پاکستان میں ہیٹ ویو کی پیش گوئی: شدید گرمی ہمارے جسم پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے اور کیا یہ جان لیوا بھی ہو سکتی ہے؟

پاکستان کے مختلف علاقوں میں ان دنوں شدید گرمی پڑ رہی ہے اور اس کی شدت میں رواں ہفتے مزید اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق فضا میں ہائی پریشر کی موجودگی کی وجہ سے ملک کے بیشتر علاقوں بالخصوص پنجاب اور سندھ میں 21 مئی سے گرمی کی لہر کی صورتحال بننے کا امکان ہے جو کے ہفتے کے آخر تک موجود رہے گی۔

محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ 23 سے 27 مئی کے دوران پنجاب اور سندھ میں شدید گرمی کی لہر کا امکان ہے جس کے دوران دن میں درجہ حرارت معمول سے 4 سے 8 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہنے کا امکان ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق اسلام آباد، خیبرپختونخوا، کشمیر، گلگت بلتستان اور بلوچستان میں 21 سے 27 مئی کے دوران دن کا درجہ حرارت معمول سے 4 سے 6 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہنے کا امکان ہے۔

اسی وجہ سے محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ عوام گرمی سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں جبکہ گرمی کی اس لہر کے ممکنہ اثرات اور احتیاطی تدابیر کے بارے میں محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ انتہائی خشک موسم اور گرمی کی لہر پنجاب ،خیبر پختونخوا اور شمال مشرقی بلوچستان کے متاثر ہونے والے علاقوں میں جھاڑیوں اور جنگلات میں آگ لگنے کا سبب بن سکتی ہے۔

محکمہ موسمیات نے تمام متعلقہ اداروں کو گرمی کی لہر کے دوران الرٹ رہنے اور کسی ناخشگوار واقعہ سے بچنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔

محکمہ موسمیات کے الرٹ کے مطابق ’درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے آنے والے دنوں میں بجلی اور پانی کی طلب میں اضافے کا سامنا ہو گا‘ جبکہ عوام کو گرمی سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور دن کے وقت بلا ضرورت باہر نکلنے سے گریز کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔

گرمی کی شدت

شدید گرمی کے ہمارے جسم پر کیا اثرات ہوتے ہیں؟

جیسے جیسے جسم کا درجہ حرارت گرم ہوتا ہے خون کی نالیاں کھلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس سے فشارِ خون میں کمی واقع ہوتی ہے اور دل کو جسم میں خون پہنچانے کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔

اس کے باعث جسم پر جلن پیدا کرنے والے نشانات بھی بن سکتے ہیں اور آپ کے پیروں میں سوزش بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پسینہ بہنے کی وجہ سے جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی واقع ہونے کی وجہ سے جسم میں ان کا توازن بدل جاتا ہے۔

گرمی کی شدت

ان علامات کے ساتھ کم فشارِ خون کی وجہ سے لو بھی لگ سکتی ہے جس کی علامات یہ ہیں:

  • سر چکرانا
  • بے ہوش ہونا
  • الجھن کا شکار ہونا
  • متلی آنا
  • پٹھوں میں کھچاؤ محسوس کرنا
  • سر میں درد ہونا
  • شدید پسینہ آنا
  • تھکاوٹ محسوس کرنا

اگر فشارِ خون بہت زیادہ حد تک گر جائے تو دل کا دورہ پڑنے کے امکانات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

گرمی کی شدت

چاہے ہم برفانی طوفان میں ہوں یا گرمی کی لہر میں، ہمارا جسم 37.5 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ وہ درجہ حرارت ہے جس پر ہمارے جسم نے کام کرنا سیکھ لیا ہے۔

لیکن جیسے جیسے پارہ بڑھتا ہے، جسم کو اپنا بنیادی درجہ حرارت کم رکھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ ان حالات میں ہمارا جسم جلد کے قریب واقع شریانوں کو کھول دیتا ہے تاکہ ہمیں پسینہ آئے اور جسم کا درجہ حرارت کم ہو جائے۔

پسینہ خشک ہو کر جلد سے خارج ہونے والی گرمی کو ڈرامائی حد تک بڑھا دیتا ہے۔ سننے میں یہ عمل سادہ لگ رہا ہے لیکن یہ جسم پر کافی دباؤ ڈالتا ہے یعنی جتنا زیادہ درجہ حرارت بڑھتا ہے اتنا ہی جسم پر دباؤ بڑھتا ہے۔

یہ کھلی شریانیں بلڈ پریشر گھٹا دیتی ہیں اور ہمارے دل کو جسم میں خون پہنچانے کے لیے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ کھلی شریانوں کے رسنے کی وجہ سے پاؤں میں سوجن اور گرمی دانوں پر خارش جیسی علامات پیدا ہو سکتی ہیں۔

لیکن اگر بلڈ پریشر کافی کم ہو جائے تو جسم کے ان اعضا کو کم خون پہنچے گا جنھیں اس کی بہت ضرورت ہے اور دل کے دورے کا خدشہ بڑھ جائے گا۔

لو سے متاثرہ شخص کو ٹھنڈی جگہ منتقل کریں

اگر جسم کا درجہ حرارت آدھے گھنٹے میں کم ہو جائے تو پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔

برطانوی ادارہ نیشنل ہیلتھ سروس تجویز کرتا ہے کہ:

• لو سے متاثرہ شخص کو ٹھنڈی جگہ منتقل کریں

• اسے لٹائیں اور اُس کے پاؤں کو ہلکا سا اوپر کریں

• اسے زیادہ مقدار میں پانی پلائیں، یا ری ہائڈریشن ڈرنکس یا مشروبات بھی دیے جا سکتے ہیں

• متاثرہ شخص کی جلد کو ٹھنڈا کریں، ٹھنڈے پانی کی مدد سے اس پر سپرے کریں اور پنکھے کی ہوا لگنے دیں۔ بغل اور گردن کے پاس آئس پیک یا برف بھی رکھی جا سکتی ہے

تاہم اگر متاثرہ شخص 30 منٹ کے اندر اندر بہتر محسوس نہ کرے تو اس کا مطلب ہے ان کو ہیٹ سٹروک ہو گیا ہے۔ یہ ایک ہنگامی صورتحال ہے اور آپ کو فوراً طبّی عملے کو فون کرنا چاہیے۔

ہیٹ سٹروک کا شکار ہونے والے افراد کو گرمی لگنے کے باوجود پسینہ آنا بند ہو سکتا ہے۔

متاثرہ شخص کے جسم کا درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہونے کے بعد وہ بے ہوش ہو سکتا ہے یا دورے پڑ سکتے ہیں۔

بچوں اور بزرگوں سمیت کس کو زیادہ خطرہ ہے؟

صحت مند افراد عام سمجھ بوجھ استعمال کر کے گرمی کی لہر میں خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں لیکن کچھ لوگوں کو لو لگنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ زیادہ عمر کے لوگ یا دل کی بیماری جیسے امراض کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے گرمی کی وجہ سے جسم پر پڑنے والے دباؤ سے نمٹنا مشکل ہو سکتا ہے۔

ذیابطیس 1 اور 2 کی وجہ سے جسم تیزی سے پانی کی کمی کا شکار ہوتا ہے اور بیماری کی وجہ سے شریانیں اور پسینہ پیدا کرنے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔

یہ بات بھی اہم کردار ادا کرتی ہے کہ آپ کو سمجھ ہو کہ آپ کے جسم کا درجہ حرارت بہت بڑھ چکا ہے اور یہ کہ اس بارے میں آپ کو کچھ کرنا چاہیے۔ ہم اس بات کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیتے لیکن بچوں اور ذہنی امراض کے شکار افراد گرمی کی لہر کا زیادہ آسان شکار ہو سکتے ہیں۔

بے گھر افراد کو سورج کی تپش زیادہ محسوس ہو گی اور فلیٹ میں سب سے اوپر رہنے والے لوگوں کو بھی زیادہ درجہ حرارت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ہیٹ ویو کے دوران کچھ ادویات کا استعمال نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے؟

جی ہاں! تاہم لوگوں کو معمول کے مطابق اپنی ادویات لینے کی ضرورت ہے اور اپنے جسم کے درجہ حرارت کو کم سے کم رکھنے کی کوشش کریں اور زیادہ سے زیادہ پانی پیئں۔

ڈیوریٹکس جنھیں ’واٹر پلز‘ بھی کہا جاتا ہے، جسم سے پانی کے اخراج میں اضافہ کرتی ہیں۔ انھیں دل کے عارضے میں مبتلا افراد استعمال کرتے ہیں۔ زیادہ درجہ حرارت میں ان ادویات کے باعث جسم میں پانی کی کمی اور منرلز کا توازن خراب ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔

اینٹی ہائپرٹینسو ادویات جو فشار خون میں کمی کا باعث بنتی ہیں وہ ان خون کی نالیوں کو جوڑ دیتی ہیں جو گرمی سے مقابلہ کرنے کے لیے پھول جاتی ہیں اور فشار خون میں خطرناک حد تک کمی کی وجہ بنتی ہیں۔

مرگی اور پارکنسنز جیسی بیماریوں کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کے باعث پسینہ آنا بند ہو جاتا ہے جو جسم کو ٹھنڈا کرنے میں رکاوٹ بنتا ہے۔

یہ ادویات جسم میں لتھیئم اور سٹیٹنز بھی شامل ہوتا ہے یہ خون میں اپنی مقدار میں اضافہ کرتے ہوئے ایک مسئلہ بن سکتے ہیں۔

گرمی کے اثرات

کیا گرمی سے آپ کی موت واقع ہو سکتی ہے؟

جی ہاں۔ صرف انگلینڈ میں ہر سال دو ہزار افراد زیادہ درجہ حرارت کے باعث ہلاک ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر دل کا دورہ پڑنے اور سٹروکس کے باعث ہلاک ہوتے ہیں کیونکہ جسم اپنے درجہ حرارت کو نارمل رکھنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔

زیادہ اموات اس وقت واقع ہوتی ہیں جب درجہ حرارت 25-26 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کرتا ہے۔ تاہم اس حوالے سے سامنے آنے والے شواہد سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر اموات بہار یا موسمِ گرما کے آغاز میں ہوتی ہیں نہ کہ موسم گرما کے عروج پر۔

اس کی ایک وجہ تو یہ بھی ہے کہ ہم گرمیوں کی آمد پر اپنے روز مرہ کے رویوں میں تبدیلی لانا شروع کر دیتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ہم گرمی برداشت کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔

گذشتہ ہیٹ ویوز کے اعداد و شمار کے مطابق اموات میں اضافہ بہت جلدی ہوتا ہے، یعنی ہیٹ ویز کے آغاز کے پہلے 24 گھنٹوں میں ہی۔

جسم کو ٹھنڈا کیسے رکھا جائے؟

اس بات کو یقینی بنائیں کے آپ زیادہ سے زیادہ پانی یا دودھ پی رہے ہیں۔ چائے اور کافی پینے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ تاہم زیادہ مقدار میں شراب پینے سے اجتناب کریں کیونکہ اس سے جسم میں پانی کی اچانک کمی کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

اگر آپ کے گھر کے باہر گرمی گھر کے اندر گرمی سے زیادہ ہے تو یہ بہتر ہو گا کہ آپ اپنے گھر کی کھڑکیاں بند رکھیں اور پردے بند رکھیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں