سعودی عرب میں جدید شہر کی تعمیر کے لیے درکار زمین کے حصول کے لیے سعودی فورسز کو شہریوں کے ’قتل کی اجازت‘ دی گئی

سعودی عرب کے ایک سابق انٹیلیجنس افسر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ سعودی حکام نے صحرائے عرب میں ’نیوم‘ نامی سرسبز اور مستقبل کے انتہائی جدید شہر کی تعمیر کے لیے مقامی لوگوں سے زمین خالی کروانے کے لیے ’جان لیوا اور مہلک طاقت‘ کے استعمال کی اجازت دے رکھی ہے تاکہ مغربی کمپنیاں اس منصوبے پر کام مکمل کر سکیں۔

کرنل ربیح الینیزی نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اُن کو نیوم شہر کے ایک پراجیکٹ ’دی لائن‘ کی تعمیر کے لیے ایک مقامی قبیلے سے جگہ خالی کروانے کا حکم دیا گیا تھا۔ تاہم قبیلے کا ایک فرد، جو اپنی آبائی زمین سے بیدخلی کے خلاف احتجاج کر رہا تھا، کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

سعودی عرب کی حکومت اور نیوم منصوبے کی انتظامیہ نے ان الزامات پر جواب دینے سے انکار کیا ہے۔

واضح رہے کہ ’نیوم‘ نامی شہر بسانے کا منصوبہ محمد بن سلمان کے سعودی وژن 2030 کا حصہ ہے، جس کے تحت 500 ارب ڈالر کی لاگت سے سعودی عرب تیل کی دولت پر اپنا انحصار کم کر کے اپنی معیشت کو متنوع بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

نیوم کا سب سے اہم حصہ ’دی لائن‘ نامی منصوبہ ہے جو ایک لکیر کی شکل میں بسایا جائے گا۔ یہ 200 میٹر چوڑا لیکن 170 کلومیٹر طویل شہر ہو گا جہاں گاڑیاں نہیں چلیں گی۔ بتایا جا رہا ہے کہ 2030 تک اس مجوزہ شہر کا صرف 2.4 کلومیٹر حصہ ہی مکمل ہو پائے گا۔ نیوم کی تعمیر کے منصوبے میں متعدد عالمی کمپنیاں شامل ہیں جن میں سے کئی برطانیہ سے تعلق رکھتی ہیں۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے نیوم منصوبے کے لیے مختص علاقے کو کسی ’خالی کینوس‘ سے تشبیہ دی تھی۔ تاہم سعودی حکومت کے مطابق اب تک چھ ہزار افراد کو اس منصوبے کی وجہ سے نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ برطانیہ میں انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیم ’القسط‘ کے مطابق یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

بی بی سی نے الخریبہ، شرما اور گیال نامی تین گاؤں، جنھیں اس شہر کو آباد کرنے کے لیے اپنی جگہوں سے ہٹایا گیا ہے، کا سیٹلائیٹ تصاویر کے ذریعے جائزہ لیا تو علم ہوا کہ ان دیہات میں موجود مکانات، سکولوں اور ہسپتالوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے۔

سعودی عرب
،شرما گاؤں کی تباہی سے پہلے (بائیں جانب) اور تباہی کے بعد (دائیں جانب) کے مناظر

کرنل الینیزی نے گذشتہ سال برطانیہ میں جلاوطنی اختیار کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کو ’دی لائن‘ منصوبے کے جنوب میں ساڑھے چار کلومیٹر دور واقع الخریبہ گاوں کو خالی کروانے کا حکم ملا تھا۔ اس گاؤں کی آبادی ’حویتات‘ نامی قبیلے سے تعلق رکھتی تھی جو صدیوں سے سعودی عرب کے شمال مغرب میں واقع تبوک خطے میں رہتے چلے آئے ہیں۔

کرنل الینیزی کا کہنا ہے کہ اپریل 2020 میں ان کو جو سرکاری حکمنامہ ملا اس کے مطابق قبیلے میں ’کئی باغی‘ موجود تھے اور ’اگر کوئی مزاحمت کرے تو اسے مار دینا چاہیے۔ تو ایک طرح سے ان لوگوں کے خلاف مہلک طاقت کے استعمال کی اجازت تھی جو اپنے گھروں سے بیدخلی کے خلاف تھے۔‘

کرنل الینیزی نے بی بی سی کو بتایا کہ خود انھوں نے تو طبی بنیادوں پر اس مشن سے جان چھڑوا لی لیکن یہ مشن بعدازاں مکمل کیا گیا۔

اس گاؤں کے رہائشی عبدالرحیم الحویتی نے لینڈ رجسٹری کمیٹی کو اپنی زمین کی مالیت کا تخمینہ لگانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ایک دن بعد سعودی حکام نے انھیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس سے قبل سوشل میڈیا پر انخلا کے خلاف ان کی جانب سے متعدد احتجاجی ویڈیوز پوسٹ کی گئی تھیں۔

سعودی سکیورٹی کی جانب سے اس موقع پر ایک بیان جاری کیا گیا جس میں الزام عائد کیا گیا کہ عبدالرحیم نے سرکاری اہلکاروں پر گولی چلائی جس کے بعد اہلکاروں کو اپنے دفاع میں کارروائی کرنا پڑی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے مطابق عبدالرحیم کو انخلا کے خلاف مزاحمت کرنے پر قتل کیا گیا۔

بی بی سی کرنل الینیزی کی جانب سے مہلک اور جان لیوا طاقت کے استعمال کے بارے میں کیے جانے والے دعوؤں کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا۔ تاہم سعودی انٹیلیجنس ڈائریکٹوریٹ کی کارروائیوں سے واقف ایک ذریعے نے ہمیں بتایا ہے کہ کرنل الینیزی کی حکمنامے کے بارے میں گواہی ایسے ہی ملتے جلتے سعودی مشن سے متعلق ان کے اپنے علم سے مطابقت رکھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کرنل الینیزی کا عہدہ ایسے مشن کی سربراہی کے لیے بلکل موزوں تھا۔

کرنل الینیزی
،کرنل الینیزی کہتے ہیں کہ ’نیوم محمد بن سلمان کے تصور کا مرکزی حصہ ہے اور اسی لیے حویتات سے اتنے ظالمانہ طریقے سے برتاؤ کیا گیا‘

اقوام متحدہ اور القسط کے مطابق انخلا کے خلاف مزاحمت کرنے پر 47 افراد کو حراست میں لیا گیا جن میں سے اکثر کو انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت سزائیں سنائی گئیں۔ القسط کا کہنا ہے کہ پانچ افراد کو موت کی سزا سنائی گئی ہے جبکہ چالیس قید میں ہیں۔ القسط کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہت سے لوگوں کو صرف اس لیے گرفتار کیا گیا کہ انھوں نے عبدالرحیم کی موت کے بعد سوشل میڈیا پر اظہار افسوس کیا تھا۔

سعودی حکام کا کہنا ہے کہ دی لائن منصوبے کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والوں کو مالی معاوضہ دیا گیا ہے۔ القسط کا کہنا ہے کہ دیا جانے والے معاوضہ اس رقم سے بہت کم ہے جس کا پہلے وعدہ کیا گیا تھا۔

کرنل الینیزی کہتے ہیں کہ ’نیوم محمد بن سلمان کے تصور کا مرکزی حصہ ہے اور اسی لیے حویتات سے اتنے ظالمانہ طریقے سے برتاؤ کیا گیا۔‘

نیوم کے سکی پراجیکٹ کے ایک سابقہ سینیئر ایگزیکٹیو نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے عبدالرحیم کی ہلاکت کے بارے میں اس وقت سُنا جب وہ اس منصوبے پر کام کرنے کے لیے چند ہفتوں بعد امریکہ سے روانہ ہونے والے تھے۔ اینڈی ورتھ کا کہنا ہے کہ انھوں نے مالکان سے مقامی آبادی کے انخلا کے بارے میں بارہا سوال کیا لیکن وہ جواب سے مطمئن نہیں ہوئے۔

’ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ان لوگوں کے ساتھ کچھ بہت بُرا کیا گیا ہے۔ آپ آگے بڑھنے کے لیے کسی کے گلے پر اپنا بوٹ نہیں رکھ سکتے۔‘ منصوبے کی انتظامیہ سے غیر مطمئن اینڈی ورتھ نے منصوبے کا حصہ بن جانے کے صرف ایک ہی سال بعد اسے چھوڑ دیا۔

ایک برطانوی ڈی سیلینیشن کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو، جنھوں نے 2022 میں ’دی لائن‘ منصوبے کے تحت 100 ملین ڈالر کے ایک پراجیکٹ کو خیرباد کہہ دیا تھا، بھی اس کے شدید ناقد ہیں۔

سولر واٹر پی ایل سی کے سی ای او میلکم کا کہنا ہے کہ ’شاید یہ منصوبہ اس علاقے میں رہنے والے چند ہائی ٹیک لوگوں کے لیے اچھا ہو لیکن باقی لوگوں کا کیا؟‘

وہ کہتے ہیں کہ ’مقامی لوگوں کی قدر کرنی چاہیے کیوں کہ وہ اس علاقے کو سمجھتے ہیں۔ کچھ بنانے کی، کچھ بہتر کرنے کے لیے ان کو ہٹائے بغیر ان سے مشورہ کرنا چاہیے۔‘

جن لوگوں کو انخلا کا سامنا کرنا پڑا وہ اس معاملے پر بات کرنے سے گریزاں تھے کیوں کہ ان کو خطرہ تھا کہ غیر ملکی میڈیا سے بات چیت کرنا ان کے ایسے رشتہ داروں کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے جو اب بھی زیر حراست ہیں۔

تاہم بی بی سی نے سعودی وژن 2030 سکیم کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے دیگر افراد سے بات چیت کی ہے۔ جدہ سینٹرل پراجیکٹ کی وجہ سے تقریبا 10 لاکھ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت جدہ میں اوپرا، کھیلوں کے لیے مختص علاقہ اور پرآسائش رہائشی یونٹ بنائے جانے ہیں۔

جدہ
،جدہ سینٹرل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شہزادہ محمد بن سلمان بھی ہیں

نادر حجازی (فرضی نام) عزیزیہ میں پلے بڑھے جو انخلا سے متاثر ہونے والے 63 علاقوں میں سے ایک تھا۔ ان کے والد کا گھر 2021 میں گرا دیا گیا تھا جس کے بارے میں حکام نے ان کو صرف ایک ماہ قبل مطلع کیا۔

نادر کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے پرانے رہائشی علاقے کی تصاویر دیکھی ہیں جو اب جنگ زدہ علاقہ لگتا ہے۔ ’وہ لوگوں کے خلاف جنگ کر رہے ہیں، ہماری شناخت کے خلاف جنگ۔‘

سعودی سماجی کارکنوں نے بی بی سی کو دو ایسے افراد کے بارے میں بتایا ہے جن کو گزشتہ سال جدہ سے گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے ایک کو منتقلی کے خلاف جسمانی مزاحمت جبکہ دوسرے کو سوشل میڈیا پر مکانات گرائے جانے کے خلاف دیواروں پر تحریر عبارتوں کی تصاویر لگانے پر گرفتار کیا گیا۔

جدہ کی مرکزی جیل میں قید ایک شخص کے رشتہ دار نے بتایا کہ انھوں نے سُنا ہے کہ وہاں 15 اور لوگ بھی قید ہیں جنھوں نے مبینہ طور پر ایک ایسے علاقے میں الوداعیہ تقریب کا اہتمام کیا تھا جہاں مکانات تباہ کیے جانے تھے۔ تاہم سعودی جیل میں قید افراد سے رابطہ کرنے کی مشکلات کی وجہ سے ہم اس دعوے کی تصدیق نہیں کر پائے۔

محمد بن سلمان

القسط تنظیم نے جدہ سے نقل مکانی کرنے والے 35 لوگوں سے بات کی ہے اور ان میں سے کسی کو بھی معاوضہ نہیں ملا۔ ان کے مطابق مقامی قوانین کے مطابق ان کو پیشگی اطلاع بھی بہت کم وقت پہلے ملی۔ تقریبا نصف کے مطابق ان کو گرفتاری کی دھمکی دے کر گھر خالی کرایا گیا۔

کرنل الینیزی اب برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں لیکن اپنی سکیورٹی کے بارے میں فکرمند ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک انٹیلیجنس افسر نے ان کو بتایا ہے کہ اگر وہ لندن کے سعودی سفارت خانے میں سعودی وزیر داخلہ سے ملاقات پر رضامند ہوں تو ان کو پانچ ملین ڈالر دیے جائیں گے۔ کرنل الینیزی کے مطابق انھوں نے اس ملاقات سے انکار کر دیا۔ بی بی سی نے یہ الزام سعودی حکومت کے سامنے رکھا تاہم انھوں نے اس پر جواب نہیں دیا ہے۔

سعودی حکومت کے بیرون ملک رہنے والے ناقدین پر حملے ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ 2018 میں صحافی جمال خاشقجی کو ترکی کے شہر استنبول میں سعودی سفارت خانے میں قتل کر دیا گیا تھا جس کے بعد امریکی خفیہ ایجنسی کی رپورٹ میں اس آپریشن کی منظوری محمد بن سلمان کی جانب سے دیے جانے کا دعوی سامنے آیا تھا۔ سعودی ولی عہد نے جمال خاشقجی کے قتل میں کسی قسم کے کردار سے انکار کیا ہے۔

کرنل الینیزی کو اس بات پر کوئی رنج نہیں کہ انھوں نے مستقبل کے شہر کے حوالے سے سعودی حکام کا حکم ماننے سے انکار کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’محمد بن سلمان نیوم کی تعمیر کے راستے میں کسی کو کھڑا نہیں ہونے دے گا، مجھے یہ پریشانی لاحق ہو گئی تھی کہ مجھ سے اپنے ہی لوگوں کے خلاف کیا کرنے کو کہا جائے گا۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں