سٹینڈ اپ گرل: ’گانے، ڈانس اور گنڈاسہ نہیں لیکن پنجابی جُگت ضرور ہے جسے ناظرین سراہ رہے ہیں‘

پُتر حُسن دا کوئی کمال نئیں، کم دا کمال اے۔ فوکس اپنا اُوتھے رکھ، جِتھے ضرورت اے۔ جِتھے لوڑ اے۔‘ (بیٹا حُسن کا کوئی کمال نہیں ہے، کام کا کمال ہے، توجہ وہاں دو جہاں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔)

یہ نصیحت ڈائریکٹر کاشف نثار نے ’سٹینڈ اپ گرل‘ میں اپنی اداکاری کے جوہر دِکھانے والی اداکارہ زارا نور عباس کو کی تھی۔

’گرین انٹرٹینمنٹ‘ نامی چینل سے نشر کیا جانے والا ڈرامہ سیریل ’سٹینڈ اپ گرل‘ اپنی سادہ مگر اچھوتی کہانی کی وجہ سے ناظرین میں بے حد مقبول ہو رہا ہے۔ یہ ڈرامہ ایک سٹینڈ اپ کامیڈین اور ایک ہپ ہاپ آرٹسٹ کی جدوجہد پر مبنی ہے لیکن اس میں ہر کردار کی کہانی دلچسپ ہے۔

’سٹینڈ اپ گرل‘ کی کاسٹ میں اداکارہ زارا نورعباس کے ساتھ سہیل احمد، دانیال ظفر، صبا فیصل، عدنان شاہ ٹیپو، فرح طفیل، مائرہ خان، تمکنت منصور اور سعد اظہر شامل ہیں۔

’آج کل کے سٹینڈ اپ کامیڈین تھوڑا ہٹ کر بات کرتے ہیں‘

بی بی سی اُردو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں اداکارہ زارا نور عباس نے کہا کہ اُنھیں پنجابی جُگت ہی زیادہ سمجھ میں آتی تھی کیونکہ وہ اُن کے سکرپٹ سے کافی قریب تھی۔

اُن کے ساتھی اداکار دانیال ظفر نے انھیں مختلف سٹینڈ اپ کامیڈی شوز دیکھنے کا مشورہ دیا لیکن زارا کے خیال میں ’آج کل کے سٹینڈ اپ کامیڈینز آؤٹ آف دی باکس (عمومیت سے ہٹ کر) بات کرتے ہیں، وہ اُن موضوعات کے بارے میں بات کرتے ہیں جنھیں ہمارے ملک میں معیوب سمجھا جاتا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ’جب میں اپنے سکرپٹ میں کسی بھی قسم کی عورت یا زنانہ چیز کے بارے میں بات ہی نہیں کر سکتی ہوں، اور دوسری جانب میں یوٹیوب پر شوز دیکھتی ہوں کہ وہ لوگ کس طرح سے جینڈر (صنف) اورایل جی بی ٹی کے بارے میں بات کر رہے ہیں کیونکہ یوٹیوب پر تو آپ کو ہر قسم کا مواد ملتا ہے، تو میں اُس سے مطابقت نہیں بنا پاتی تھی۔‘

زارا کے بقول اُن کی توجہ سہیل احمد، عدنان شاہ ٹیپو اور ثاقب سمیر پر ہوتی تھی کہ کیمرہ بند ہونے کے بعد یہ تینوں کیا کرتے ہیں۔

’سہیل صاحب جگتیں لگاتے تھے۔ میں نوٹس کرتی تھی کہ یہ لوگ کہاں کی بات کہاں جوڑتے ہیں۔ یہ دیکھنا کافی دلچسپ تھا۔‘

Sohail

’بیٹا تیرا منہ ٹوبہ ٹیگ سنگھ جیسا کیوں ہے؟‘

جب ہم نے زارا سے پوچھا کہ کیا انھیں ڈرامے کے سیٹ پر کی گئی کوئی ’جُگت‘ (چٹکلا) یاد ہے تو وہ جھٹ بولیں ’تمکنت (منصور) کہتی تھیں کہ یہ کیا یبھ ڈالی ہوئی ہے سب نے! یا سہیل صاحب کہتے تھے کہ ’بیٹا تیرا منہ ٹوبہ ٹیک سنگھ جیسا کیوں لگ رہا ہے؟‘

عدنان شاہ ٹیپو اس ڈرامہ میں ایک تھیٹر آرٹسٹ کا رول نبھا رہے ہیں۔ اُن کے ایک سین کے بارے میں زارا ہنستے ہوئے بتانے لگیں کہ ’لاہور دا پاوا ختر لاوا‘ والی لائن سکرپٹ میں نہیں تھی، مگر ٹیپو بھائی نے ایک دم سے کہا کہ ’لاہور دا پاوا حنا لاوا‘۔ یہ سُن کر ہم سب کہہ رہے تھے کہ یہ کہاں سے آئی اور آپ نے یہ لائن کیسے سوچی۔‘

’ٹیپو اور ثاقب بھائی اس طرح کی بہت حرکتیں کرتے تھے۔ سیٹ پر ہر دن ایک نیا دن ہوتا تھا اور یہ سب سیکھنے کے لیے بہت ہی زبردست تجربہ تھا۔‘

زارا کے بقول انھیں راجو کا کردار بہت دلچسپ لگتا ہے جو اداکار ثاقب سمیر نے نبھایا ہے۔ وہ ہنستے ہوئے بتانے لگیں کہ ’کیونکہ راجو اس گھر میں بالکل ایک ایکسٹرا کریکٹر ہے۔ راجو بس ایک شاگرد ہے، ایک ممبر ہے اور اس کو چھت والا کمرہ دیا ہوا ہے۔‘

’اُس میں بھی وہ آگے نیچے دیکھ رہا ہوتا ہے کہ گھر میں کیا ہو رہا ہے اور آج پلاؤ بننا ہے اور پھر گوشت بننا ہے۔ اور اگر اس میں مرچ زیادہ ہو جائے تو وہ اس پر آوازیں نکال کر تبصرہ کرتا ہے۔ یہ بات اتنی مزاحیہ ہے کہ بھئی تمھارا کام کیا ہے پوری سکرپٹ میں، لیکن تم ہی تم ہو۔‘

زارا نے بتایا کہ سہیل احمد کے ساتھ ایک سین میں وہ اپنے ڈائیلاگ بھول گئی تھیں اور اُنھیں لگا کہ اُن کا کریئر ختم ہو گیا مگر اسی دوران سہیل احمد ہی آگے بڑھے اور اُنھیں بتایا کہ ڈائیلاگ کیسے بولنے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ دوسری قسط نشر ہونے کے بعد سہیل احمد نے اُنھیں فون کیا اور کہا کہ ’تم نے بہت اچھا کام کیا ہے‘ اور اُن کی یہ بات سُن کے وہ جذباتی ہو گئیں اور آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ سہیل احمد کے علاوہ اداکار نورالحسن، عدنان شاہ ٹیپو نے بھی اُنھیں کالز کیں اور اداکارہ نادیہ جمیل نے تعریفی میسجز کیے۔

’میں حیران تھی کیونکہ یہ بہت بڑے لوگ ہیں۔ ٹیلی وژن پر ریٹنگ کے بجائے میرے لیے ان لوگوں کی طرف سے تعریف ہونا بہت معنی رکھتا ہے۔ ریٹنگ والا ڈرامہ عوام دیکھ رہے ہوتے ہیں جو بہت اچھی بات ہے، لیکن اصل جو آرٹ اور روح کا تعلق ہے وہ اس طرح کے کام سے آتا ہے۔‘

Green Entertainment

’پنجابی جُگت کے اوپر کبھی اتنا کام ہوا نہیں‘

ڈرامہ سیریل ’سٹینڈ اپ گرل‘ کا اچھوتی بات ہی پنجابی مزاح اور اس سے جڑے لوگوں کی کہانی ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ شاید یہ مزاح صرف پنجابیوں کو ہی سمجھ آ سکے گا۔ لیکن زارا نور عباس ان تحفظات کو رد کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ہماری کوئی مخصوص ’آڈیئنس‘ نہیں ہے۔ ان کے بقول ’ڈرامہ پنجابی میں ہے اور پنجابی سب کو سمجھ میں آتی ہے، ہماری مقامی زبانوں میں میرے خیال میں اُردو کے بعد سب سے زیادہ پنجابی ہی بولی جاتی ہے۔‘

اُن کے خیال میں اس ڈرامے کی مقبولیت کی وجہ اِس کہانی کا نیا پن ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ نیا بھی ہے نا، پنجابی جگت کے اوپر کبھی اتنا کام ہوا نہیں، پنجابی آرٹسٹس کے ساتھ اُن کے رہن سہن کے بارے میں اتنی کبھی بات ہوئی نہیں ہے۔‘

وہ اسے لاہور کی لالی وڈ انڈسٹری کا تسلسل سمجھتی ہیں جس میں پنجابی گانے اور ڈانس، گنڈاسہ اور صائمہ اور شان نہیں ہیں لیکن پنجابی جُگت ضرور ہے جسے ناظرین سراہ رہے ہیں۔

وہ اپنی گفتگو میں گاہے بگاہے اپنے ڈائریکٹر کاشف نثار کے کام کو سراہتی رہیں۔ چاہے وہ ریہرسلز ہوں، ایک دن میں کیے جانے والے مخصوص تعداد کے سین ہوں، ساؤنڈ سے کھیلنا ہو، سیٹ کا مخصوص انداز ہو یا منفرد اداکاروں کا چناؤ۔

وہ بتاتی ہیں کہ اُنھیں اور دانیال ظفر کو اپنی آن سکرین جوڑی پر بھی تحفظات تھے کہ وہ جدید دور کے نہیں لگتے۔

زارا نے کہا کہ ’میں ہمیشہ کہتی تھی کہ کاشف صاحب میں اور دانیال تو بالکل اچھے نہیں لگنے والے ساتھ میں۔ دانیال بھی کہتا تھا ہم پتا نہیں کیسے لگیں گے۔ لیکن پھر ہم نے جب دیکھا تو ہم نے کہا کہ یہ بُرا نہیں ہے۔ شاید ہمیں کوئی کیمپین مل ہی جائے، ہم پیارے لگ رہے ہیں۔‘

Green Entertainment

’پورا ڈرامہ ایک طرف ہے اور اماں کے ساتھ سین ایک طرف‘

زارا نور عباس کی والدہ اسما عباس ایک مقبول اداکارہ ہیں۔ انھوں نے کینسر کو شکست دی ہے اور زارا نور اپنے مختلف انٹرویوز میں اُن کی بیماری کے دور کو اپنی زندگی کا ’تاریک ترین‘ لمحہ قرار دیتی رہی ہیں۔ ڈرامہ سیریل ’سٹینڈ اپ گرل‘ کی پہلی قسط میں دونوں ماں بیٹیوں نے زندگی کے اس دور سے قریب کے مناظر شوٹ کروائے۔

واضح رہے کہ ڈرامہ میں اسما عباس نے زارا کی والدہ کا ہی کردار نبھایا ہے، جس میں وہ کینسر میں مبتلا ہو کے مر جاتی ہیں۔

انھی مناظر کے بارے میں زارا نور عباس بتاتی ہیں کہ ’یہ بہت مشکل تھا۔ ڈرامے میں ہم دونوں رو رہے تھے وہ ہم اصل میں رو رہے تھے، میری اماں بہت حساس خاتون ہیں۔‘

زارا نے بتایا کہ جب وہ مناظر فلم بند ہوئے تو کاسٹ کے سب ہی لوگ موجود تھے اور کھڑے ہو کر دیکھ رہے تھے۔

’جب اُن (اسما عباس) کا ’سولو‘ ہو رہا تھا تو سب کہہ رہے تھے کہ تُسی کی کردے او، اے نا کریا کرو ( آپ کیا کرتی ہیں! یہ نہ کیا کریں)۔ ایکٹنگ کرنے کو کہا ہے ہم نے آپ کو یہ نہ کیا کریں۔ پھر جب ہم نے وہ قسط ریویو کی تو مجھے کاشف، دانیال سمیت سب نے کہا کہ پورا ڈرامہ ایک طرف ہے، اور جو آپ کی اماں کے ساتھ سین ہیں وہ ایک طرف ہیں۔‘

Daniyal Zafar

’ہم سب ایسے ہی تو بات کرتے ہیں‘

زارا نے بتایا کہ ’سٹینڈ اپ کامیڈی‘ پر اپنے گھر والوں کی طرف سے انھیں بہت اچھا ردعمل ملا۔ اپنی خالہ اور اداکارہ بشریٰ انصاری کا ذکر کرتے ہوئے وہ بولیں کہ ’وہ پاکستان کی کامیڈی کوئین ہیں، لیکن انھوں نے مجھے فون کر کے اور وائس نوٹس بھیج کر کے کہا کہ مجھے تم پر بہت فخر ہے۔‘

’انھوں نے مجھے کہا کہ ایک سین تھا وِکی والا، وہ سین آپ نے بہت اچھا کیا، آپ کے تاثرات بہت نپے تلے تھے۔ یہ احساس کہ اُنھیں (بشریٰ) لگا کہ میں یہ سب کر سکتی ہوں، یہ میرے لیے بہت بڑی بات تھی۔‘

اپنی والدہ اور اداکارہ اسما عباس کے بارے میں زارا کا کہنا تھا کہ وہ اُن کی مداح ہیں۔ ’میری اماں جب میرے سنجیدہ سین پر تعریف کرتی ہیں تو مجھے (تعریف) محسوس ہوتی ہے، کامیڈی سین پر مجھے ہوتا ہے کہ اماں، ہم سب ایسے ہی تو بات کرتے ہیں۔‘

انھیں اپنے بڑے بھائی کا بھی ایک روز صبح چھ بجے پیغام آیا کہ ’میں آپ کا ڈرامہ دیکھ رہا ہوں اور میں سو نہیں سکا ہوں، میں نے لگاتار چار قسطیں دیکھ لی ہیں، آپ نے کتنا اچھا کام کیا ہے یار۔‘

ان کے شوہر اور اداکار اسد صدیقی نے صرف اتنا کہا کہ ’مجھے لگ رہا ہے کہ تمھارا یہ ڈرامہ اچھا جائے گا۔ اسد کا یہی بہت ہوتا ہے تو مجھے سمجھ آ جاتا ہے کہ اچھا اس کو پسند آ رہا ہے جو کام میں کر رہی ہوں۔‘

مداحوں کی پسندیدگی کی بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ ’آڈیئنس بہت اچھی ہے، بہت پیار کر رہے ہیں، مجھے پکڑ پکڑ کے کہہ رہے ہیں کہ ہم آپ کا سٹینڈ اپ گرل دیکھ رہے ہیں۔ مجھے اتنا اندازہ نہیں تھا کہ لوگ سٹینڈ اپ گرل کو اتنا زیادہ دیکھیں گے کیونکہ وہ ایک نئے چینل پر آ رہا ہے، لیکن ماشااللہ وہ اچھا چل رہا ہے۔‘

’مجھے اب اپنی فکر کرنی چاہیے‘

زارا نور عباس بی بی سی کے ساتھ گفتگو میں اپنے وزن کی وجہ سے لوگوں کی منفی باتوں یا باڈی شیمنگ اور اس کے کسی کی بھی شخصیت پر پڑنے والے اثرات پر کُھل کر بات کر چکی ہیں۔

زارا نور عباس اپنی پہلی زچگی میں اپنا بچہ کھونے کی وجہ ایک صدمہ سے گزر چکی ہیں۔ اِن دنوں وہ ایک بار پھر حاملہ ہیں جس کا اعلان انھوں نے سوشل میڈیا پر کیا۔ حال ہی میں انھوں نے اپنی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کیں اور کافی لوگوں نے اس پر منفی تبصرے کیے۔

ماضی میں باڈی شیمنگ پر کھل کر بات کرنے والی زارا نورعباس ایسے تبصروں پر کہتی ہیں کہ ’یہ جھوٹ ہو گا اگر میں آپ کو کہوں کہ مجھے فرق نہیں پڑتا۔

انھوں نے کہا کہ ’مجھے تھوڑی دیر کے لیے عجیب لگا پھر اُس کے بعد مجھے لگا کہ میں اپنی ذاتی زندگی میں اتنا خوش ہوں کہ اگر میں یہ فون کنارے رکھ دوں گی تو مجھے فرق بھی نہیں پڑے گا کہ کس نے کیا کہا ہے۔ یہ اتنا خوبصورت احساس ہے کہ میں بس یہی سوچتی ہوں کہ اللہ مجھ پر بہت مہربان ہے، اللہ نظرِ بد سے بچائے۔‘

وہ کہتی ہیں وہ سوشل میڈیا کو زیادہ سنیجدہ نہیں لیتی ہیں۔

’میں ایک ورکنگ مدر ہوں گی، اُس بات پر پتا نہیں میرے پر کیا کیا الزام لگیں کہ بچہ کو ٹائم نہیں دیتی، بچے گھر پر چھوڑ دیتی ہے، یہ لوگ تو آیاؤں کے ساتھ ہی بچوں کو رکھتے ہوں گے۔ تو شاید مجھے اپنی فکر کرنی چاہیے، اپنی خوشی کی فکر کرنی چاہیے، جو دل کرے وہ میں شیئر کر دوں، جو نہ دل کرے وہ نہ شیئر کروں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں