضافت سے بات شروع کرتے ہیں جس میں جگہ، وقت، کمیت اور کشش ثقل کی وضاحت کی گئی ہے۔ نظریہ اضافت کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ وقت کا بہاؤ مستقل نہیں ہے۔ وقت حالات کے لحاظ سے تیز یا سست ہو سکتا ہے۔

برطانیہ کی یونیورسٹی آف یارک کی ماہر فلکیاتی طبیعیات ایما اوسبورن کا کہنا ہے کہ ’یہ وہ مقام ہے جہاں وقت کا سفر ممکن لگ سکتا ہے اور یہ سائنسی طور پر درست ہے اور اس پر حقیقی دنیا کے اثرات ہو سکتے ہیں۔‘

مثال کے طور پر جب آپ انتہائی تیز رفتاری سے سفر کرتے ہیں تو وقت زیادہ آہستہ سے گزرتا ہے اور اس کا نمایاں احساس کرنے کے لیے آپ کو روشنی کی رفتار کے قریب سے قریب تر جانا ہوگا۔

اس سے جڑواں تضاد پیدا ہوتا ہے۔ اسے ایک جیسے جڑواں بچوں کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے جس میں سے ایک خلاباز بن جاتا ہے اور روشنی کی رفتار سے خلا میں گھومتا ہے، جبکہ دوسرا زمین پر رہتا ہے۔ ایسے میں خلاباز بچہ اپنے زمینی جڑواں کے مقابلے زیادہ سست رفتاری کے ساتھ عمر رسیدہ ہوتا ہے۔

آئنسٹائن
،آئنسٹائن

آکسفورڈ یونیورسٹی کے کوانٹم فزیسسٹ ولاٹکو ویڈرل کہتے ہیں کہ ’اگر آپ سفر کرتے ہیں اور واپس آتے ہیں، تو آپ اپنے جڑواں بھائی سے واقعی چھوٹے ہوں گے۔‘ جڑواں بچے سکاٹ اور مارک کیلی نے یہ کام حقیقی طور پر کیا جب سکاٹ نے کئی مہینے خلا میں گزارے حالانکہ وہ روشنی کی رفتار کے قریب نہیں تھے۔

اسی طرح اگر آپ شدید کشش ثقل کے علاقے جیسے کہ بلیک ہول میں ہوں تو بھی آپ کے لیے وقت زیادہ آہستہ سے گزرتا ہے۔ اوسبورن کا کہنا ہے کہ ’آپ کا سر آپ کے پیروں کی نسبت تیزی سے بوڑھا ہوتا ہے، کیونکہ زمین کی کشش ثقل آپ کے پاؤں کے پاس زیادہ مضبوط ہے۔‘

ڈاکٹر ہوُ نے علم طبیعیات کے اس اصول کو سیزن 10 کے فائنل ’ورلڈ اینف اینڈ ٹائم‘ میں استعمال کیا، جس میں بارہواں ڈاکٹر اور اس کے دوست بلیک ہول کے قریب ایک سپیس شپ پر پھنس جاتے ہیں۔

بلیک ہول کے قریب کرافٹ میں آگے کے حصے میں وقت پیچھے کی نششت کی بنسبت زیادہ آہستہ سے گزرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کرافٹ کے عقب میں سائبر مین کا چھوٹا گروپ ڈاکٹر کے نقطہ نظر سے چند منٹوں میں ایک بہت بڑی فوج میں تبدیل ہونے کے قابل ہے۔ وقت پر کشش ثقل کے اس اثر کو فلم ’انٹر سٹیلر‘ کے پلاٹ میں بھی پیش کیا گيا ہے۔

ہماری روزمرہ کی زندگیوں میں اضافیہ کے اصول کے ان اثرات کو محسوس نہیں کیا جاتا کیونکہ اس کے اثرات بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ لیکن وہ ان سیٹلائٹس کو متاثر کرتے ہیں جنھیں ہم گلوبل پوزیشننگ سسٹم (جی پی ایس) کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اوسبورن کا کہنا ہے کہ ’اوپر کی گھڑیاں زمین پر چلنے والی گھڑیوں سے زیادہ تیزی سے چلتی ہیں‘ جس کی وجہ سے انھیں مسلسل ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو گوگل میپس ایک دن میں تقریباً 10 کلومیٹر (یا چھ میل) غلط ہوگا۔‘

نظریہ اضافت کا مطلب ہے کہ مستقبل میں سفر کرنا ممکن ہے۔ ہمیں اس کے لیے بالخصوص کسی ٹائم مشین کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں یا تو روشنی کی رفتار کے قریب رفتار پر سفر کرنے کی ضرورت ہے، یا اس کے لیے ہمیں کسی شدید ثقلی میدان میں وقت گزارنا ہوگا۔

اضافیت میں یہ دونوں اعمال بنیادی طور پر مساوی ہیں۔ دونوں صورتوں میں آپ کو در حقیقت وقت کی نسبتاً کم مقدار کا تجربہ ہوگا، جبکہ باقی کائنات میں دہائیاں یا صدیاں گزرتی جائيں گی۔ اگر آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اب سے سینکڑوں سال بعد کیا ہونا ہے، تو اس لیے کیا کرنا ہوگا۔

اس کے برعکس وقت میں پیچھے ماضی بعید کی طرف جانا کہیں زیادہ مشکل لگتا ہے۔

ڈاکٹر وھو
،ڈاکٹر وھو کا ایک منظر

کینیڈا کے سینٹ کیتھرینز میں بروک یونیورسٹی کے ایک نظریاتی ماہرعلم طبیعیات بارک شوشانی کا کہنا ہے کہ ’یہ ممکن ہو بھی سکتا اور نہیں بھی۔ ہمارے پاس ابھی جو کچھ بھی علم ہے وہ ناکافی ہے، ممکنہ طور پر ناکافی نظریات ہیں۔‘

اضافیہ کا نظریہ وقت میں پیچھے یا ماضی کی طرف کے سفر کے لیے کچھ آپشنز دیتے ہیں لیکن وہ حقیقت سے زیادہ نظریاتی ہیں۔ کینیڈا کے واٹر لو میں پیری میٹر انسٹی ٹیوٹ فار تھیوریٹیکل فزکس کی ایک نظریاتی کاسمولوجسٹ کیٹی میک کہتی ہیں: ’لوگ اپنے آپ کو گانٹھوں میں باندھ کر سپیس ٹائم کو دوبارہ ترتیب دینے کے طریقے تلاش کرتے ہیں تاکہ ماضی کے سفر کو ممکن بنایا جا سکے۔‘

ایک طریقہ یہ ہے کہ بند وقت کی طرح کا ایک خم یا دائرہ پیدا کیا جائے جس جگہ اور وقت سے گزرنے والا ایک راستہ ہو جو اپنے آپ پیچھے جاتا ہو۔ ایک شخص جو اس راستے پر چلتا ہے آخر کار اپنے آپ کو اسی وقت اور جگہ پر پائے گا جہاں سے وہ شروع ہوا تھا۔ اس طرح کے راستے کی ایک ریاضیاتی وضاحت منطق دان کرٹ گوڈل نے سنہ 1949 کے مطالعے میں شائع کی تھی اور بہت سے دوسرے لوگوں نے اس کی پیروی کی ہے۔

بہر حال یہ کئی وجوہات کی بنا پر امید افزا یا قابل عمل نقطہ نظر نہیں لگتا ہے۔

ویڈرل نے کہا کہ ’ہم نہیں جانتے کہ یہ کائنات میں کہیں بھی موجود ہے۔ یہ واقعی خالصتاً نظریاتی ہے، اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔‘

اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ ہم ایسی کوئی چیز کیسے بنا سکتے ہیں۔ کیلیفورنیا کی چیپ مین یونیورسٹی کی ایک فلسفی ایملی ایڈلم کہتی ہیں: ’اگرچہ ہمارے پاس اس وقت کے مقابلے میں بہت زیادہ تکنیکی طاقتیں تھیں، تب بھی ایسا لگتا ہے کہ ہم مقصد کے مطابق بند وقت کی طرح کے منحنی خطوط پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔‘

ویڈرل کا کہنا ہے کہ اگر ہم ایسا کرنے کے قابل بھی ہو جاتے تو ہم ایسا کرنا نہیں چاہیں گے۔ وہ کہتے ہیں: کہ ’آپ در حقیقت ایک ہی چیز کو بار بار دہرا رہے ہوں گے۔‘

ڈاکٹر ہوُ نے کلاسک ایپی سوڈ ’ہیون سینٹ‘ میں اسی طرح کا تجربہ کیا ہے جس میں ڈاکٹر اربوں سالوں تک چند گھنٹے پر مبنی ایک لمحے میں بار بار جیتا ہے۔ لیکن یہ بند وقت کی طرح کوئی خم نہیں بلکہ کسی کیسٹ کے بار بار بجنے کی طرح ہے۔

اسی طرح سنہ 1991 کے ایک مطالعہ میں ماہر طبیعیات رچرڈ گوٹ نے ایک دور دراز کے خیال کے تحت ایک منظر نامہ ریاضیاتی بنیادوں پر ترتیب دیا جس میں دو ’کائناتی تار‘ ایک دوسرے سے مخالف سمتوں میں گزرتی ہے۔ ان کے حساب کے مطابق اس سے تاروں کے گرد گھومتے ہوئے بند وقت کی طرح کا دائرہ یا خم والے خطوط پیدا ہوں گے۔

یہ منطقی تو لگتا ہے لیکن ہمیں کائناتی تاروں کا جوڑا کہاں سے مل سکتا ہے؟ یہ فرضی چیزیں ہیں جو کچھ نظریات کے مطابق بہت ابتدائی کائنات میں تشکیل پا چکے ہیں۔ لیکن ان میں سے کبھی کسی کا پتہ نہیں چلا۔ میک کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس کائناتی تاروں کے وجود پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔‘ یہاں تک کہ اگر وہ موجود ہیں تو بھی یہ انتہائی خوش قسمتی کا ایک ناقابل یقین سلسلہ ہوگا کہ دونوں متوازی طور پر صفائی کے ساتھ چل رہے ہوں۔ ’ہمارے پاس یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے۔‘

ایک اور رجحان ہے جسے بظاہر اضافیت کے اصول کے تحت سمجھا جا سکتا ہے۔ اور یہ ’وورم ہولز‘ ہیں۔ نظریاتی طور پر یہ ممکن ہے کہ سپیس-ٹائم کو کاغذ کے ٹکڑے کی طرح جوڑ دیا جائے، جس سے دو وسیع پیمانے پر الگ کیے گئے پوائنٹس کے درمیان ایک شارٹ کٹ بنانے کے لیے ایک سرنگ کو پنچ کیا جا سکے۔ ویڈرل کا کہنا ہے کہ ’وورم ہولز عمومی اضافیت میں نظریاتی طور پر ممکن ہیں۔‘

پھر بھی ایک بار پھر سے مسائل تیزی سے بڑھ جائيں گے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے پاس شواہد نہیں ہیں کہ وورم ہولز اصل میں موجود ہیں۔ اوسبورن کا کہنا ہے کہ ’ریاضیاتی طور پر دکھایا گیا ہے کہ وہ موجود ہوسکتے ہیں، لیکن آیا وہ جسمانی طور پر موجود ہیں یا نہیں، یہ ایک الگ بات ہے۔‘

مزید یہ کہ اگر وورم ہولز موجود ہیں تو وہ ناقابل یقین حد تک قلیل المدت ہوں گے۔ اوسبورن کے مطابق ’اکثر ورم ہولز کو دو بلیک ہولز کے طور پر بیان کیا جاتا ہے جو ایک دوسرے سے جڑ گئے ہیں۔‘ اس کا مطلب ہے کہ ایک وورم ہول میں ناقابل یقین حد تک شدید کشش ثقل کا میدان ہوگا۔ اور پھر ایسے میں ’یہ اپنی ہی کشش ثقل کے نیچے گر جائے گا۔‘

اصلی وورم ہولز اگر ہوں گے بھی تو وہ خوردبینی طور پر چھوٹے ہوں گے۔ آپ اس میں ایک شخص تو کیا ایک بیکٹیریم کو بھی فٹ نہیں کر سکتے۔

نظریاتی طور پر ان دونوں مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے ’منفی توانائی‘ کہلانے والی ایک بہت بڑی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو ایٹموں سے چھوٹی جگہوں کے اندر، قطعی چھوٹے پیمانے پر واقع ہو سکتی ہے۔

اوسبورن کا کہنا ہے کہ توانائی کے شعبے میں مجموعی طور پر مثبت توانائی ہونی چاہیے، لیکن اس کے اندر منفی توانائی کی چھوٹی جیبیں ہو سکتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے میں ’آپ یہ چاہتے ہیں کہ مقامی طور پر منفی توانائی کی ان چھوٹی جیبوں کو پھیلایا جائے۔ اور مجھے نہیں لگتا کہ یہ کسی بھی طرح ممکن ہے۔‘

ویڈرل نے اس کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بہت حقیقت پسندانہ تجویز کی طرح نہیں لگتا ہے۔‘

نظریہ اضافت کی بنیاد پر وقت کے اندر سفر کے لیے بس اتنا ہی۔ کائنات کے دوسرے عظیم نظریوں جیسے ’کوانٹم میکانکس‘ کے بارے میں کیا خیال ہے؟

جہاں اضافیت کے نظریے میں بڑی چیزیں جیسے انسانوں اور کہکشاؤں جیسی بڑی اشیا کے رویے کو بیان کرتی ہے وہیں کوانٹم میکانکس میں بہت چھوٹے رویے کو بیان کیا جاتا ہے خاص طور پر، ایٹموں سے چھوٹے ذرّات، جیسے الیکٹران اور فوٹان۔ ان ذیلی ایٹمی پیمانے پر طبیعیات ان طریقوں سے کام کرتی ہے جو ہماری عقل کو دنگ کر دیتی ہے۔

کوانٹم کی دنیا کے مطالعے سے جو عجیب مشاہدات سامنے آئے ہیں ان میں سے ایک غیر مقامیت ہے۔ ایک جگہ پر کسی ذرّہ کی حالت میں تبدیلی فوری طور پر کسی اور جگہ پر دوسرے ’منسلک‘ ذرے کو متاثر کر سکتی ہے۔ اسے آئن سٹائن نے ’فاصلے پر ڈراؤنا عمل‘ کہا ہے۔ ایڈلم کا کہنا ہے کہ نوبل انعام یافتہ تحقیق میں اسے ’تجرباتی طور پر کئی بار دکھایا گیا ہے۔‘

کوانٹم ذرات برقی مقاناطیسی میدان پیدا کرتے ہیں
،کوانٹم ذرات برقی مقاناطیسی میدان پیدا کرتے ہیں

ایڈلم کا کہنا ہے کہ ’بہت سے ماہر علم طبیعیات غیر مقامی ہونے کے امکان سے بہت مطمئن نہیں ہیں۔‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ اثر کے فوری ہونے کے لیے، معلومات کو روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز رفتاری سے جگہ جگہ پہنچایا جانا چاہیے اور یہ بعید القیاس سمجھا جاتا ہے۔

اس کے جواب میں کچھ ماہر طبیعیات نے تجربات کی تشریح کے لیے متبادل طریقے تجویز کیے ہیں۔ یہ تشریحات غیر مقامیت سے چھٹکارا دلاتی ہیں، لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ وقت کے بارے میں ہماری سمجھ میں خلل ڈالتے ہیں کیونکہ ہماری سمجھ زمان اور مکان کی حدود میں ہیں۔

ایڈلم کا کہنا ہے کہ ’فوری طور پر غیر مقامی طور پر اثر ڈالنے کے بجائے، آپ اپنا اثر مستقبل میں بھیجیں گے، اور پھر کسی وقت یہ پلٹ کر ماضی میں جا سکتا ہے۔ یہ فوری طور پر ہوتا نظر آئے گا۔ لیکن حقیقت میں، اس کا اثر مستقبل کے سفر پر چلا جاتا اور دوبارہ واپس آتا۔‘

یہ تشریح ریٹرو کیزوئلٹی یعنی پس منظر کی سببیت یا موجوبیت کو متعارف کراتی دکھائی دیتی ہے: یعنی مستقبل میں ہونے والے واقعات ماضی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے وجدان کے خلاف ہے کیونکہ ہم ماضی سے حال تک سیدھی لائن میں واقع ہونے والے واقعات کا تصور کرتے ہیں۔ ان عجیب کوانٹم سیٹ اپ میں معلومات مستقبل میں ہوتی ہیں اور پھر ماضی میں واپس جا سکتی ہیں۔

قابل غور پہلی بات یہ ہے کہ تجربات کی یہ تشریح عالمی سطح پر تسلیم شدہ نہیں ہے۔ بہت سارے کوانٹم ماہر علم طبیعیات استدلال کرتے ہیں کہ ریٹروکیزولٹی کو متعارف کرانا اتنا ہی پریشان کن ہے جتنا کہ غیر مقامی کو متعارف کروانا، یا اس سے بھی بدتر۔

یہاں تک کہ اگر پس سببیت حقیقی ہے تو بھی شاید یہ ہمیں وقت پر حاوی ہونے یا اس پر بادشاہت کرنے مں ہماری مدد نہیں کرے گا۔ ایڈلم کا کہنا ہے کہ ’ریٹرو کیزولٹی وقت کے اندر سفر کرنے جیسا بالکل نہیں ہے۔‘

ایک چیز تو یہ ہے کہ غیر محلی یا غیر مقامی طور پر وقوع پزیر ہونے کے ہمارے مشاہدات میں انتہائی چھوٹے ذرات شامل ہیں۔ کسی انسان یا اس سے بھی چھوٹی چیز جیسے کاغذ کے ٹکڑے تک میں اس کی پیمائش کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔

ایڈلم کہتے ہیں کہ ماضی میں کوئی پیغام بھیجنا بھی ممکن نہیں ہے۔ ’اس کے نفاذ کے طریقے میں ریٹرو کیزولٹی خاص طور پر مضمر ہے۔‘

اسے ایک تجربے کے ذریعے سوچنے سے بہتر طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ فرض کریں کہ آدم لیب میں ایک پیمائش کرتا ہے۔ تاہم وہ جو نتیجہ حاصل کرتا ہے اس کا انحصار اس پیمائش پر ہوتا ہے جو بعد میں زید کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، مستقبل میں زید کا تجربہ ماضی میں آدم کے تجربے کے نتائج کو کنٹرول کرتا ہے۔ تاہم، یہ صرف اس صورت میں کام کرتا ہے جب زید کا تجربہ ان تمام ریکارڈوں کو تباہ کر دے جو آدم نے کیا اور دیکھا تھا۔

ایڈلم کا کہنا ہے کہ ’آپ کسی نہ کسی لحاظ سے ماضی کی طرف اشارہ کر رہے ہوں گے، لیکن جو کچھ بھی ہوا اس کے تمام ریکارڈ کو تباہ کر کے۔ آپ اس کا عملی استعمال نہیں کر پائیں گے کیونکہ آپ کو لازمی طور پر اسے کسی سگنل کے ذریعے اسے تباہ کرنا ہوگا۔‘

تو وہ ہمارے پاس ہے۔ کائنات کے بارے میں ہماری موجودہ تفہیم کے مطابق ہم ممکنہ طور پر مستقبل میں سفر کر سکتے ہیں لیکن ماضی میں سفر کرنا مکمل طور پر ناقابل حصول ہو سکتا ہے۔

اس میں جو خامی رہ جاتی ہے وہ یہ ہے کہ جن نظریات پر یہ مبنی ہے وہ خود ہی نامکمل ہیں۔ اضافیت اور کوانٹم میکانکس کائنات کے کچھ پہلوؤں کے لیے بہت اچھی طرح سے کام کرتے ہیں، لیکن وہ بھی سب سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں ایک گہرے نظریہ کی ضرورت ہے جو دونوں کو متحد کرے، لیکن کئی دہائیوں کی کوششوں کے باوجود ہمارے پاس ایسا کوئی نظریہ نہیں ہے۔ شوشانی کا کہنا ہے کہ ’جب تک ہمارے پاس ایسا کوئی نظریہ نہیں ہے، ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔‘

البتہ اسے دیکھنے کا ایک اور طریقہ بھی ہے اور وہ یہ ہے اس مضمون کو پڑھنے میں آپ کو جتنا وقت لگا ہے اتنا آپ نے مستقبل میں زیادہ سفر کر لیا ہے۔ مستقبل میں آپ کا استقبال ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں