جہاں آرا: پشاور میں ’محفوظ اور جدید‘ سرائے تعمیر کروانے والی بااثر مغل شہزادی

جہاں آرا ایک خوبصورت اور ذہین شہزادی تھیں جنھیں متعدد تاریخ دان ’مغلیہ دور کی سب سے بااثر شہزادی‘ اور ’دنیا کی امیر ترین شہزادی‘ جیسے القابات کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔

تاریخ کے حوالوں میں اُن کی امارت اور مغلیہ دور میں اُن کے اثر و رسوخ کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے مگر موجودہ پاکستان کے شہر پشاور میں شہزادی جہاں آرا کی آمد اور یہاں تاجروں کی سہولت کے لیے اپنے وقت کی جدید سرائے تعمیر کروانے کا تذکرہ کچھ زیادہ نہیں ملتا۔

مغلیہ دور میں پشاور تجارت کا ایک بڑا مرکز تھا۔ دہلی سے وسط ایشیا تک تجارت پشاور کے راستے ہوتی تھی۔ مختلف ممالک سے آنے والے تاجروں کے قافلے یہاں پڑاؤ کرتے، کاروباری معاملات طے پاتے اور تاجر اور ان کے مال برداری کے جانور تازہ دم ہو کر یہاں سے اگلی منزل کی جانب گامزن ہو جاتے۔

مگر جہاں آرا کی آمد سے قبل پشاور میں تاجروں کے لیے سہولیات نہیں تھیں۔ جہاں آرا سنہ 1638 میں پشاور پہنچیں اور اپنے دورے کے دوران انھوں نے یہاں ایک بڑا اعلان کیا۔

سرائے جہاں آرا بیگم

جہاں آرا نے یہاں لوگوں کی مشکلات دیکھیں اور خاص طور پر تاجروں کی رہائش کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے انھوں نے یہاں ایک جدید سرائے کی تعمیر کا اعلان کیا۔ اس سرائے پر کام 1638 میں شروع ہوا جس کی تکمیل 1641 میں ہوئی۔ اس عمارت کو تاریخی کتب میں ’کاروان سرائے‘، ’سرائے جہاں بیگم‘ اور ’سرائے دو در‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

خیبر پختونخوا میں محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر عبدالصمد خان نے بتایا کہ جہاں آرا بیگم نے پشاور شہر کے ایک اہم مقام پر یہ سرائے تعمیر کروائی جو کہ انتہائی محفوظ تھی کیونکہ یہ فصیل شہر کے اندر قائم کی گئی تھی۔

اس میں صرف رہائشی کمرے نہیں تھے بلکہ یہاں تاجروں کو ہر قسم کی سہولیات فراہم کی گئی تھیں۔

یہ سرائے شہر کے وسط میں سب سے اونچے مقام ’گور گٹھری‘ میں قائم کی گئی جہاں ہر کمرے کے آگے چھوٹا برآمدہ اور کمروں کے ساتھ بڑا ہال تعمیر کیا گیا۔ ہال میں بیٹھ کر تاجر اپنے سودے طے کرتے تھے۔ اس کے علاوہ قافلوں میں موجود مال بردار جانوروں کے لیے علیحدہ جگہ مختص تھی، پانی کے انتظام کے لیے ایک کنواں تھا اور اس کے ساتھ ایک خوبصورت مسجد۔

گور گٹھڑی کے انچارج نور خان نے بی بی سی کو بتایا کہ اس سرائے میں یوں تو بہت کمرے تھے لیکن ان میں سے 140 ایسے تھے جو استعمال کے قابل تھے۔ انھوں نے بتایا کہ پشاور میں اُس دور میں  یوں تو کل آٹھ  سرائے تھیں جن میں تاجر  اور دیگر علاقوں سے آنے والے افراد ٹھہرتے تھے لیکن ان میں سہولیات کا معیار وہ نہیں تھا جو جہاں آرا کی جانب سے تعمیر کروائی جانے والی سرائے میں تھا۔

جہاں آرا کون تھیں؟

مغلیہ دور کی اہم خواتین میں جہاں آرا بیگم کو اہم مقام حاصل رہا ہے۔ وہ شہاب الدین محمد خرم جنھیں بعد میں شاہجہان کے نام سے جانا گیا، کی بڑی بیٹی تھیں۔

ان کی والدہ کا نام ارجمند بانو بیگم تھا جو ’ممتاز محل‘ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ جہاں آرا شاہجہان کی بڑی اور ’لاڈلی‘بیٹی تھیں۔ انھیں ’بادشاہ بیگم‘اور ’فاطمہ زمان بیگم‘ جیسے القابات سے بھی نوازا گیا۔

معروف تاریخ دان اور ماہر آثار قدیمہ علی جان نے بی بی سی کو بتایا کہ یوں تو جہاں آرا بیگم کے پشاور یا اس سے آگے کے دورے کا زیادہ ذکر کہیں سامنے نہیں آیا لیکن  مغلیہ دور میں پشاور تجارتی لحاظ سے ایک اہم شہر تھا اور جہاں آرا اس دور کی بااثر شخصیت تھیں۔

تاہم تاریخی کتب میں اکثر جہاں آرا بیگم کے بارے میں ذکر آیا ہے کہ وہ رفاحی کاموں پر زیادہ توجہ دیتی تھیں۔ انھوں نے دہلی میں بھی بڑے پیمانے پر رفاہی کام کیے مساجد قائم کیں اور ان کے لیے وسائل کا انتطام بھی کیا تھا، اُن کے لیے وقف قائم کیا اور اس کے لیے فنڈ مسجد کے ساتھ واقعہ بازار میں دوکانوں سے حاصل کیا جاتا جس سے امام مسجد، موذن ، خطیب اور دیگر خدام کے لیے تنخواہ اور مسجد کے مرمت اور دیگر کاموں پر صرف کیا جاتا تھا۔

شہزادی جو تجارت بھی کرتی تھیں

جہاں آرا کو اپنی والدہ ممتاز محل اور والد شاہجہاں کی طرف سے جائیداد میں بڑا حصہ دیا گیا جن میں نقد رقوم کے علاوہ باغات سے ہونے والی آمدن بھی شامل تھی۔

والد اور والدہ کی جائیداد میں اپنے بہن بھائیوں میں سے سب سے زیادہ حصہ انھیں ملا تھا۔ والدہ کی وفات کے بعد جہاں آرا نے اپنے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کی لیکن بعد میں اقتدار کی جنگ میں بھائیوں میں اختلاف پیدا ہوئے۔ تاریخی حوالوں کے مطابق جہاں آرا بڑے بھائی دارا شکوہ کے حق میں تھی جبکہ اورنگزیب طاقت کے زور پر اقتدار پر قابض ہوگئے تھے اور اس معاملے پر کئی جنگیں بھی لڑی گئیں۔

گور گٹھڑی کیا ہے؟

اندرون پشاور، شہر کے سب سے اونچے مقام پر قائم ہے۔ علی جان کے مطابق اس لفظ کا مطلب ’جنگجوؤں کی قبر‘ ہے۔

اس مقام کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہی جتنی قدیم پشاور کی تاریخ ہے۔ یہ شہر قبل مسیح سے آباد تھا اور کچھ ماہرین کے مطابق پشاور میں سات ہزار سال قبل کی تہذیب کے آثار مل چکے ہیں۔

گور گٹھری کے بارے میں علی جان نے بتایا کہ یہاں بدھ مت کے آثار بھی ملے ہیں اور تاریحی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بدھا کا ’خیرات کا کشکول‘ بھی نصب تھا۔

بدھ مت کے علاوہ یہاں قدیم ہندو تہذیب کے آثار بھی ملے ہیں۔ یہاں مختلف تہذیبوں کے لوگ آباد رہے اور مغل دور میں اس جگہ پر حکمرانوں کی توجہ رہی۔

علی جان نے بتایا مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے اپنی سوانح عمری ’بابر نامہ‘ میں لکھا ہے کہ 17 نومبر 1525 کو میں نے یہ سوچ کر اپنا قافلہ بڑھایا کہ ہندوستان کو فتح کیا جائے۔

علی جان کے مطابق پشاور پہنچنے پر بابر نے بھی گور گٹھری کا دورہ کیا۔

انھوں نے لکھا ’دنیا میں کہیں بھی عبادت گزاروں کی اتنی تاریک اور تنگ چلہ گاہیں نہیں ہوں گی جو یہاں (گور گٹھری) پائی جاتی ہیں۔ دروازے سے داخل ہونے کے بعد جب سیڑھیوں سے ایک یا دو قدم نیچے اترتے ہیں تو آپ کو پہلے جھک کر پھر رینگ کر آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ یہاں آپ بغیر کسی روشنی کے اندر نہیں جا سکتے۔ اس کے علاوہ وہاں زیارت کے لیے آنے والے یا عبادت کرنے والے افراد بکثرت دیکھے جا سکتے ہیں جن میں سر اور داڑھیوں کے بال لمبے ہوتے ہیں۔‘

تاریخی روایت یہ بھی ہے کہ ’گورکھ ناتھ‘ نامی ایک ہندو حکیم اس مقام پر بیٹھتے تھے جن کے پاس علاج کی غرض سے دور دور سے لوگ آتے تھے۔ یہاں ایک مندر بھی گورکھ ناتھ کے نام سے قائم تھا اور بعض مقامی روایتوں کے مطابق گور گٹھڑی کا نام حکیم گورکھ ناتھ کی وجہ سے پڑا۔

گور گٹھڑی میں داخلے کے دو بڑے گیٹ ہیں۔ عبدالصمد نے بتایا کہ ان دو دروازوں کی وجہ سے جہاں آرا کی سرائے کو ’سرائے دو در‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس علاقے میں جب رنجیت سنگھ کا دور آیا تو انھوں نے شہر کے تمام انتظامات چلانے کے لیے بھی اسی جگہ کا انتخاب کیا اور یہاں تمام میونسپل دفاتر قائم کیے گئے۔ اس کے علاوہ شہر کا ناظم بھی اُسی جگہ بیٹھتا تھا، یہ گیٹ بہت اونچا ہے اور گیٹ کے اوپر کمرے تھے جہاں رہائش اختیار کی جاتی۔ گیٹ کے دونوں پلرز کے ساتھ عارضی جیل بھی تھی جبکہ اِسی جگہ پر پھانسی گھاٹ بھی قائم تھا۔

سرائے کے کمرے اس جگہ انتہائی نمایاں ہیں، ایک ترتیب سے چاروں اطراف پھیلے یہ کمرے ایک خوبصورت نظارہ پیش کرتے ہیں۔ درمیان میں مندر ہے جہاں بڑے درخت ہیں اور باغ بھی۔

برطانوی دور میں یہاں تحصیل میونسپل کمیٹی کے دفاتر اور فائر بریگیڈ کے مرکز قائم کیے گئے۔ فائر بریگیڈ کی گاڑیاں آج بھی وہاں موجود ہیں۔

سنہ 2000 کے بعد یہاں ٹورازم کے فروغ اور آثار قدیمہ کے تحفط کے لیے ایک دس سالہ منصوبہ شروع کیا گیا تھا جس میں ان عمارتوں اور دیگر آثار قدیمہ کو محفوظ کرنا تھا۔ سرائے کے ان کمروں کو دکانوں میں تبدیل کیا گیا اور یہاں روایتی دستکاری اور کلچرل اشیا کے ہنر مندوں کو مدعو کیا گیا۔

اس کے علاوہ یہاں آثار قدیمہ کے کچھ مقامات پر کھدائی کی گئی جہاں سے مختلف تاریخی اشیا بھی ملیں جنھیں گور گٹھڑی ہی میں واقع ایک چھوٹے عجائب گھر میں رکھا گیا ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ وہ ہنر مند ان دوکانوں سے چلے گئے ہیں اور اب ایک مرتبہ پھر یہ کمرے یا دوکانیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ یہ کمرے ایک مرتبہ پھر کھنڈرات کی شکل پیش کرنے لگے ہیں اس کے لیے ان عمارتوں کو محفوظ کرنے کے لیے مسلسل کوششیں کرنا ہوں گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں