پاکستان میں بڑی گاڑیوں پر پرائس کٹ تو چھوٹی گاڑیوں پر کیوں نہیں: ’ایک کار کی قیمت 15 لاکھ کم ہوئی، آپ کمپنیوں کے منافع کا اندازہ لگائیں‘

پاکستان میں چند روز قبل صارفین اُس وقت خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوئے جب گاڑیاں بنانے والی ایک کمپنی نے اپنی ایک کار کی قیمت 15 لاکھ روپے کم کرنے کا اعلان کیا۔

’کِیا لکی موٹرز‘ نے 29 اپریل کو یہ پیشکش دی کہ نئی ’کِیا سٹونک‘ کو خریدنے کے خواہشمند صارف 62 لاکھ روپے کی بجائے اب یہ کار 47 لاکھ روپے میں خرید سکتے ہیں۔

مگر اس ’محدود مدت کی آفر‘ کے اجرا کے دو روز بعد ہی (یکم مئی) کمپنی نے بتایا کہ ستمبر 2024 تک کی بُکنگ مکمل ہو چکی ہے اور اب اس مخصوص گاڑی کی اگلی بکنگ اکتوبر 2024 میں کُھلے گی۔

پاکستان میں گذشتہ چند دنوں کے دوران کئی کمپنیوں نے اپنی بڑی گاڑیوں کی قیمتیں کم کی ہیں اور گاڑیوں کی صنعت سے منسلک ماہرین اس کی وجہ پاکستان میں نئی گاڑیوں کی فروخت میں کمی کو قرار دے رہے ہیں۔

پاکستان میں کون سی گاڑیاں سستی ہوئی ہیں؟

’کِیا لکی موٹرز‘ کے علاوہ رواں ماہ کے آغاز پر سوزوکی نے بھی اپنی گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا ہے۔

یکم مئی کو سوزوکی سوئفٹ کی قیمت میں سات لاکھ 10 ہزار روپے تک کی کمی کی گئی ہے۔ اب اس کے ٹاپ ویریئنٹ کی قیمت 54 لاکھ 29 ہزار سے کم ہو کر 47 لاکھ 19 ہزار روپے ہو گئی ہے۔

اس سے قبل اپریل میں فرانسیسی کمپنی پیجو کی کاروں کی قیمت میں ساڑھے تین لاکھ سے لے کر پانچ لاکھ روپے تک کی کمی کی گئی۔ اب اس کے ٹاپ ویریئنٹ کی قیمت 77 لاکھ کی بجائے 72 لاکھ 50 ہزار روپے ہے۔ جبکہ اس سے قبل مارچ میں یہ کار ایک لاکھ روپے سستی ہوئی تھی۔

مارچ کے دوران ہی ’کِیا سپورٹیج‘ کی قیمت میں تین لاکھ روپے کی کمی کی گئی تھی۔

رواں ماہ ہنڈا سٹی 1.2 کی قیمت میں ایک لاکھ چالیس ہزار روپے تک کی کمی کی گئی۔ اس کے آٹو میٹک ویریئنٹ کی قیمت 48 لاکھ 29 ہزار کی بجائے 46 لاکھ 89 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔ جبکہ اسی عرصے میں ٹویوٹا یارس کی قیمت میں ایک لاکھ 33 ہزار روپے تک کی کمی ہوئی جس کے بعد اس کے 1.3 آٹو میٹک ویریئنٹ کی قیمت 47 لاکھ 66 ہزار روپے ہو گئی ہے۔

یاد رہے کہ حکومت نے چند ماہ قبل 40 لاکھ روپے سے زیادہ مالیت کی تمام گاڑیوں پر سیلز ٹیکس یعنی جی ایس ٹی کی شرح 18 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کر دیا تھا۔

مگر جہاں بڑی ایس یو وی اور سیڈان گاڑیوں کی قیمتیں کم ہوئی ہیں، وہیں اس سے برعکس یکم مارچ سے پاک سوزوکی نے اپنی کاروں کی قیمت میں 80 ہزار سے ایک لاکھ 80 ہزار روپے تک کا اضافہ کیا تھا۔

سب سے بڑا اضافہ سوزوکی کلٹس (اے جی ایس) کی قیمت میں ہوا جو 43 لاکھ 66 ہزار سے بڑھ کر 45 لاکھ 46 ہزار کی ہو گئی ہے۔ جبکہ آلٹو (وی ایکس آر اے جی ایس) کی قیمت ایک لاکھ 10 ہزار روپے کے اضافے کے ساتھ 30 لاکھ روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔

مگر گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کی جانب سے پرائس کٹ کا یہ رجحان نئی چھوٹی گاڑیوں میں نہیں دیکھا گیا جن کی قیمتیں بتدریج زیادہ ہیں اور وہ قوت خرید سے مطابقت نہیں رکھتیں۔

اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کمپنیاں پاکستان میں اپنی ایس یو وی کاروں پرائس کٹ لگا سکتی ہے تو اپنی چھوٹی کاروں جیسا کہ کِیا موٹرز کی پیکانٹو پر کیوں نہیں؟

پاکستان، گاڑیاں

چھوٹی گاڑیاں پرائس کٹ سے محروم

’کِیا لکی موٹرز‘ کو ’کِیا سٹونک‘ پر دی گئی اپنی محدود مدت کی پیشکش پر ’زبردست رسپانس‘ ملا ہے۔ مگر اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان میں گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں ایسی پیشکش متوسط طبقے کی کسی چھوٹی گاڑی پر کیوں نہیں دے رہیں۔

پاکستان میں کار ڈیلرز ایسوسی ایشن کے سربراہ ایچ ایم شہزاد نے کہا کہ اگر ایک کمپنی اپنی گاڑی پر 15 لاکھ روپے کا ڈسکاؤنٹ لگا سکتی ہے تو یہ سوچنے کی بات ہے کہ اُن کے پرافٹ مارجن کتنے ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ اگر پاکستان میں گاڑیاں فروخت نہیں ہو رہیں تو بظاہر ایسی آفرز کا مقصد ’سرمایہ کاروں سے پیسے اکٹھے کرنا ہے۔‘

انھوں نے مثال دیتے ہیں کہ پاکستان میں 30 لاکھ کی فروخت ہونے والی چھوٹی گاڑی ’آلٹو‘ انڈیا میں ’چار لاکھ انڈین روپے کی ہے‘۔ انھوں نے کہا کہ اگر پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی بنیاد پر بھی دیکھا جائے تو دونوں ممالک میں اس گاڑی کی قیمتوں میں فرق کافی نمایاں ہے۔

ایچ ایم شہزاد اس کی وجہ لوکلائزیشن (یعنی مقامی سطح پر کاروں کی تیاری نہ ہونے) کو قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث ’ہم پاکستان کے شہریوں کو دنیا کی مہنگی ترین کاریں خریدنے پر مجبور کر رہے ہیں۔‘

ماہرین کے مطابق پاکستان میں گذشتہ دو سال کے عرصے کے دوران روپے کی قدر میں بےتحاشہ کمی اور بلند شرح سود کی بدولت گاڑیوں کی فروخت کم ہوئی ہے۔

ایچ ایم شہزاد کی رائے ہے کہ چینی، جاپانی اور جنوبی کورین ’اسمبلرز‘ کی توجہ محض بڑی گاڑیوں کی طرف ہے۔

گاڑیوں کی صنعت کے بعض ماہرین کا مؤقف ہے کہ پاکستان میں چھوٹی گاڑیوں پر منافع کم ہوتا ہے اور اسی لیے اکثر کمپنیاں چھوٹی گاڑیوں کی بجائے آئے روز بڑی ایس یو وی گاڑیاں متعارف کروا رہی ہیں جن میں پرافٹ مارجن زیادہ ہے۔

پیکانٹو

’کِیا موٹرز‘ نے ’سٹونک‘ کی بجائے اپنی چھوٹی کار ’پیکانٹو‘ پر پرائس کٹ کیوں نہ لگایا؟

کیا موٹرز کے چیف آپریٹنگ آفیسر محمد فیصل نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ صارفین کو مدِنظر رکھتے ہوئے کِیا سٹونک پر یہ آفر کمپنی کے پانچ سالہ آپریشنز مکمل ہونے پر محدود مدت کے لیے دی گئی تھی۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سوزوکی کے بعد ’کِیا‘ پاکستان میں واحد کمپنی ہے جو نئی چھوٹی گاڑی فروخت کرتی ہے۔ تاہم بعض لوگوں کا اعتراض ہے کہ ایسی آفر کِیا کی چھوٹی کار پیکانٹو، جو 36 لاکھ روپے کی ہے، پر کیوں نہیں جو زیادہ لوگوں کی پہنچ میں آ سکتی تھی۔

اس پر محمد فیصل نے کہا کہ پیکانٹو کی قیمت پہلے ہی اپنے مقابلے کی دوسری گاڑیوں، جیسا کہ 38 لاکھ کی سوزوکی کلٹس، سے کم ہے۔ ’ہم نے اس کار (پیکانٹو) کی قیمت کو برقرار رکھا ہوا ہے جبکہ سوزوکی نے کلٹس کی قیمت میں اضافہ کیا۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’میں مانتا ہوں کہ اس کے باوجود یہ بہت سے لوگوں کی پہنچ سے دور ہے۔ پھر بھی وہ ایک مناسب قیمت پر ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کمپنی کو لگتا ہے کہ سٹونک مہنگی تھی اور صارف اسے افورڈ نہیں کر پا رہے تھے۔ تو ہم نے صارف کو فائدہ پہنچانے کے لیے محدود مدت کی پیشکش متعارف کرائی تھی۔‘

ہم نے ان سے پوچھا کہ آیا پاکستان میں کمپنیاں اس لیے چھوٹی گاڑیاں نہیں بنا رہیں کیونکہ اس میں منافع کم ہے تو محمد فیصل نے جواب دیا کہ ’میں یہ نہیں کہوں گا کہ چھوٹی گاڑی بنانا منافع بخش نہیں۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ اس کی کاسٹنگ (قیمت کا تعین) مشکل ہوتا ہے۔‘

ان کے بقول کرنسی میں ذرا سا رد و بدل یا حکومت کی جانب سے عائد کردہ کوئی نیا اضافی ٹیکس چھوٹی گاڑیوں کو ایک ’خطرناک پرائس پوائنٹ‘ پر لے جاتا ہے۔ ’یہ چیلنج رہتا ہے۔۔۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ چھوٹی کار کو زیادہ بیچیں، اس کی قیمت اتنی رکھیں کہ یہ زیادہ بِکے۔‘

دریں اثنا آٹو موٹیو ماہرین اس بارے میں متفق ہیں کہ حکومت کو آئندہ بجٹ میں گاڑیوں کی صنعت کو کچھ مراعات دینا ہوں گی تاکہ مزید پرائس کٹ ممکن ہو سکیں۔

یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ ملک میں گاڑی کی قیمت میں 45 سے 50 فیصد ٹیکس کا حصہ ہے، فیصل کہتے ہیں کہ اس ضمن میں حکومتی پالیسیوں میں تسلسل ہونا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ سیلز ٹیکس اور ڈیوٹی میں کمی پر پیداوار اور فروخت بڑھتی ہے تاہم اس سے فارن ایکسچینج ذخائر متاثر ہوتے ہیں اور معاشی مشکلات کے باعث پالیسی میں تسلسل نہیں رہ پاتا۔

فیصل کہتے ہیں کہ کوئی بھی کمپنی خوشی سے قیمت زیادہ نہیں کرتی۔ ’ہمیں پانچ سال کی صورتحال کا علم ہونا چاہیے۔ تاکہ ہم منصوبہ بندی کر سکیں۔‘

ادھر ایچ ایم شہزاد کی تجویز ہے کہ لوکلائزیشن، پالیسی اور ٹیکسز میں تسلسل اور معیار کچھ ایسے عوامل ہیں جن پر حکومت اور کار کمپنیوں دونوں کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں