پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر لانگ مارچ اور مظفر آباد دھرنا کے موقع پرحکومت نے مظاہرین کو روکنے کے لیے مظفر آباد کے داخلے اور خارجی راستے بند کرنے کے علاوہ تمام اضلاع کے بھی داخلی اور خارجی راستوں کو بند کردیا ہے۔
کشمیر کے کئی علاقوں میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم کی اطلاعات ہیں۔
یہ کمیٹی بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور مہنگے داموں آٹے کی فروخت کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔
کشمیر کے داالحکومت مظفر آباد، ڈھوڈیال، کوٹلی اور دیگر علاقوں میں گذشتہ دو روز سے نظام زندگی معطل، شیلٹر او رپہیہ جام ہڑتال جاری ہے۔
مظاہرین کی قیادت نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے پورے کشمیر میں کئی لوگوں کو گرفتار کرلیا ہے مگر اس کے باوجود عوام بڑی تعداد میں باہر نکل چکے ہیں اور اپنے مطالبات کے حق تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
کشمیر حکومت کے ترجمان اور ممبر اسمبلی عبدالماجد خان نے مظاہرین کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ راستے بند نہیں ہیں اس وقت کشمیر اور پاکستان کے داخلی اور خارجی راستے کھلے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ پر امن احتجاج ہر کسی کا حق ہے مگر امن و امان تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ گذشتہ رات مظفر آباد میں گرڈ سٹیشن پر کچھ شر پسندوں نے حملہ کرکے قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی جبکہ ڈھڈیال میں پولیس اور اسٹنٹ کمشنر پر حملہ ہوا تھا جس کے بعد پولیس نے امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے کارروائی کی تھی۔
اس وقت کوٹلی سے موصولہ اطلاعات کے مطابق عوام کوٹلی کے مرکزی چوک میں اکھٹے ہیں اور وہ میرپور سے آنے والے قافلوں کا انتظار کررہے ہیں، جس کے بعد یہ قافلے مظفر آباد کی جانب روانہ ہوگئے۔
میرپور کی کوٹلی طرف روانہ ہونے والے قافلے کے ایک رہنما سعد انصاری کا کہنا تھا کہ میرپور کے داخلی اور خارجی راستے انتظامیہ اور پولیس نے بند کردیے ہیں مگر یہ بات ہمیں خوفزدہ نہیں کرسکتی ہے اور نہ روک سکتی ہے، ہم نکل پڑے ہیں اور ہمارے پاس بھاری مشنیری بھی موجود ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم راستوں کو کھولتے ہوئے کوٹلی اور پھر مظفر آباد پہنچیں گے۔ کوٹلی سے خاتون رہنما شبیلہ قاسم کا کہنا تھا کہ ہم میدان میں نکل چکے ہیں۔ اس حکومت نے گیارہ مئی سے پہلے ہی گرفتاریاں شروع کردیں تھیں۔ میرے گھر پر میرے خاوند کو گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مارے گئے تھے، بچوں کو ہراساں کیا گیا مگر ہم ڈرے نہیں تھے بلکہ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم گرفتاری نہیں دیں گے اور گیارہ مئی کو مظفر آباد میں دھرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم مظفر آباد جانے کے لیے تیار ہیں۔ راستے میں کسی بھی رکاوٹ کو برداشت نہیں کریں گے۔
ڈھڈیال سے صحافی حافظ مقصود کے مطابق ڈھڈیال میں بھی گذشتہ دو روز سے ہڑتال جاری ہے اور دو روز قبل پولیس اور مظاہرین کے درمیاں تصادم بھی ہوا تھا، جس کے بعد حالات سنگین ہو گئے تھے۔
حافظ مقصود کے مطابق آج ڈھڈیال میں لوگ صبح ہی باہر نکل آئے تھے۔ اس وقت پر ایکشن کمیٹی کے رہنما خواجہ مہران جو کہ گرفتاری کی وجہ سے روپوش تھے وہ بھی اپنی والدہ کے ہمراہ منظر عام پر آ گئے ہیں اور انھوں نے لوگوں سے خطاب کیا اور سب سے کہا کہ امن کو قائم رکھا جائے اور اگر انتظامیہ بند راستے نہیں کھولے گی تو ڈھڈیال شہر میں دھرنا دیا جائے گا۔
حافظ مقصود کا کہنا تھا کہ اس کے بعد مظاہرین نے خیمے لگا کر دھرنا دے دیا ہے اور کہا جارہا ہے کہ جب تک راستے نہیں کھلیں گے دھرنا ختم نہیں ہوگا اور رود کو بھی کھولا نہیں جائے گا۔
کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد سے صحافی طارق نقاش کے مطابق مظفر آباد میں دو روز سے نظام زندگی معطل ہے۔
دوسرے روز بھی شٹر ڈاون اور پہیہ جام ہڑتال جاری ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ بہت کم لوگ سڑکوں پر موجود ہیں۔
اس وقت پولیس کی بھاری نفری مظفر آباد کے مختلف مقامات پر موجود ہے۔ مظفر آباد کے تمام داخلی اور خارجی راستے انتظامیہ اور پولیس نے بند کردیے ہیں۔
طارق نقاش کے مطابق گذشتہ روز پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم ہوا تھا جس میں سارا دن پولیس شیلنگ کرتی رہی جس سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ آج ایک دو مقامات پر پولیس اور مظاہرین کے درمیاں جھڑپیں ہوئی ہیں۔
مظفر آباد سے ایکشن کمیٹی کے ممبر امجد خان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ موجودہ احتجاج کا اعلان اپنے گذشتہ احتجاج اور دھرنا جو کہ فروری میں ہوا تھا کا تسلسل تھا۔
اس وقت جب احتجاج اور دھرنا ختم کیا گیا تھا تو اس وقت ہی کہہ دیا تھا کہ اگر ہمارے دس نکاتی مطالبات جن میں بجلی کی قیمت میں کمی، آٹا پر سبسڈی، پراپرٹی پر ٹیکس، روزگار کے مواقع، غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی جیسے مطالبات منظور نہ ہوئے تو گیارہ مئی کو مظفر آباد میں احتجاج او ردھرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے مطالبات منظور نہیں ہوئے۔ حکومت صرف مزاکرات کرتی رہی مطالبہ کوئی تسلیم نہیں کیا جس کے بعد گیارہ مئی کے دھرنے پر عمل در آمد کا اعلان کیا گیا۔
امجد خان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ حکومت بوکھلائی ہوئی تھی اس نے گیارہ مئی سے پہلے ہی گرفتاریاں شروع کردیں، جس کی وجہ سے لوگ مزاحمت پر اتر آئے اور انھوں نے احتجاج شروع کردیا۔
ان کے مطابق حکومت نے اس احتجاج کو دبانے کے لیے تشدد کا سہارا لیا مگر لوگ ڈٹے رہے تو انھوں نے اب پورے کشمیر کو پولیس کالونی میں تبدیل کردیا ہے۔
امجد خان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اس وقت کشمیر میں مختلف مقامات پر بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی ہیں۔ لوگ ان رکاوٹوں کو عبور کریں گے اور اگر عبور نہیں کرسکے تو وہاں ہی پر دھرنا ہوگا۔ مگر احتجاج ختم نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ مظفر آباد میں لوگ تیار ہیں۔ قافلے پہنچنے پر اسمبلی کے سامنے دھرنا ہوگا اور یہ پر امن ہوگا۔ حکومت فی الفور تمام رکاوٹیں ختم کرے۔
عبدالماجد خان نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ بے بنیاد احتجاج ہے۔ حکومت نے عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت کے ساتھ مزاکرات کیے، ان میں جو مطالبات منظور ہوسکتے ہیں، منظور کیے۔ مگر اب یہ لوگ خود معاہدے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ ان کے مطابق اب یہ مظاہرین مزاکرات پر بھی راضی نہیں ہیں۔