’ٹی وی میزبان میری چھاتی کی جانب جُھک کر بات کرتے تو میں شائستگی سے مسکراتی‘: برٹنی سپیئرز کی یادداشتیں

امریکہ کی پوپ سنگر برٹنی سپیئرز سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ ’پہلے غربت، پھر شہرت، پھر اپنے ہی خاندان کے ہاتھوں‘ بُری طرح پھنس جانے والے شخص پر کیا گزرتی ہے۔

یہی سب کچھ شامل ہے برٹنی سپیئرز کی کتاب ’دی وویمن اِن می‘ میں جو منگل کے روز مارکیٹ میں آئی ہے۔

برٹنی سپیئرز اپنی تمام زندگی تضحیک اور سوال وجواب کا شکار رہی ہیں اور ان کی یہی سب یاداشتیں اپنی تمام تر تلخیوں کے ساتھ اس کتاب میں موجود ہیں۔

ایک نوجوان لڑکی اور گلوکارہ کے طور پر صحافیوں نے بار بار ان کی ذاتی اور جنسی زندگی کے بارے میں سوالات پوچھے۔ پھر بڑے ہونے پر ’کنزرویٹر شِپ‘ کے عدالتی فیصلے کے تحت ان کی زندگی کے تمام فیصلے طویل عرصے کے لیے ان کے والد کے اختیار میں چلے گئے، جس سے برٹنی کے بنیادی انسانی حقوق تک متاثر ہو گئے۔

برٹنی اس دوران 13 برس تک اپنے دونوں بیٹوں کو بغیر اجازت نامے کے نہیں مل سکتی تھیں، اُن کا ڈرائیونگ لائسنس ضبط کر لیا گیا تھا یہاں تک کہ وہ اپنے کھانے کا انتخاب تک خود نہیں کر سکتی تھیں۔

انھیں چائے یا کافی پینے سے منع کیا گیا تھا۔ جب وہ مانع حمل انٹرا یوٹرن ڈیوائس کو ہٹانا چاہتی تھیں تو ان کی یہ درخواست بھی مسترد کر دی گئی۔

ان کے والد کے زیر نگرانی رہنے کا عدالت کا عائد کردہ حکم دو سال قبل ہٹا دیا گیا تھا جب ایک جج نے فیصلہ دیا تھا کہ برٹنی سپیئرز دوبارہ اپنے فیصلے خود کر سکتی ہیں۔

تاہم ان کی لکھی ہوئی اپنی زندگی کی یاداشت سے پتہ چلتا ہے کہ ان پابندیوں کا خاتمہ بھی خوش کن نہیں تھا۔

وہ لکھتی ہیں ’مائیگرین (آدھے سر کا درد) اس جسمانی اور جذباتی نقصان کا صرف ایک حصہ ہے جو مجھے کنزرویٹر شِپ سے نکلنے کے بعد ہوا ہے۔‘

وہ لکھتی ہیں کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ میرے خاندان کو اس حقیقت کا اندازہ بھی ہے کہ انھوں نے میرا کتنا نقصان کیا ہے۔‘

اور نیا میوزک سننے کی امید رکھنے والے اُن کے مداحوں کے لیے ان کے پاس ایک بُری خبر ہے۔

’میری موسیقی میری زندگی تھی اور وہ پابندی اس (موسیقی) کے لیے جان لیوا تھی۔ اس پابندی نے میری روح کو کچل دیا۔‘

ان تمام واقعات نے برٹنی سپیئرز کی زندگی ہر گہرے اثرت مرتب کیے۔

برٹنی سپیئرز

’ان کے الفاظ تھے اب میں برٹنی سپیئرز ہوں‘

ہ سنہ 1998 کی بات ہے جب برٹنی پاپ چارٹ پر سر فہرست آ گئیں۔ وہ سب ان کے لیے بہت سنسنی خیز تھا تاہم پریس نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ ان کی کوئی ایجنسی تھی جس کے گانے ان کے لیے لکھے گئے تھے۔ انھوں نے محسوس کیا کہ ان کا عوام میں یہ مکروہ تاثر عمر رسیدہ مردوں نے بنایا تھا۔

جتنا زیادہ برٹنی کو ایک پروڈکٹ اور میوزک انڈسٹری کا ایک پیادہ سمجھا جاتا تھا، اتنا ہی ان کی خود مختاری کو ختم کرنا آسان ہوتا گیا۔

کتاب میں موجود چند خوشگوار لمحات میں سے ایک میں برٹنی سپیئرز اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ انھوں نے بتایا کہ اب میرے ذاتی اور پیشہ ورانہ معاملات کا قانونی کنٹرول انھوں نے سنبھال لیا ہے۔

ان کے الفاظ تھے ’اب میں برٹنی سپیئرز ہوں۔ ‘

برٹنی سپیئرز کی کتاب کا ابتدائی حصہ یہ بتاتا ہے کہ لوگوں نے انھیں کتنا کم تر اور حقیر سمجھا۔

ہوسکتا ہے کہ برٹنی سپیئرز نے اس کا میوزک نہ لکھا ہو تاہم جب انھیں ’بے بی ون مور ٹائم‘ دیا گیا تو وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے رات بھر جاگتی رہیں کہ ان کی آواز میں وہ سوز اور تڑپ آئے، جس سے گانے کی پختگی میں اضافہ ہو۔

اور جب ویڈیو کی شوٹنگ کی بات آئی تو 16 سالہ برٹنی نے اصل پچ کو مسترد کر دیا، جس میں وہ مستقبل کی خلاباز تھیں بلکہ ہائی سکول کی راہداریوں میں رقص پر اصرار کیا۔

اس گانے کو کامیاب بنانے کے دونوں فیصلے اہم تھے لیکن کوئی بھی لوزیانا کے ٹریلر پارک کے سنہرے بالوں والی نوجوان لڑکی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا، جو میوزک انڈسٹری میں رائج تمام تصورات کو پیچھے چھوڑ سکتی تھی۔

وہ لکھتی ہیں ’کوئی بھی مجھے ایک ساتھ پرکشش اور قابل نہیں سمجھ سکتا۔ لوگوں کے نزدیک اگر میں پُرکشش ہوں تو ممکنہ طور پر باصلاحیت نہیں ہو سکتی۔‘

ان کی تشہیر کرنے والوں نے انھیں شیر خوار بچہ بنا کر پیش کیا۔

انھیں ایک پاکباز، خدا سے ڈرنے والی لڑکی کے طور پر پیش کیا گیا حالانکہ وہ خود لکھتی ہیں کہ 14 سال کی عمر سے وہ باقاعدہ سگریٹ نوشی کیا کرتی تھیں بلکہ جنسی تعلق میں بھی آ گئی تھیں۔ اپنی والدہ کے ساتھ سنہ 2000 میں لکھی گئی کتاب ’ہارٹ ٹو ہارٹ‘ میں وہ لکھتی ہیں۔

’میں ایک ایسی لڑکی ہرگز نہیں جس کے لیے اس میں کوئی شرم ہو کہ لوگ ساتھ مل کر’انجوائے‘ کرنے کا کہیں اور میں کہوں کہ نہیں شکریہ۔ بلکہ میں اس کے بجائے ہلا گلا کر کے رات کو بھرپور نیند لینا پسند کرتی ہوں۔ ‘

جسٹن ٹمبرلیک اور اسقاط حمل

برٹنی سپیئرز

وہ مکمل طور پر کبھی بھی اتنی بے راہ رو نہیں تھیں اور نہ ہی ان کی راتیں کبھی بھی اتنی رنگین تھیں جتنی میڈیا نے بنا دیں اور نہ انھیں کبھی بھی منشیات کی لت تھی۔ اس وقت جب دوسرے موسیقار نشے میں مدہوش رہتے تھے، تو وہ اے ڈا ایچ ڈی کی دوا لیتی تھیں۔

ان کے مطابق ’اس نے مجھے مدہوش کر دیا لیکن جو چیز مجھے کہیں زیادہ دلکش لگی وہ یہ تھی کہ اس نے مجھے چند گھنٹے کم افسردہ محسوس کروایا۔‘

بالآخر برٹنی سپیئرز کی معصومیت نے انھیں زوال کی جانب دھکیلنا شروع کر دیا۔

کتاب کے سب سے دہلانے والے اسباق میں سے ایک میں انھوں نے جسٹن ٹمبرلیک کے ساتھ اپنے تعلقات کے دوران اپنے ’ابارشن‘ یعنی اسقاط حمل سے متعلق بات کی ہے۔

اس اسقاط حمل کے لیے انھیں جو ادویات دی گئی تھیں انھوں نے انھیں اذیت میں مبتلا کر دیا۔ تاہم راز ظاہر ہونے کے ڈر سے یہ جوڑا ہسپتال جانے سے بھی خوفزدہ تھا۔

اس دوران برٹنی سپیئرز گھنٹوں تک باتھ روم کے فرش پر درد سے روتی اور چیختی رہتی تھیں۔ ’پھر بھی، وہ مجھے ہسپتال نہیں لے کر گیا اس کے بجائے ٹمبرلیک نے سوچا کہ شاید اس وقت موسیقی مجھے سہارا دینے میں مدد کرے گی، اس لیے اس نے اپنا گٹار لیا اور وہیں میرے ساتھ لیٹ گیا اور بجانے لگا۔‘

اس تمام صدمے سے گزرنے کے باوجود وہ کام پر واپس چلی گئیں۔ تاہم ٹمبرلیک نے انھیں میوزک ویڈیو کے سیٹ پر ہی ٹیکسٹ میسیج کے ذریعے ان سے علیحدگی اختیار کر لی۔

اس علیحدگی کے بعد پریس میں ان کی تذلیل کی گئی۔ اس دوران ٹمبرلیک نے اس بات پر زور دیا کہ برٹنی نے ان کے ساتھ دھوکا کیا ہے۔

ٹمبرلیک نے ابھی تک کتاب میں پیش کی گئی اپنی تصویر کشی کا جواب نہیں دیا ہے۔

جوڑے کے ’بریک اپ‘ نے برٹنی سپیئرز کی ذاتی زندگی کے بارے میں لوگوں کو خوب باتیں بنانے کا موقع فراہم کیا۔

برٹنی نے بتایا ہے کہ ان دنوں پیپل میگزین کے ایک فوٹوگرافر نے ان سے اپنا ہینڈ بیگ خالی کرنے کا مطالبہ کیا تھا، تاکہ وہ چیک کر سکیں کہ آیا اس میں منشیات یا سگریٹ موجود ہے۔

’میں برسوں سے اچھی لڑکی تھی‘

برٹنی سپیئرز
،نو عمری سے ہی برٹنی سپیئرز تنازعوں اور نہایت ہی وفادار مداحوں میں گھری رہیں

برٹنی پر بالآخر دباؤ بہت زیادہ بڑھ گیا۔ سنہ 2007 میں اپنی خالہ سینڈرا کی موت سے پریشان اور افسردہ برٹنی سپیئرز شدید ڈپریشن میں چلی گئیں۔ اسی دوران انھوں نے ہیئر سیلون کا رخ کیا اور قینچی اٹھا کر اپنے بال کاٹ دیے۔

انھوں نے لکھا ہے ’میرا سر منڈوانا دنیا کو یہ کہنے کا ایک طریقہ تھا کہ میں برسوں سے اچھی لڑکی تھی۔ جب ٹی وی شو کے میزبان میری چھاتی کی جانب جھک کر بات کرتے تھے تو میں شائستگی سے مسکراتی تھی جبکہ امریکی والدین کہتے تھے کہ میں ان کے بچوں کو کراپ ٹاپ پہن کر تباہ کر رہی ہوں تب بھی میں چپ رہتی اور میں اس سے تھک گئی ہوں۔‘

ہم سب جانتے ہیں کہ آگے کیا ہوا۔ ان کے اس عمل کو طاقت یا بغاوت کے عمل کے طور پر دیکھنے کے بجائے، برٹنی سپیئرز کے اس عمل کو عدم استحکام کے ثبوت کے طور پر استعمال کیا گیا۔

ایک سال کے اندر انھیں کنزرویٹرشپ کے تحت والد کی سرپرستی میں ڈال دیا گیا۔

’مجھے جانے دو‘

برٹنی سپیئرز ایک سیدھی سادی مصنف ہیں۔ وہ اپنی نثر کو بناوٹی طور پر نہیں سجاتیں اور یہ انداز ان گزرے برسوں کی وحشت کو اور بھی پرزور دکھاتا ہے۔

وہ ہسپتال کے سٹریچر پر لٹائے جانے اور اپنی مرضی کے خلاف دوائی لینے پر مجبور ہونے کی بات کرتی ہیں۔ انھیں رازداری میں نہانے کی اجازت نہیں ملتی۔ بوائے فرینڈز کے ساتھ ڈیٹ پر جانے سے پہلے ان کی جانچ پرتال کی جاتی اور انھیں برٹنی کے ماضی کے جنسی تعلقات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔

پہلے تو وہ اپنے والدین اور ڈاکٹروں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتی ہیں ’اگر میں جیسا کہا جائے ویسا کرتی ہوں تو یقیناً وہ دیکھیں گے کہ میں کتنی اچھی ہوں اور وہ مجھے جانے دیں گے۔‘

جب وہ بغاوت پر غور کرتی ہیں تو ان کے دو جوان بیٹوں تک رسائی کو سودے بازی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

وہ تسلیم کرتی ہیں کہ ’اپنے بچوں کے ساتھ رات گزارنے کے بدلے میری آزادی‘ ایک ایسا سودا تھا جسے کرنے کے لیے وہ تیار تھیں۔

لیکن مبینہ طور پر وہ اپنی دیکھ بھال خود نہیں کر سکتی تھیں برٹنی سپیئرز کو ٹور پر بھیچ دیا گیا تھا اور ایکس فیکٹر پر بطور جج رکھا گیا تھا۔

وہ کتاب میں بتاتی ہیں کہ کیسے دوسروں نے ان کے کام سے لاکھوں ڈالر کمائے جبکہ انھیں سختی سے ہر ہفتے صرف دو ہزار ڈالر دیے جاتے تھے۔

خود کا سارا احساس کھو کرانھوں نے تقریباً ہار مان لی۔

برٹنی سپیئرز یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں ’میرے اندر کی آگ مدھم ہونے لگی اور میری آنکھوں سے روشنی ختم ہونے لگی۔‘

ان کی زندگی میں اہم موڑ اس وقت آتا ہے جب ایک مہربان نرس ’فری برٹنی موومنٹ‘ پر ان کے مداحوں کے بحث کرنے کی فوٹیج دکھاتی ہے۔

پھر وہ ایک نئی ہمت کے ساتھ نئے وکیل کی خدمات حاصل کرتی ہیں اور مدد کے لیے 911 پر کال کرتی ہیں اور کنزرویٹرشپ کے دوران اپنے اوپر ہونے والی بدسلوکی کی اطلاع دیتی ہیں۔

برٹنی اب تقریباً دو سال سے آزاد ہیں تاہم اس دور کے اثرات کو مٹانے میں برسوں لگیں گے۔

برٹنی سپیئرز کی تحریر میں اپنے والد کے بارے میں بات کرتے ہوئے خاص طور پر غصے کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔

وہ جیمی سپیئرز کو ایک شرابی اور ایک ناکام تاجر کے طور پر بیان کرتی ہیں۔ ایک لاپرواہ اور سرد مزاج شخصیت جس نے اپنے بچوں کو بہت سختی میں دھکیل دیا اور ان کی ماں کے ساتھ بدسلوکی کی۔

(بی بی سی نے تبصرے کے لیے ان کے والد جیمی سپیئرز سے رابطہ کیا ہے لیکن ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔)

’اب میں جب چاہوں چاکلیٹ کھا سکتی ہوں۔

ان کی کتاب پڑھتے وقت ممکن ہی نہیں کہ آپ برٹنی سپیئرز کا دکھ محسوس نہ کریں۔

کتاب میں ان کی نئی زندگی کی ایک چھوٹی سی تفصیل اس بات پر زور دیتی دکھائی دیتی ہے کہ ان کی دنیا کتنی تاریک ہو گئی تھی تاہم ’اب میں جب چاہوں چاکلیٹ کھا سکتی ہوں۔ ‘

برٹنی سپیئرز کی کہانی اسی گرم جوشی کے ساتھ سنائی گئی ہے جس نے انھیں ایک سٹار بنا دیا۔ اور پچھلے 15 سالوں کے متعین واقعات سے ہٹ کر وہ اپنی تحریر میں ایک اچھا ربط بناتی ہیں۔ چاہے وہ حمل کی خواہشات کو بیان کریں یا سنہ 2001 کے ایم ٹی وی ایوارڈز میں سانپ کے ساتھ رقص کرتے ہوئے دہشت بھگانے کی کہانی سنائیں۔

اس تحریر میں ان کے خاندان کی باتوں کے علاوہ کوئی حقیقی ولن یا سکینڈل سامنے نہیں آئے اور نہ ہی برٹنی سپیئرز کی موسیقی یا اندرونی زندگی کے بارے میں کوئی بڑا انکشاف ہوا ہے۔

برٹنی کی یہ کہانی شہرت اور پیسے کے بدعنوان اثر و رسوخ کے گرد گھومتی ہے جو شاید نئی نہیں تاہم ایک ایسی عورت کے لیے امید کی کرن ہو سکتی ہے جس کی بالغ عمر کی زندگی کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہو۔

وہ لکھتی ہیں ’یہ وقت ہے کہ میں ایسی نہ بنوں جو دوسرے لوگ چاہتے ہیں۔ یہ اصل میں اپنے آپ کو تلاش کرنے کا وقت ہے.‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں