پاکستان نہ برازیل ہے اور نہ ہی مصر: وسعت اللہ خان کا کالم

برازیل کے  صدر لولا ڈی سلوا نے منتخب ہونے کے دو ہفتے بعد فوج کے سربراہ اور کئی سینیئر افسروں کو برطرف کر دیا۔ کیونکہ سابق صدر بولسنارو کے حامیوں نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ نئے صدر کے حلف اٹھانے کے ایک ہفتے بعد پارلیمنٹ، صدارتی محل اور سپریم کورٹ کی عمارت پر دھاوا بول دیا۔

صدر لولا کا کہنا ہے کہ ان مظاہرین کو جان بوجھ کر کنٹرول نہیں کیا گیا اور بعض سینیئر فوجی افسر درپردہ مظاہرین کو اُکسا رہے تھے یا ان کی حمایت کر رہے تھے۔

برطرف سپاہ سالار کو سابق صدر بولسنارو نے اپنے اقتدار کے آخری ہفتے میں مقرر کیا تھا اور وہ محض اکیس روز ہی اپنے عہدے پر ٹک پائے۔

برازیل رقبے اور آبادی کے اعتبار سے جنوبی امریکہ کا سب سے بڑا ملک اور دس بڑی صنعتی طاقتوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس وسیع و عریض مملکت پر امریکی حمایت سے فوج نے اکتیس برس (انیس سو چونسٹھ تا پچاسی) براہ راست حکومت کی۔ لگاتار چھ فوجی جرنیل صدارتی کرسی پر بیٹھے۔ اقتدار پر فوج کی گرفت تب ڈھیلی ہوئی جب اقتصادی حالت پتلی ہو گئی، افراطِ زر بے قابو ہو گیا اور ملک پر بھاری قرضہ چڑھ گیا۔

گذشتہ اڑتیس برس سے برازیل میں صدارتی جمہوریت نافذ ہے اور فوج کا تاریخی اثر و نفوز بھی سویلین اقتدار کے تسلسل کے سبب کمزور ہو گیا ہے۔ مگر اب بھی فوج کا جھکاؤ دائیں بازو کی سوچ کی طرف ہے اور صدر لولا ڈی سلوا کے مزدو یونین رہنما کے پس منظر کے سبب انھیں روایتی قدامت پسند طبقات مسلسل شک سے دیکھتے ہیں۔

لولا ڈی سلوا تیسری بار صدر بنے ہیں۔ اس سے قبل وہ دو ہزار تین سے دو ہزار دس تک برسراقتدار رہے۔ بعد ازاں انھیں کرپشن کے الزامات میں سزا ہوئی۔ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دیا گیا۔ مگر پھر ان پر عائد الزامات واپس لے لیے گئے۔

ترکی میں جولائی دو ہزار سولہ میں منتخب صدر رجب طیب اردوغان کے خلاف ناکام فوجی بغاوت اونٹ کی کمر پر آخری تنکہ ثابت ہوئی اور انیس سو پینتیس سے فوج نے ازخود ترک سیکولر جمہوریہ کے نظریاتی محافظ ہونے کا جو ٹھیکہ اٹھا رکھا تھا وہ انجام کو پہنچا۔

ترک فوج نے انیس سو ساٹھ سے انیس سو اٹھانوے کے درمیان چار بار اقتدار پر قبضہ کیا۔ دو بار مارشل لا لگایا، ایک منتخب وزیرِ اعظم عدنان ممندریس کو معزولی کے بعد پھانسی دی گئی اور دو وزرائے اعظم کو زبردستی چلتا کرکے ٹیکنوکریٹس اور حاشیہ بردار جماعتوں کی مدد سے ملک کا نظام چلانے کی کوشش کی گئی۔ مگر کردوں کی شورش دبانے میں ناکامی اور اقتصادی کساد بازاری نے نظریاتی محافظت کے عسکری نظریے کو زک پہنچائی اور عوام میں فوج کی مقبولیت میں بھی کمی آتی چلی گئی۔

رجب طیب اردوغان پچھلے بیس برس سے برسراقتدار ہیں اور اس دوران انھوں نے شہری و دیہی نیم متوسط طبقات تک تعلیم، صحت اور گورنننس کی سہولتیں پہنچا کے ایک موثر متبادل سویلین ڈھانچے کا نیم آمرانہ مثالیہ قائم کر لیا ہے۔

چنانچہ جولائی دو ہزار سولہ میں جب فضائیہ اور بری فوج  کے چند مہم جو افسروں نے قسمت آزمائی کی تو فوج کا رہا سہا غیر رسمی اثر و رسوخ بھی جاتا رہا۔ فوج کی تینوں شاخوں کی زبردست تطہیر ہوئی اور اب بظاہر یہ ادارہ موثر سویلین کنٹرول میں ہے۔

سری لنکا میں اگرچہ  فوج نے کبھی براہ راست اقتدار نہیں سنبھالا لیکن انیس سو چوراسی سے دو ہزار نو کے دوران جاری سنہالہ تامل خانہ جنگی کے دوران فوج کا ریاستی امور میں اثر و نفوز خاصا بڑھ گیا۔

گذشتہ اڑتیس برس سے برازیل میں صدارتی جمہوریت نافذ ہے اور فوج کا تاریخی اثر و نفوز بھی سویلین اقتدار کے تسلسل کے سبب کمزور ہو گیا ہے

البتہ خانہ جنگی کے آخری برسوں میں ملک راجہ پکسا خاندان کی منتخب آمریت کے چنگل میں چلا گیا۔ ملک کی اقتصادی حالت پتلی تر ہوتی چلی گئی۔

چنانچہ نئے وزیرِ اعظم رانیل وکرما سنگھے نے تمام طبقات سے مدد اور قربانی مانگی اور اس بنیاد پر فوج کی تعداد اور دفاعی بجٹ میں بھی کمی کا فیصلہ ہوا کہ تامل بغاوت کے کچلے جانے کے بعد اب سری لنکا کو ساڑھے تین لاکھ فوج کے بجائے ڈیڑھ لاکھ فوج ہی کافی ہے۔ اور دو ہزار تیس تک اس کی تعداد کم کر کے ایک لاکھ  تک کر دی جائے گی۔

فی زمانہ فوج کی طاقت افرادی قوت سے نہیں بلکہ اس کی تربیت اور اسلحے کے معیار سے ناپی جاتی ہے۔ مثلاً برطانوی بری فوج سوا لاکھ جوانوں اور افسروں پر مشتمل ہے۔

سری لنکا کی سرکار کا نصف تنخواہی بل حاضر و ریٹائرڈ فوجیوں کی مد پر خرچ ہو جاتا ہے۔ جبکہ قومی پیداوار اس وقت صفر ہے، معیشت گذشتہ ایک برس میں نو فیصد تک سکڑ چکی ہے۔ ڈالر نایاب ہے اور ملک آئی ایم ایف کی ہدائیت کاری کے تحت چل رہا ہے۔

بنگلہ دیش میں انیس سو نوے میں جنرل حسین محمد ارشاد کی سبکدوشی کے بعد سے فوج نے کسی سویلین حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش نہیں کی ۔جنرل ارشاد نے ریٹائرمنٹ کے بعد پارلیمانی سیاست میں حصہ لیا۔

دو ہزار سات میں ایک انٹرویو میں جنرل ارشاد نے کہا کہ اب فوجی انقلاب آؤٹ آف فیشن ہو گیا ہے۔ بنگلہ دیش اقوامِ متحدہ کے عالمی امن مشنز کے لیے سب سے زیادہ فوجی فراہم کرتا ہے۔

اس زریعے سے فوج خوشحال ہوئی ہے۔ ملک میں عمومی اقتصادی اشاریے اوپر جا رہے ہیں۔ ایسے میں کسی بھی طرح کی عسکری مہم جوئی کی نہ صرف عوام میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پذیرائی مشکل ہو گی۔

انڈونیشیا میں اگرچہ فوج جنرل سہارتو کی ہم رکابی میں انیس سو پینسٹھ سے انیس سو اٹھانوے تک پینتیس برس اقتدار پر قابض رہی۔ مگر اس دور میں ابتدائی اقتصادی استحکام کے بعد معاشی ترقی کے ثمرات سہارتو خاندان یا اس کے حاشییہ نشینوں تک محدود ہو گئے اور فوج کو بھی ان ثمرات کا حصہ بنا لیا گیا۔

سہارتو ٹولے کی اقتدار پر گرفت ڈھیلی ہونے میں بھی اقتصادی معاملات ہاتھ سے نکل جانے کا بنیادی ہاتھ تھا۔ پچھلے چوبیس برس میں فوج کا کردار خاصی حد تک بدلا ہے اور سابق فوجیوں نے خود کو سویلین ڈھانچے میں رہنے کا عادی بنا لیا ہے۔ لیکن فوج آج بھی ملکی اقتصادیات میں ایک اہم سرمایہ کار ہے۔

مصر اور پاکستان میں فوج نے خود کو ایک متبادل اقتصادی قوت کے طور پر  مضبوطی کے ساتھ گاڑا ہوا ہے۔ دونوں ممالک میں سیاسی طبقے کا ایک حصہ فوجی حاشیہ نشینی کا مرہونِ منت ہے۔ مصر میں جنرل عبدالفتح السیسی کی سویلین بھیس میں فوجی آمریت کی آہنی گرفت خلیجی ڈالرز اور امریکی و اسرائیلی و یورپی آشیر واد کے سبب بظاہر  مستحکم ہے۔

البتہ پاکستان کو مصر جیسی سہولت فی الحال میسر نہیں۔ اس کے ایسے اتحادی بھی نہیں رہے جو آنکھ بند کر کے اعتبار کر سکیں اور اپنے سٹرٹیجک مفادات کلی طور پر اس سے وابستہ کر سکیں۔

اگر پاکستان کے اقتصادی حالات مسلسل گراوٹ کا شکار رہے تو پھر نہ موجودہ نیم سویلین فوجیانہ تجربہ زیادہ عرصہ چل پائے گا اور نہ ہی کسی روایتی براہ راست فوجی حکومت کے لیے اندرونی و بیرونی فضا سازگار ہے۔

بلکہ ریاست کے مختلف ستونوں کے درمیان موجود عظیم غلط فہمیوں کا نتیجہ کسی اور شکل میں ہی برآمد ہو سکتا ہے ۔جس کا ادراک فی الحال ہم میں سے کسی کو بھی نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں