کیا پاسدارانِ انقلاب کو دہشت گرد قرار دیا جا سکتا ہے؟

برطانیہ اور یورپی یونین جلد ہی پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیم قرار دے سکتے ہیں۔ پاسداران انقلاب ایک ریاستی فوجی، سیاسی اور اقتصادی قوت ہے جو ایران میں وہاں کی اسلامی حکومت کو درپیش خطرات کا مقابلہ اور بیرون ملک اس کی طاقت کا مظاہرہ کرتی ہے۔

پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیم کیوں قرار دیا جا سکتا ہے؟

برطانیہ کے وزیر خارجہ جیمز کلیورلی نے کہا ہے کہ وہ ایرانی حکومت کے سابق وزیر علی رضا اکبری کی سزائے موت کے بعد اس اقدام پرغور کر رہے ہیں۔ علی رضا اکبری برطانیہ میں مقیم  تھے اور برطانوی شہریت کے حامل تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ علی رضا اکبری کو ’لالچ‘ دے کر ایران واپس لے جایا گیا، جہاں انھیں ’حکومت کے بدنام اور من مانے قانونی عمل کا نشانہ بنایا گیا‘۔

 اکبری کو برطانیہ کے لیے جاسوسی کرنے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ وزیر خارجہ جیمز کلیورلی نے اس الزام کی تردید کی اور کہا کہ ایرانی انٹیلی جنس ایجنٹوں نے اعتراف جرم حاصل کرنے کے لیے انھیں تشدد کا نشانہ بنایا۔

رطانوی انٹیلی جنس سروسز کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے ایرانی ہم منصبوں نے گذشتہ ایک سال کے دوران برطانیہ میں ایرانی صحافیوں سمیت 10 دیگر افراد کو نشانہ بنایا۔

جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک اور یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیر لیئن دونوں نے یورپی یونین پر زور دیا ہے کہ وہ پاسداران انقلاب کو بھی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرے۔

انھوں نے 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ایران میں شروع ہونے والے حالیہ مظاہروں کو دبانے میں پاسداران انقلاب کے کردار کا حوالہ دیا۔ جب ان کی موت ہوئی تو وہ ملک کی گشت ارشاد (اخلاقی پولیس) کی تحویل میں تھیں۔

یورپی پارلیمنٹ نے پاسداران انقلاب کو دہشت گرد گروپ قرار دینے کے حق میں ایک قرارداد منظور کی ہے لیکن یورپی یونین کے رکن ممالک کو اس اقدام کی منظوری دینے کی ضرورت ہوگی۔

امریکہ نے 2019 میں پاسداران انقلاب کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا تھا کیونکہ وہ طویل عرصے سے  حزب اللہ جیسے مسلح گروہوں کی حمایت کرتا رہا ہے۔

پاسداران انقلاب اسلامی کیا ہے؟

پاسداران انقلاب اسلامی کا قیام  1979 میں ایرانی انقلاب کے بعد نئے اسلامی نظام کے دفاع کے لیے عمل میں آیا تھا۔ یہ بنیادی طور پر ایک متبادل فوجی قوت کے طور پر ایران کی باقاعدہ فوج کے طور پر کام کرتا تھا۔

 لندن میں چیتھم ہاؤس کے بین الاقوامی امور کے تھنک ٹینک سے وابستہ ڈاکٹر صنم وکل کہتی ہیں کہ ’یہ ایک ملیشیا بریگیڈ ہوا کرتی تھی لیکن اب یہ ایک بہت بڑی تنظیم بن چکی ہے۔‘

پاسداران انقلاب اسلامی کی اپنی زمینی، بحری اور فضائی افواج ہیں جن میں مجموعی طور پر ایک لاکھ 90 ہزار اہلکار ہیں۔ پاسداران انقلاب ایران کے بلیسٹک میزائل اور ایٹمی پروگراموں کی بھی نگرانی کرتا ہے۔

پاسداران انقلاب اسلامی نے دفاع، انجنیئرنگ اور تعمیرات جیسے شعبوں میں کمپنیوں کی مالک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑی کاروباری سلطنت قائم کر رکھی ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ ایران کی معیشت کا ایک تہائی حصہ اس کے کنٹرول میں ہے۔

پاسداران انقلاب ایران میں کیا کیا کرتا ہے

پاسداران انقلاب اپنے نیم فوجی وِنگ بسیج مزاحمتی فورس کے ذریعے ایران میں داخلی سلامتی کا ذمہ دار ہے۔

یہ گذشتہ چار ماہ سے حکومت مخالف مظاہروں کو کچلنے میں سب سے آگے رہا ہے۔ امریکہ میں قائم ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ نیوز ایجنسی کا کہنا ہے کہ کم از کم 522 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کی پروفیسر مریم علیم زادہ کہتی ہیں کہ ’بسیج نے بے لگام تشدد اور مار پیٹ کے بہت سے واقعات کا ارتکاب کیا ہے۔ ’اس سے حکومت کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے، کیوں کہ تشدد نے مزید مظاہروں کو جنم دیا ہے۔‘  

پاسداران انقلاب بیرون ملک کیا کرتا ہے؟

پاسداران انقلاب کی سب سے مشہور غیر ملکی شاخ قدس فورس ہے۔ یہ ادارہ مشرق وسطیٰ میں مسلح گروہوں بشمول لبنان میں قائم حزب اللہ، عراق میں شیعہ ملیشیا اور شامی حکومت کی وفادار فورسز کو ہتھیار، رقم اور تربیت فراہم کرتا ہے۔

 روفیسر علیم زادہ کہتے ہیں کہ قدس فورس ان جگہوں پر دوست افواج کو مضبوط کرتی ہے جہاں طاقت کے توازن کو ایران کے حق میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر وکیل کہتے ہیں کہ’ایرانی حکومت امریکہ کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتی ہے اور دوسرے ممالک میں اس پر حملے کرنے والے گروہوں کی سرپرستی کرتی ہے۔ امریکہ نے قدس فورس اور اس کی پشت پناہی کرنے والے گروہوں پر عراق اور مشرق وسطیٰ کے دیگر علاقوں میں سینکڑوں امریکی فوجی اہلکاروں کو ہلاک کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

اگر پاسداران انقلاب کو دہشت گرد گروپ قرار دے دیا جائے تو اس کا کیا مطلب ہوگا؟

پاسداران انقلاب کو دہشت گرد گروہ قرار دینا اس تنظیم سے تعلق رکھنا یا اس کی حمایت کرنا جرم بن جائے گا۔ اس کے اثاثے ان ممالک میں منجمد کیے جائیں گے جہاں یہ فہرست میں شامل ہے اور وہاں کے کسی بھی شہری یا کاروبار کو اسے رقم دینے کی اجازت نہیں ہوگی۔

 ڈاکٹر وکل کے مطابق ’اس پر توجہ مرکوز کرنے سے ایران کو نقصان پہنچے گا کیونکہ اندرونی اور بیرونی طور پر حکومت کی کارروائیوں میں اس کا اتنا وسیع کردار ہے۔ یہ ایرانی ریاست کا ایک بڑا حصہ ہے، لہذا یہ ایک اچھا ہدف ہے‘۔

لیکن انھوں نے متنبہ کیا کہ ایران جوابی کارروائی کرتے ہوئے برطانیہ اور یورپی یونین کے ممالک کی مسلح افواج کو دہشت گرد گروہ قرار دے سکتا ہے، جس سے وہ مشرق وسطیٰ میں ہدف بن سکتے ہیں۔

تاہم پروفیسر علیم زادہ کو شک ہے کہ اس اقدام سے پاسداران انقلاب کی کارروائیوں کو زیادہ نقصان پہنچے گا۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘اس سے کوئی عملی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ایران کے خلاف پہلے ہی بہت سی پابندیاں عائد ہیں۔ یہ صرف علامتی ہوگا۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں