جونہی سیٹ پر آواز گونجتی لائٹس، کیمرہ، ایکشن اور منور ظریف حرکت میں آتے تو کبھی فردوس بیگم بے ساختہ قہقے لگانے لگتیں تو کبھی زمرد ہنسنا شروع کر دیتیں، جس کے بعد سین روک کر شوٹنگ دوبارہ شروع کرنا پڑتی۔
دونوں اداکارائیں فلم میں ایک دوسرے کی بھابی اور نند یعنی ہیر اور اس کی نند سیتی کا کردار کر رہی تھیں جو کہانی کے مطابق ایک دوسری کی شدید مخالف تھیں لیکن منور ظریف کی بے ساختہ اداکاری نے دونوں کو فلم کے سیٹ پر بے تکلف سہیلیاں بنا دیا تھا۔
یہ سنہ 1969 کا زمانہ تھا۔ ہدایتکار مسعود پرویز کی فلم ’ہیر رانجھا‘ کے ایک منظر کی عکس بندی کی جا رہی تھی جس میں فردوس بیگم، زمرد اور منورظریف کیمرے کے سامنے تھے۔
فردوس بیگم اس وقت کی سپرسٹار تھیں اور مذکورہ فلم کے لیے وہ ٹائٹل بھی شیئر کر رہی تھیں۔
زمرد بیگم کا شمار بھی منجھی ہوئی اداکاراؤں میں کیا جاتا تھا۔ زمرد بیگم بتاتی ہیں کہ اس دن بمشکل صرف ایک ہی سین ہوا تھا کیونکہ ہم دونوں منور ظریف کی برجستہ اداکاری کی تاب نہ لاتے ہوئے ہنس پڑتے۔
مذکورہ سین دنیائے فلم میں سکرپٹ اور کسی مزاحیہ اداکار کی طرف سے فی البدیہہ جملوں کا ایسا فیوژن ہے جس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی۔
ظریف کا انداز ‘رائٹ برادرز’ کا جہاز تھا جسے منور ظریف نے ایف سولہ بنا دیا
دراصل منور ظریف نے اپنے بھائی ظریف کے ‘سکول آف تھاٹ’ کو آگے بڑھایا تھا اور ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر ظریف کا انداز ‘رائٹ برادران’ کا جہاز تھا، تو منور ظریف نے اسے ‘ایف سولہ’ بنا دیا۔
ظریف کا شمار ان فنکاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے فلموں میں ‘جگت’ متعارف کرائی لیکن وہ صرف جگت یا جملے بازی پر اکتفا نہیں کیا کرتے تھے بلکہ کسی بھی کردار کو مکمل جزئیات کے ساتھ پیش کیا کرتے تھے اور اس کے ساتھ جگت کا استعمال کیا کرتے۔
منورظریف نے ظریف کے اسی انداز کو بام عروج بخشا تھا۔
منور ظریف نے 1960 میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور وہ 1976 میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
صرف 16 سال میں انھوں نے پردہ سیمیں پر اتنے کردار تخلیق کر دیے تھے یوں لگتا ہے وہ سولہ جنم جیے۔
منورظریف کو دنیا سے گئے لگ بھگ آدھی صدی ہونے کو ہے لیکن ان کا فن اور اس کے تمام رنگ ابھی تک تازہ محسوس ہوتے ہیں۔ مرزا اسد اللہ خان غالب کے کلام کی طرح منورظریف کی اداکاری بھی کبھی آؤٹ ڈیٹیڈ نہیں ہوئی۔
قلعہ گجر سنگھ میں ایک ہی وقت میں درجن سے زائد فنکاروں کا مسکن
لاہور کے محلے قلعہ گجر سنگھ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں ایک ہی وقت میں ایک درجن کے قریب فنکاروں نے جنم لیا، ایک ساتھ پلے بڑھے اور پڑھے لکھے اور پھر کم و بیش ایک ہی دور عصر میں انھوں نے فن اداکاری میں انمٹ نقوش چھوڑے اور دنیا میں اپنے فن کے ڈنکے بجوائے۔
ان میں ظریف، منور ظریف، رشید ظریف، منیر ظریف، مجید ظریف، علی اعجاز، رفیع خاور ننھا، خلیفہ نذیر، اکمل خان، اجمل خان، علی میاں، ہدایتکار حیدر چوہدری اور ہدایتکار عابد شجاع نمایاں تھے۔
پپو ظریف اور اکبر اس کے بعد آنے والی جنریشن کے نمائندہ فنکار تھے۔ بے شک یہ تمام فنکار اپنے فن میں یکتا تھے اور ہر ایک کے کریڈٹ میں بہترین کارکردگی کا لاجواب ریکارڈ موجود ہے۔
ظریف خاندان کا پس منظر
قلعہ گجر سنگھ کے لوگ اس گھرانے کے سربراہ حاجی عبدالحق محکمہ ریلوے میں کام کرتے تھے۔ عبدالحق صاحب کی بیگم محلے کے بچوں کو قران شریف پڑھانے کے علاوہ دینی تعلیم دیتی تھیں جس وجہ سے یہ گھرانہ محلے میں دینی گھرانہ کہلاتا تھا۔
عبدالحق صاحب کے بڑے بیٹے محمد صدیق فن اداکاری اور گائیکی کی صلاحیتوں سے مالامال تھے۔ جب انھوں نے فلم کے پردے پر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا تو فلم دیکھنے والوں نے انھیں پسند کیا اور وہ ظریف کے نام سے فلمی صنعت میں اپنا نام اور مقام بنانے میں کامیاب رہے۔
ان کی کامیڈی کے علاوہ ان کی گلوکاری کو بھی پسند کیا گیا، انھوں نے اس وقت جو گیت گائے وہ سپرہٹ ہوئے۔
ظریف اپنے وقت کے سٹار ایکٹر تھے جن کی کئی ایک فلمیں باکس آفس پر کامیاب ہوئیں ان فلموں میں پاٹے خان، ماہی منڈا، مورنی، یکے والی، چھومنتر، انارکلی، کرتار سنگھ اور دوسری فلمیں شامل رہیں۔
حاجی عبدالحق صاحب نے بھی اپنے بیٹے کے شوق اور جنون کو دیکھتے ہوئے فلمی سفر جاری رکھنے کی اجازت دے دی لیکن یہ راز ان پر بعد میں کھلا کہ ان کی پوری اولاد ہی فن کی دولت سے مالا مال ہے۔
سپرسٹار ظریف، چھوٹے بھائی منور ظریف کے فلم میں کام کرنے کے خلاف تھے
منورظریف کے بچپن کے ساتھی اور دوست علی میاں بتاتے ہیں کہ منور ظریف بھی بھائی کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے اپنے فن کا اظہار چاہتے تھے لیکن بڑے بھائی کا احترام ہمیشہ آڑے آتا اور وہ اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ دیتے۔
محمد صدیق المعروف ظریف بخوبی جانتے تھے کہ ان کے چھوٹے بھائی بھی فن کی دولت سے مالا مال ہیں لیکن وہ فلمی ماحول سے انھیں بچانا چاہتے تھے۔
وہ منور ظریف کے دوستوں علی اعجاز، خلیفہ نذیر اور رفیع خاور کو بھی سختی سے ڈانٹتے تھے کہ وہ اداکاری کا خیال دل سے نکال کر کوئی اور تعمیری کام کریں لیکن منور ظریف پر چھوٹا بھائی ہونے کے باعث پابندی خصوصی تھی۔
علی میاں بتاتے ہیں کہ منورظریف ان کے ساتھ چھپ چھپ کر فلم سٹوڈیوز جایا کرتے اور جب کبھی ظریف صاحب کو پتہ چلتا تو وہ منور ظریف کو ڈانٹتے، لیکن جب انھوں نے محسوس کیا کہ منور کو فن کے اظہار سے روکنا صحیح نہیں تو انھوں نے انھیں کیمرہ مین بننے کی اجازت دے دی اور ایک کیمرہ مین کا اسسٹنٹ بھی کروا دیا۔
فلم سٹوڈیوز میں آنے جانے کی اجازت سے منورظریف کا حوصلہ بڑھا اور یہ سلسلہ آگے بڑھتا چلا گیا۔
منور ظریف خواجہ سراؤں کے ساتھ میک اپ کرکے بدھائی لینے جاتے
ان دنوں یہ رواج تھا کہ جب بھی کسی کے گھر بچہ پیدا ہوتا یا شادی بیاہ کا سماں ہوتا یا کوئی اورخوشی آتی تو وہ گھر کے صدر دروازے پر پھولوں کی لڑیاں لٹکا دیا کرتے تھے تاکہ ناچ گا کر رزق کمانے والے اور خواجہ سراؤں کو پتہ چل جائے کہ فلاں گھر میں خوشی منائی جارہی ہے اور اس خوشی میں شرکت کر کے اپنا حصہ وصول کر سکیں۔
منورظریف نے محلے کے بچوں کی ڈیوٹی لگا رکھی تھی کہ محلے میں جس بھی گھر کے باہر سہرے لٹکتے دیکھیں انھیں آ کر بتائیں تاکہ وہ خواجہ سراؤں کے ساتھ مل کر فن کا مظاہرہ کر سکیں۔
قلعہ گجر سنگھ کے لوگ بتاتے ہیں کہ منورظریف ایسی لائیو پرفارمنسز کے لیے باقاعدہ میک اپ کرتے، زنانہ لباس زیب تن کرتے اور کچھ اس طرح سے رقص کرتے کہ خواجہ سرا اپنا سا منھ لے کر رہ جاتے۔
یہ سب منورظر یف اپنے اندر کے فنکار اور فن کے اظہار کا ایک ذریعہ خیال کرتے تھے۔
قلعہ گجرسنگھ میں واقع ہوٹل کی چھت منورظریف اور ان کے جگری دوست
ان کے بچپن کے دوست علی میاں کی ساری زندگی منور ظریف کے ساتھ گزری۔ وہ جب بھی اپنے بچپن کے دوست کو یاد کرتے ہیں تو ان کے ساتھ گزرے لمحات اور واقعات کسی فلم کی طرح ان کے ذہن کے پردے میں نمایاں ہو جاتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ‘ہم اکثر رات کو اپنے محلے قلعہ گجر سنگھ میں عبدالکریم روڈ پر رمضان کے ہوٹل کی چھت پر بیٹھا کرتے تھے اور رات گئے تک اس وقت کے مقبول انڈین اور پاکستانی گانے گاتے۔ ہمارا مرکزی گلوکار منور ظریف ہوتے جو گانا گانے کے علاوہ ڈھولک بھی بجاتے کیونکہ انھیں ڈھولک بجانا پسند تھا اور وہ اس ساز پر پوری دسترس رکھتے تھے۔ کبھی کبھار وہ طبلہ بھی لے آتے، عابد شجاع گھڑا بجاتے اور خلیفہ نذیر باجے پر ہوتے ،گائیکی کی محفل رات گئے تک جاری رہتی۔’
للی (منورظریف ) نے جب اپنے والد کو حیران کردیا
منورظریف کے والد حاجی عبدالحق نے اپنی زندگی میں انٹرویو دیتے ہوئے منور کے بارے میں ایک انتہائی دلچسپ واقعہ سُنایا۔
حاجی صاحب نے بتایا کہ ایک شام جب وہ نوکری سے واپس آئے تو انھیں گھر کے اندر سے ساز ’تم کناری‘ بجنے کی آواز آئی۔
وہ حیران ہوئے کہ میرے گھر کے اندر تم کناری کون بجا رہا ہے؟ عبدالحق جونھی گھر کے اندر داخل ہوئے تو تم کناری بجنا بند ہو گئی۔ جب حاجی صاحب نے اپنی بیوی سے دریافت کیا تو انھوں نے بتایا یہ للی (منورظریف کا نک نیم) بجا رہا تھا۔
حاجی صاحب نے کہا کہ اسے میرے سامنے بلاؤ، والدہ نے للی کو پیار سے آواز دی تو ننھا منور ظریف جس کی عمر بمشکل دس گیارہ سال تھی، وہ چارپائی کے نیچے سے برآمد ہوا۔
للی نے اپنے والد اور والدہ کے سامنے بیٹھ کر بائیں ہاتھ سے تم کناری بجائی اور وہ اس ساز کو ایسے بجا رہے تھے جیسے کوئی کسبی ہو۔
حاجی صاحب نے اپنے بیٹے کا یہ ٹیلنٹ دیکھا تو حیران رہ گئے کہ کس طرح سے وہ یہ سب کر پا رہا تھا کیونکہ اس نے اس فن کی کوئی باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی تھی۔
لڑکی کا چچا سپرسٹار ہے لہذا سونے کی نہیں ہیرے کے انگوٹھی پہنائے
ان کے خاندانی ذرائع نے ایک واقعہ سنایا کہ منور ظریف فلموں میں کامیاب ہوئے تو انھوں نے سارے گھر کی ذمہ داریاں اپنے سر لے لیں۔
ویسے بھی بڑے بھائی ظریف کی وفات کے بعد منور ظریف نے ان کے بیوی بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری کو فرض سمجھ کر نبھایا۔
ان کے خاندان کے ایک فرد نے اسی تناظر میں ایک واقعہ بیان کیا کہ ظریف مرحوم کی بیٹی فریدے کی شادی ہوئی تو منور ظریف نے اسے سونے کی انگوٹھی پہنائی جس پر لڑکی کے سسرالی رشتہ داروں نے اعتراض کیا کہ لڑکی کا چچا اتنا بڑا ایکٹر ہے اسے یتیم بھتیجی کو ہیرے کی انگوٹھی پہنانی چاہیے تھی۔
اس بات کا علم جب منور ظریف کو ہوا تو انھوں نے کہا کہ آپ لوگ میرا انتظار کریں، بارات میرے واپس آنے پر جائے گی۔
منور ظریف اسی وقت اپنے ملنے والے جیولر کے گھر گئے اور اسے ساری صورتحال سے آگاہ کیا اور اس سے ہیرے کی انگوٹھی طلب کی۔
جیولر نے رات کو دکان کھول کر منور ظریف کو ہیرے کی انگوٹھی دی۔ منور ظریف نے واپس آ کر ہیرے کی انگوٹھی فریدے کی انگلی میں پہنائی اور یوں بارات دلہن کو لے کر وہاں سے روانہ ہوئی۔
منور ظریف اور بزرگوں کااحترام
اداکار احمد مٹھو کہا کرتے تھے کہ منور ظریف کے والد ریلوے میں ان کے ساتھ کام کیا کرتے تھے اور ظریف صاحب سے بھی ان کی اچھی سلام دعا تھی۔
وہ بتایا کرتے تھے کہ منور کے دل میں اپنے بڑے بھائی ظریف کا بے حد احترام تھا۔ وہ ان کی آواز سن کر سہم جاتے تھے، یا انہیں دیکھ کر سلگایا ہوا سگریٹ بجھا دیتے تھے یا قریب کھڑے کسی دوست کو پکڑا دیتے۔
اسی طرح وہ اپنے سینئیرز کا بھی بے حد احترام کرتے اور ان کو دیکھ کر اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑے ہو جاتے اور خود جا کر ان سے سلام کرتے۔
ماسٹر عبداللہ اور منورظریف نے نورجہاں سے خوب داد سمیٹی
فلمساز چوہدری اسلم المعروف اچھا شوکر والا نہ صرف قلعہ گجر سنگھ بلکہ لاہور شہر کی مشہور شخصیت تھے۔
اچھا شکر والا چونکہ فلمساز بھی تھے اوران دنوں اپنی فلم واہ بھئی واہ کے میوزک پر کام کروا رہے تھے۔
ماسٹر عبداللہ ان کی فلم کے موسیقار تھے اور یہ ان کی بطور موسیقار پہلی فلم بھی تھی۔ اچھا شوکر والا نے میڈم نور جہاں سے کہا کہ ان کی نئی فلم کی موسیقی ایک نیا موسیقار ماسٹر عبداللہ دے گا، جس پر نور جہاں نے کہا کہ وہ نئے لوگوں کے ساتھ کام نہیں کرتیں۔
چوہدری اسلم نے کہا کہ آپ ایک بار اس کی تیار کی ہوئی دھن سن لیں، پھر اس کے بعد فیصلہ کریں کہ وہ کیسا موسیقار ہے، نور جہاں مان گئیں۔
ماسٹر عبداللہ نے ہارمونیم سنبھالا اور ان کے ساتھ ڈھولک پر منور ظریف تھے۔ ماسٹر عبدللہ نے ہارمونیم پر سر چھیڑا اور استھائی گانا شروع کی
یہ جینا کیا جینا
ٹوٹ گئی من بینا
منور ظریف نے پوری فنی مہارت سے ڈھولک پہ ماسٹر صاحب کا ساتھ دیا اور سم پر کچھ یوں پورے اترے کہ میڈم بھی داد دیے بنا نہ رہ سکیں اور جب ماسٹر صاحب نے منور ظریف کی سنگت میں اس مصرعے پر پہنچ کر آواز اٹھائی
ہائے چھوڑ گئے پیا روگ لگا کے
ہائے توڑ گئے سبھی قول وفا کے
تو میڈم نے ستائشی نگاہوں سے ماسٹر صاحب کی جانب مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہا کہ میں یہ گانا گاؤں گی۔
ساز ہو یا آواز منور ظریف پرفارمنگ آرٹ کے ہر ہر شعبے سے مس رکھتے تھے اور ماسٹر عبداللہ جیسے مشکل پسند موسیقار کے ساتھ طبلے یا ڈھولک پہ سنگت کیا کرتے تھے۔ ماسٹر عبداللہ منورظریف کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ وہ ہر فن مولا تھا۔
پہلی شوٹنگ سے گبھرانے والا بعد میں کیمروں پر حاوی ہو گیا
منورظریف کو فلمساز افتخار ملک نے 1961میں اپنی فلم ‘ڈنڈیاں’ میں متعارف کروایا۔
فلم کی کاسٹ میں اسلم پرویز، یاسمین،ظریف اور طالش شامل تھے۔ یہ فلم کامیاب نہ ہوسکی لیکن فلم انڈسٹری کو منور ظریف کی صورت میں ایک ہمہ جہت اداکار مل گیا جس نے بعد میں تین سو کے قریب فلموں میں کام کر کے فلم بینوں کو نت نئے کرداروں سے محظوظ کیا۔
اس فلم کے پہلے سین کے لیے جب منور ظریف کو کیمرے کے سامنے کھڑا کیا گیا تو عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ منورظریف بار بار ری ٹیک کرا رہے تھے۔
جب کئی بار ری ٹیک کرانے کے بعد بھی یہ شاٹ او کے نہ ہوا تو منور ظریف نے لوکیشن سے نکلنا چاہا لیکن انھیں ایسا نہ کرنے دیا گیا۔
وقفے کے بعد منورظریف نے یہ شاٹ اوکے کرا دیا لیکن یہ پہلا اور آخری موقع تھا جب انھیں ری ٹیکس کروانی پڑی۔ تھا اس کے بعد منورظریف تھا، نگارخانے تھے اور وہ کیمروں پر حاوی تھا۔
کامیابیوں کے نت نئے ریکارڈز
منورظریف ایسے باصلاحیت فنکار تھے جنھوں نے اپنی دوسری فلم سے ہی اپنی جگہ بنا لی تھی۔
ڈنڈیاں کے بعد ہتھ جوڑی، ملنگی،بھریا میلہ، امام دین گواویا، باؤجی اور اس کے علاوہ دیا اور طوفان 60 کی دہائی کی قابل ذکر فلمیں رہیں۔
فلم ‘ملنگی’ میں منور ظریف نے اپنے ساتھی اداکار زلفی کے ساتھ مل کر ایک نئی اختراع ڈالی جس میں انھوں نے ساری فلم میں نثر میں ڈائیلاگ بولنے کی بجائے شاعری اورردیف قافیہ کا خیال رکھتے ہوئے مکالمے بول کر فلم بینوں کو محظوظ کرنے کیساتھ خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا تھا۔
70 میں ‘ہیر رانجھا’ نمائش کے لیے پیش ہوئی جس میں ہیر کا کردار فردوس اور رانجھا کے کردار میں اعجاز بہت موزوں دکھائی دیے لیکن دونوں کے ساتھ ساتھ سیدے کھیڑے کے کردار میں منورظریف نے بھی خوب داد سمیٹی۔
مذکورہ فلم میں منورظریف نے کئی ایک یاد گار مناظر کرکے اپنے لیے گڈ ول کمائی۔ سنہ 70 میں ان کی دو فلمیں ریلیز ہوئیں، ایک ‘رنگیلا’ اور دوسری فلم ‘دل اور دنیا’ دونوں میں انھیں پسند کیا گیا۔ فلم ‘عشق دیوانہ’ میں انھیں نگار سپیشل ایوارڈ دیا گیا۔
منورظریف کو بیک وقت پنجابی اور اردو فلموں میں پسند کیا جارہا تھا۔ اردو فلم ‘بہارو پھول برساؤ’ میں وحید مراد اور رانی بیگم کی جوڑی کے ساتھ منورظریف کو کامیڈین کے طور پر بہت سراہا گیا۔
مذکورہ فلم کے لیے منورظریف کو بہترین کامیڈین کا نگار ایوارڈ دیا گیا۔ بعدازاں ضدی، پردے میں رہنے دو، اج دا مہینوال، بنارسی ٹھگ، خوشیا، رنگیلا اور منورظریف، جیر ابلیڈ، منجھی کتھے ڈانواں اور نوکر ووہٹی دا نمایاں فلمیں رہیں۔
نوکر ووہٹی دا میں منور ظریف کے ساتھ آسیہ اور ممتاز تھیں جبکہ اداکار شاہد نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔
اس فلم کی انڈیا میں راج کوہلی نے ہوبہو نقل بنائی۔ انڈین فلم ‘نوکر بیوی کا’ میں رینا رائے اور انیتا راج کے ساتھ راج ببر کو کاسٹ کیا تھا۔
بعد میں راج کوہلی نے تسلیم کیا کہ انھوں نے مذکورہ فلم کا سکرپٹ تو ہو بہو استعمال کیا لیکن سکرین پر وہ کرشمہ پیدا نہ کر سکے جو منورظریف کے دم قدم سے تھا۔ اسی قسم کے خیالات کا اظہار راج ببر نے تب کیا تھا جب وہ پہلی بار لاہور آئے تھے۔
منورظریف اوررنگیلا کے ناموں پر فلموں کے ٹائٹلز دنیائے فلم کا منفرد ریکارڈ
منور ظریف اور رنگیلا پاکستانی فلموں میں سب سے زیادہ پسند کیے جانے والے مزاحیہ اداکار تھے۔
ان کے کریئر کے آغاز کا زمانہ بھی ایک ہی تھا، ان دونوں نے پنجابی فلموں میں ہیرو کے دوست یا ولن کے چمچے کے طور پر کئی کردارادا کیے۔
اس وقت کے فلم بین جب سینما ہال سے باہر نکلتے توان کے لبوں پر ان مزاحیہ اداکاروں کے دلچسپ فقرے ہوا کرتے تھے۔
فلم بین جہاں فلم کی کہانی سے محظوظ ہوتے وہیں انھیں اصل کہانی کے ساتھ چلنے والے کامیڈی ٹریک کا بھی مزہ لیتے تھے۔
جوں جوں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا رہا ان کی مانگ بڑھتی رہی اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب یہ دونوں فلموں کے سولو ہیرو بن گئے۔
منورظریف اور رنگیلا کی جوڑی وقت کی مقبول ترین جوڑی ثابت ہوئی۔ فلم سازوں نے ان کے ذاتی ناموں پرفلمیں بنائیں، جن میں رنگیلا اور منورظریف کے علاوہ کچھ اور فلمیں بھی شامل ہیں۔
’فیصل کو ممبئی لاؤ، اس کے لیے وہی کروں گا جو بوبی اور سنی دیول کے لیے کیا‘
منورظریف ایک ٹرینڈ میکر فنکار تھے، ان کے ساتھی فنکار ان کے سٹائل کی نقل کرتے تھے۔ لوگ ان کے لباس کو کاپی کرتے حتی کہ ان کے ہم عصر فنکار بھی ان کی نقل کرتے۔
ان کی موت کے بعد ان کو کاپی کرنے کا رواج زور پکڑ گیا۔ ملک کے اندر ان کے فن سے متاثر فنکاروں کی تعداد نصف درجن کے قریب تھی جن میں علی اعجاز،البیلا، عمر شریف اور کچھ دیگر فنکار شامل ہیں۔
منور ظریف کی بڑی بیٹی عائشہ منور ظریف بتاتی ہیں کہ ‘بالی وڈ اداکار دھرمیندر سے ہماری ملاقات لندن میں ہوئی تھی انھیں جب پتہ چلاکہ میں منور ظریف کی بیٹی ہوں تو انھوں نے مجھے بڑا پیار اور احترام دیا۔ دھرمیندر سے جب میں نے اپنے چھوٹے بھائی فیصل منور ظریف سے تعارف کروایا تو انھوں نے کہا کہ آپ اسے بالی وڈ میں لائیں تو میں اس کے لیے وہی کچھ کروں گا جو میں نے ایک باپ کی حیثیت سے بوبی دیول یا سنی دیول کے لیے کیا تھا۔’
عائشہ نے کہا کہ ‘دھرمیندر انکل نے ہمیں بڑی عزت دی لیکن بعض وجوہات کی بنا پر فیصل منور ظریف ممبئی نہ جا سکا۔ وہ بھی میرے والد کی طرح چھوٹی عمر میں اللہ کو پیارا ہو گیا۔’
اس کے علاوہ دھرمیندر نے منور ظریف کی بیٹی فائزہ منور ظریف سے لندن میں ملاقات کے دوران کہا تھا کہ ‘آپ کے پاپا منور ظریف بہت بڑے فنکار تھے۔ مجھ جیسا ایکٹر تو ان کی نقالی بھی نہ کرسکا۔’
اس شام منور ظریف اپنی بیوی بلقیس بیگم کا گاڑی میں بیٹھا کر کہاں لے گئے؟
منور ظریف کی بیوہ بلقیس منور ظریف نے اپنے مرحوم شوہر کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا کہ 45 برس ہو گئے انھیں ہم سے جدا ہوئے۔
’ایک احساس تو یہ ہے کہ ان کے بغیر ساری زندگی گذر گئی ہے اور دوسری طرف یوں بھی لگتا ہے کہ وہ گئے نہیں ہیں ہمارے ساتھ ہی ہیں۔‘
بلقیس بیگم کہتی ہیں ‘للی بہت ہی ذمہ دارشوہر اور شفیق باپ تھے۔ 1974 میں وہ ایک شام مجھے گاڑی میں بیٹھا کر گلبرگ حسین چوک کے پاس لے آئے اور انھوں نے مجھے دکھایا کہ یہ دو دو کنال یعنی چار کنال زمین ہے جو میں نے تمہارے اور بچوں کیلیے خریدی ہے۔ اس وقت وہاں آس پاس کچھ نہیں تھا سوائے بے ترتیب کھیتوں کے علاوہ۔’
اس جگہ کی ویرانی پر فکر دیکھ کر منور ظریف نے کہا تھا ‘دیکھنا یہ جگہ لاہور کی جان بن جائے گی ۔۔تم اور تمہارے بچے مجھے دعائیں دو گے۔’
بلقیس بیگم کہتی ہیں ’آج 45 سال ہو گئے ہیں، منورکی خریدی ہوئی پراپرٹی نے ہمیں زندگی میں معاشی فکر سے آزاد کر دیا تھا۔’