کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے الزام میں تین انڈین شہری گرفتار

کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے الزام میں تین انڈین شہریوں کو گرفتار کر کے ان پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے جبکہ کینیڈا کی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کی بھی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا ان افراد کے انڈیا کی حکومت سے روابط تھے یا نہیں۔

45 سالہ ہردیپ سنگھ نجر کو گزشتہ سال جون میں وینکوور کے مضافاتی علاقے میں ایک مصروف کار پارک میں نقاب پوش بندوق برداروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے کے چند ماہ بعد کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا تھا کہ اس قتل میں انڈیا ملوث ہو سکتا ہے جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تنازع بڑھ گیا تھا ۔ تاہم، دہلی نے اس الزام کی سختی سے تردید کی تھی۔

جمعہ کے دن کینیڈا میں گرفتاریوں کا اعلان کرتے ہوئے سپرنٹنڈنٹ مندیپ موکر نے کہا کہ تینوں مشتبہ افراد کی شناخت 22 سالہ کرن برار، 22 سالہ کمل پریت سنگھ اور 28 سالہ کرن پریت سنگھ کے طور پر کی گئی ہے اور ان پر قتل اور اقدام قتل کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

سپرنٹنڈنٹ مندیپ موکر کا کہنا تھا کہ تینوں افراد ایڈمنٹن، البرٹا میں رہ رہے تھے جہاں سے انھیں گرفتار کیا گیا۔ سپرنٹنڈنٹ موکر کے مطابق گرفتاری کے دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔

کینیڈین پولیس نے ہنگامی پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ اس معاملے کی تفتیش جاری ہے اور اس تفتیش میں امریکی ایجنسیوں سمیت قانون نافذ کرنے والے دیگر غیرملکی اور ملکی ادارے تعاون کر رہے ہیں۔ تاہم، انھوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔

پولیس کے مطابق گرفتار ہونے والے تینوں افراد تین سے پانچ سال پہلے انڈیا سے کینیڈا آئے تھے اور البرٹا کے شہر ایڈمنٹن میں رہائش پذیر تھے۔

پولیس کے مطابق، ملزمان نے اپنی شناخت چھپانے کے لیے اپنے چہروں کی ساخت میں بھی کچھ تبدیلی کر رکھی تھی۔

پولیس کا کہنا تھا کہ تینوں افراد کی تصاویر اور قانونی نام جلد منظر عام پر لائے جائیں گے جبکہ تینوں ملزمان کو پیر کے روز برٹش کولمبیا میں عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

اس سوال کے جواب پر کہ کیا یہ افراد کسی اور قتل میں بھی ملوث ہیں یا ان کا تعلق کسی مخصوص گینگ سے ہے، اسسٹنٹ کمشنر ڈیوڈ ٹیبول نے کہا: ’یقیناً کینیڈا میں ہونے والے چند اور اس قسم کے معاملات ہیں اور ان کی علیحدہ سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ لیکن آج ہونے والی گرفتاریوں کا تعلق صرف ہردیپ سنگھ نجر کے قتل سے متعلق ہے۔‘

تاہم، پولیس کا کہنا ہے کہ ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں اور لوگ بھی ملوث ہو سکتے ہیں، اور اس سلسلے میں مزید گرفتاریاں بھی جلد عمل میں لائی جا سکتی ہیں۔

پولیس کا کہنا تھا کہ چونکہ تفتیش کی جا رہی ہے لہذا ابھی یہ تفصیلات نہیں دی جا سکتیں کہ آیا انڈیا کی حکومت کا ان تینوں افراد سے کوئی تعلق ہے یا نہیں۔ انھوں نے یہ بتانے سے بھی انکار کیا کہ آیا ان گرفتاریوں کے بعد انڈین حکام نے کینیڈا سے کوئی رابطہ کیا ہے یا نہیں۔

ہردیپ سنگھ نِجر
،تصویر کا کیپشنہردیپ سنگھ نجر کی آخری رسومات کی تصاویر

دوسری جانب، بدھ کے روز وائٹ ہاؤس نے کینیڈا اور امریکہ میں قتل کی سازشوں میں انڈین انٹیلی جنس سروس کے مبینہ کردار پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ وائٹ ہاوس کی پریس سیکرٹری کرین ژاں پئیر کا کہنا تھا کہ ’امریکہ اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھ رہا ہے۔‘

45 سالہ ہردیپ سنگھ نِجر انڈیا کو کئی کیسوں میں مطلوب تھے کیونکہ وہ انڈیا کی مغربی ریاست پنجاب میں ایک علیحدہ سکھ ریاست کے حامی تھے اور وہ دنیا بھر میں اس کی حمایت میں آن لائن ریفرینڈم میں پیش پیش رہتے تھے۔

نجر نے ایک آزاد سکھ ریاست خالصتان کے لیے تحریک چلائی تھی اور جولائی سنہ 2020 میں انڈیا نے انھیں ’دہشت گرد‘ قرار دیا تھا اور ان کی گرفتاری کے لیے دس لاکھ روپے کی انعامی رقم رکھی گئی تھی۔

نِجر نے انڈیا کے ان الزامات مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ کینیڈا میں پلمبنگ کا کام کرتے ہیں لیکن انھیں وہاں لوگ سکھ رہنما کے طور پر دیکھتے تھے۔

ہردیپ سنگھ نجر کون تھے؟

ہردیپ سنگھ نِجر کا تعلق انڈین ریاست پنجاب کے جالندھر ضلع کے گاؤں بھرا سنگھ پورہ سے تھا۔ انڈین حکومت کے مطابق نِجر علیحدگی پسند تنظیم خالصتان ٹائیگر فورس کے سربراہ تھے اور خالصتان ٹائیگر فورس کے ماڈیول ارکان کو آپریشن، نیٹ ورکنگ، تربیت اور مالی مدد فراہم کرنے میں سرگرم تھے۔

پنجاب حکومت کے مطابق نیشنل انوسٹیگشن ایجنسی (این آئی اے) نے جالندھر کے پھیلور سب ڈویژن میں ان کے آبائی گاؤں بھرا سنگھ پورہ میں واقع نجر کی کل 11 کنال 13.5 مرلہ اراضی ضبط کر لی تھی۔

پنجاب میں نجر کی جائیدادیں 2020 میں ان کی آن لائن مہم ’سکھ ریفرنڈم 2020‘ کی وجہ سے ضبط کی گئی تھیں۔

نجر سنہ 1997 میں کینیڈا چلے گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کینیڈا آنے کے بعد کبھی انڈیا واپس نہیں گئے لیکن کووڈ 19 لاک ڈاؤن سے پہلے ان کے والدین اپنے آبائی گاؤں ضرور آئے تھے۔ نجر شادی شدہ تھے اور انھوں نے سوگواروں میں اپنے والدین کے ساتھ اپنی اہلیہ اور دو بیٹے چھوڑے ہیں۔

انڈیا کی قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے الزام عائد کیا تھا کہ نجر مبینہ طور پر سنہ 2013 سے 2014 کے درمیان خالصتان ٹائيگر فورس (کے ٹی ایف) کے سربراہ جگتار سنگھ تارا سے ملنے کے لیے پاکستان گئے تھے۔

تارا کو سنہ 2015 میں تھائی لینڈ سے گرفتار کر کے انڈیا لایا گیا تھا۔

ایجنسی کے مطابق نجر کا تعلق انڈیا میں کالعدم تنظیم ’سکھ فار جسٹس‘ سے بھی تھا۔ نجر کو حال ہی میں آسٹریلیا میں خالصتان ریفرنڈم کے لیے ووٹنگ کے دوران دیکھا گیا تھا۔

ہردیپ سنگھ نِجر
،تصویر کا کیپشنہردیپ سنگھ نِجر انڈیا کی مغربی ریاست پنجاب میں ایک علیحدہ سکھ ریاست کے حامی تھے

ہردیپ سنگھ نجر کا قتل کیسے ہوا؟

وہ 18 جون 2023 کی ایک عام سی اتوار کی شام تھی۔ دنیا بھر میں اور سوشل میڈیا پر ’فاردز ڈے‘ منایا جا رہا تھا جبکہ کینیڈا کے برٹش کولمبیا کے سرے قصبے میں گرودوارہ نانک صاحب میں شام کی پراتھنا (عبادت) کے لیے معمول کے مطابق عقیدت مند جمع تھے کہ اچانک پارکنگ کے حصے سے فائرنگ کی آواز آنا شروع ہو گئی۔

کینیڈا کی پولیس کے مطابق دو نامعلوم نقاب پوش افراد نے ایک شخص کو نشانہ بنایا اور ان پر پے در پے کئی گولیاں داغ دیں۔ پولیس نے مرنے والے شخص کی شناخت گرودوارے کے صدر ہردیپ سنگھ نِجر کے طور پر کی۔

ان کے قتل کو کینیڈا میں بسنے والی سکھ برادری نے ’سیاسی قتل‘ قرار دیا اور ٹورنٹو اور وینکوور سمیت متعدد شہروں میں اس کے خلاف مظاہرے ہوئے۔

ہردیپ سنگھ نجر پر انڈیا میں کیا الزامات تھے؟

انڈیا کی ایجنسی این آئی اے نے نجر پر 10 لاکھ روپے نقد انعام کا اعلان کر رکھا تھا۔

انڈین پنجاب پولیس کے مطابق نجر کا نام اس مطلوبہ فہرست میں بھی شامل تھا جو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے سنہ 2018 میں انڈیا کے دورے پر آنے والے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کو پیش کی تھی۔

دسمبر 2020 میں این آئی اے کے ذریعے درج ایف آئی آر میں بھی نجر کا نام شامل تھا جب پنجاب اور دیگر ریاستوں کے کسان دہلی میں زراعت سے متعلق تین وفاقی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مستقل احتجاج کے بعد یہ قوانین واپس لے لیے گئے۔

این آئی اے نے اس ایف آئی آر میں کئی سکھ کارکنوں کا نام لیا تھا جن میں ہردیپ سنگھ نجر، گروپتونت سنگھ پنوں اور پرمجیت سنگھ پما شامل تھے۔

ان افراد پر ’لوگوں میں خوف پیدا کرنے، لوگوں میں مایوسی پیدا کرنے اور انھیں انڈیا کے خلاف اکسانے اور بغاوت کی سازش‘ کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

وینکوور پوسٹ کے مطابق سنہ 2016 میں انڈین حکومت نے نجر پر انڈیا میں ایک ہندو پجاری کے قتل کی سازش کا الزام لگایا تھا۔ انڈین میڈیا رپورٹس نے سنہ 2007 میں پنجاب کے ایک سینما ہال میں ہونے والے بم دھماکے سے بھی انھیں منسلک کیا تھا جس میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

وینکوور پوسٹ کے مطابق نجر نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان پر لگائے گئے الزامات جھوٹے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’میں 1997 سے یہاں رہ رہا ہوں۔ میں انڈیا واپس نہیں گیا۔‘ نجر نے گذشتہ سال پوسٹ میڈیا کے رپورٹر کم بولان کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’میں ایک پلمبر ہوں اور گوردوارے کے لیے سخت محنت کر رہا ہوں۔ میں ایک کمیونٹی سرونٹ ہوں، ٹھیک ہے؟‘

کینیڈین اخبار کے مطابق انھوں نے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کو خط لکھا تھا اور ان پر زور دیا تھا: ’میرے خلاف انڈین حکومت کے من گھڑت، بے بنیاد، فرضی اور سیاسی طور پر متاثر الزامات کو ختم کریں۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں